نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

فروری, 2017 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

برادری کے نام پر حماقت بھری داستانیں

برادری کے نام پر حماقت بھری داستانیں (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) ہم جہاں عقائد کے اعتبار سے ٹکڑوں میں بٹے ہیں وہیں ہم نے تقسیم سے تقسیم در کے ضابطے پر عمل کرتے ہوئے خود ہو انسانوں کی دنیا میں تقسیم کرتے چلے جارہے ہیں ۔اسی تقسیم کاری کی ایک صورت ،بٹ ،گجر ،ملک ،وڑائچ ۔۔کنبو ۔۔۔جتوئی ۔۔۔۔۔۔وٹو ۔مینگل ۔۔۔مغل ۔۔پلیجو۔۔میواتی ۔۔۔۔سواتی ۔۔چوہدری ۔۔بھٹو۔ملک ۔سردار ۔۔تھکیال ۔۔۔ڈمال ۔۔۔وغیرہ ہے۔جس پر ہم نازکرتے ہیں ۔جس پر ہم نے اپنی بہت سی معاشرتی و ملی ترجیحات کو ترتیب دے رکھا ہے ۔میرے محلہ میں میرے علاقہ میں اسکول اور ڈسپنسری کی حاجت ہے ۔میرے علاقہ میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے ۔جب بات ان مسائل کے حل کی آتی ہے میں آپ ہم سب سراپائے احتجاج ہوجاتے ہیں ۔لیکن یاد رکھیں مسائل کے حل کا طریقہ کار ہے اس طریقہ کار پر چلیں گے تو آپ کے بچے کو جاب بھی ملے گی ۔بہتری بھی آئی گی ۔صحت و تعلیم کی سہولیات بھی ملیں گیں ۔لیکن آپ کے ساتھ ہوا کیا۔ہوا یہ کہ ایک طرف تو آپ نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو دوسری جانب آپ کی آنکھوں پر براری کی پٹی باندھ دی گئی ۔جس میں آپ نے جانتے بوجھتے ہوئے ۔بٹ برادری

سائنس اسلام کے دربار میں!

سائنس اسلام کے دربار میں! (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) اﷲ ربُّ العزت کی اس وسیع و عریض کائنات میں اس کی قدرت کی نشانیاں ہر شو بکھری پڑی ہیں۔ آخری وحی ’قرآنِ مجید‘ جہاں بنی نوعِ اِنسان کے لئے حتمی اور فطعی ضابطۂ حیات ہے، وہاں اس کائناتِ ہست و بود میں جاری و ساری قوانینِ فطرت بھی انسان کو الو ہی ضابطۂ حیات کی طرف متوجہ کرتے نظر آتے ہیں۔’قرآنِ مجید‘ خارجی کا ئنات کے ساتھ ساتھ نفسِ انسانی کے دروں خانہ کی طرف بھی ہماری توجہ دلاتا ہے اور دونوں عوالم میں قوانینِ قدرتِ الٰہیہ کی یکسانی میں غوروفکر کے بعد اپنے خالق کے حضور سر بسجدہ ہونے کا حکم دیتا ہے۔قرآنی علوم کے نور سے صحیح معنوں میں فیضیاب ہونے کے لئے ہمیں قرآنی آیات میں جا بجا بکھرے ہوئے سائنسی حقائق پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ اسلام نے اپنی پہلی وحی کے دِن سے ہی بنی نوعِ انسان کو آفاق و أنفس کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہونے کا حکم دیا۔ یہ اسلام ہی کی تعلیمات کا فیض تھا کہ دنیا کی اجڈ ترین قوم ’عرب‘ أحکام اِسلام کی تعمیل کے بعد محض ایک ہی صدی کے اندر دنیا تھر کی امامت و پیشوائی کی حق دار ٹھہریاور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا ک

آگ کی حیرت انگیز کہانی

آگ کی حیرت انگیز کہانی (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) گھر کو آگ لگی گھر کے چراغ سے ۔۔آگ لگادوں گا۔۔آگ جلاکر بھسم کردے گی ۔آگ جلا ڈالے گی ۔بچّوں کو بھی ڈراتے ہیں ۔آگ ہے آگ اُف جلادے گی جلادے گی ۔۔یہ وہ باتیں ہیں جو ہم اکثر سنتے رہتے ہیں ۔کافی عرصہ سے سوچ رہاتھا کہ آگ کے متعلق آپ تک کچھ ایسی مفید معلومات پہنچاوں کے آپ آگ کے جلانے کے اثر سے واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے بطور نعمت بھی جان سکیں اور اس کے متعلق اہم معلومات بھی فراہم کی جائے ۔چنانچہ اسی حوالے سے آپ کے لیے معلومات کے ساتھ حاضر ہوں ۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا : اَفَرَء َیْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ ()ء َاَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِـُوْنَ ()نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْکِرَۃً وَّ مَتٰعًا لِّلْمُقْوِیْنَ ()فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ (پ۲۷،سورۃ الواقعہ،آیت:۷۱،۷۲،۷۳،۷۴) ترجمہ کنزالایمان:تو بَھلا بتاؤ تو وہ آ گ جو تم روشن کرتے ہو ،کیا تم نے اس کا پیڑ پیدا کیا یا ہم ہیں پیدا کرنے والے۔ ہم نے اسے جہنّم کا یادگار بنایا اور جنگل میں مسافروں کا فائدہ۔ تو اے محبوب تم پاکی بولو اپنے عظم

مجھے خود کشی کرنی ہے

مجھے خود کشی کرنی ہے (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) اور سناو ٔ کیا حال ہیں ؟سب ٹھیک چل رہاہے نا۔۔۔نہیں یار خاک ٹھیک چلنا ہے ۔جس کام میں ہاتھ ڈالو ناکامی ۔بس یار اب زندگی سے مایوس ہوگیاہوں ۔اتنی بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کا کچھ فائد ہ نہیں ۔اس سے بہتر تو موٹر سائیکلوں کا کام سیکھ لیتا۔ہزار دو ہزار جیب میں آتے ۔انصاف ہی نہیں ۔بس اب میری ایک بات کان کھول کے سن لے ۔میں نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ایسے جینے ہی کا کیا فائدہ جس میں ضرورتیں بھی پوری نہ ہوں ۔تھک گیا ہوں زندگی سے ۔مایوس ہوگیاہوں بس۔ محترم قارئین !یہ گفتگو کوئی خیالی گفتگو نہیں بلکہ ملک کی مشہور یونیورسٹی کے ماسٹر ڈگری ہولڈر ذہین ترین نوجوان کے الفاظ تھے جو میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں ۔آپ کو بھی حیرت ہوئی ہوگی ۔لیکن حیران نہ ہوں ۔آپ کے معاشرے میں ہر پانچواں شخص مایوسی کا شکار ہے ۔وہ ایک ریبوٹ زندگی بسر کررہاہے ۔وہ فطری زندگی سے کوسوں دور مشینی زندگی گزار رہاہے ۔اور اس کے گرد مایوسی نے اس قدر گھیرا تنگ کر رکھا ہے کہ اسے ان مایوسیوں کا حل خود سوزی میں ہی نظر آنے لگاہے یا پھر وہ موت کو ایک امید کی طرح دیکھ رہا ہ

دلوں پہ حکمرانی کا راز

دلوں پہ حکمرانی کا راز ( DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) ایک مرتبہ عروہ بن مسعود کو جب قریش نے صلح حدیبیہ کے سال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا تو انہوں نے صحابہ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ جب عروہ واپس اپنے دوستوں کے پاس گئے تو کہنے لگے۔ اے لوگو! اﷲ کی قسم میں بادشاہوں کے درباروں میں جا چکا ہوں میں قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں بھی گیا ہوں۔ اﷲ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کے اصحاب کو اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا جیسی محمد کی تعظیم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کرتے ہیں۔ اﷲ کی قسم وہ اگر بلغم بھی پھینکتا ہے تو وہ کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ میں گرتی ہے پھر وہ اسے اپنے منہ اور جسم پر مل لیتا ہے۔ جب وہ انہیں کوئی حکم دیتا ہے تو اس کی تعمیل میں سارے کے سارے بھاگ پڑتے ہیں۔ وہ جب وضو کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ اس کے پانی سے برکت حاصل کرنے کے لیے آپس میں لڑ پڑیں گے۔ جب وہ بولتا ہے تو وہ لوگ اس کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔ اس کے ادب کی وجہ سے اسکی طرف نگاہیں جما کر نہیں دیکھتے۔ اس نے تم لوگوں کے سامنے ہدایت کا

آپ کی اولاد آپ کی توجہ کی سب سے زیادہ حقدار ہے

آپ کی اولاد آپ کی توجہ کی سب سے زیادہ حقدار ہے (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) بچے خالقِ کائنات کا بہترین تحفہ ہیں، ان کی معصوم سی خوبصورت مسکراہٹ سے انسان اپنی تمام تکالیف اور پریشانیاں بھول جاتا ہے۔ والدین بچے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی اور قیمتی نعمت ہیں جس کا نعم البدل کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ ہم میں سے ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ایک کامیاب ،با اعتماد اور پُرکشش شخصیت کا حامل ہو جو اس کے لئے باعثِ فخر اور اطمینان کا ذریعہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کہ پیدائش کے بعد سے ہی والدین اس کے مستقبل کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے ہیں ۔ تاکہ وہ خوشگوار اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کو بچوں کے لئے لازمی قرار دیتا ہے۔والدین شکایت کررہے ہوتے ہیں کہ اس کا بچہ بہت شرارتی ہے ،پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگاتا ،تو کوئی یہ کہتا ہے کہ اس کے بچے اس کی بات بالکل نہیں مانتے، دن بدن بدتمیزاور نافرمان ہوتے چلے جارہے ہیں ،کبھی والدین اپنے بچوں کو ڈھیٹ اور ضدی ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں تو کبھی ان کو خود سر اور نافرمان قرار د

باتیں ہیں مگر کام کی !!

باتیں ہیں مگر کام کی !! (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) جی کر رہاتھا ااپ کو ایک بات بتاؤں ۔ہے وہ ایک بات لیکن !!خیرکامیابی کا انحصار ،رویوں کا اعتبار اور تسکین کا سامان سوچ پر ہے ۔سوچ ہی سوچ میں رشتے بکھر جاتے ہیں ۔کامیابیاں چھن جاتی ہیں ۔اپنے بیگانے ہوجاتے ہیں ۔ناکامی منہ چڑھانے لگتی ہے ۔نفرتیں گھر کے آنگن میں بسیرا کرلیتی ہے ۔ یہی سوچ ہے کہ جھونپڑی میں رہنے والا پرسکون اور مطمئن ہوتاہے ۔ہزار طعن و تشنیع کے باوجود اطمینان بخش زندگی گزار رہا ہوتاہے ۔یہ سوچ ہی ہے کہ پرائے اپنے ہوجاتے ہیں ۔بکھرے رشتے سمٹ جاتے ہیں ۔ایک ہی بات اور انداز مختلف ،ایک ہی مؤقف اور پیرائے مختلف اور اس کے ثمرات بھی جد ا جدا ۔ میں کافی دنوں سے سوچ رہاتھا کہ کتنی ایسی باتیں ہیں کہ اس پیچھے لمحہ بھر کی منفی سوچ کی وجہ سے وہ معاملہ اس قدر بگڑجاتاہے کہ اس کی درستگی کے لیے گھنٹوں کیا کئی دن بیت جاتے ہیں لیکن اس منفی سوچ کے اتنے گہرے اثرات ہوتے ہیں ۔حالات کشیدہ سے کشیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ یہ منفی سوچ ہی ہوتی ہے کہ بندہ فرضی خدشات و حالات کو دماغ پر سوار کرکے گھُلتا چلاجاتاہے ۔ مشاہد ہ اور دوسروں
انسانی جسم سے متعلق دلچسپ اور حیران کن معلومات (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) صبح کا وقت کتنا پیارا لگتا ہے۔ نماز فجر کے بعد جب تھوڑی تھوڑی روشنی ہونے لگتی ہے تو بہت سہانا وقت ہوتا ہے بلکہ ہم میں سے کچھ لوگ صبح میں ورزش بھی کرتے ہوں گے تاکہ تندرست و توانا رہیں۔ کبھی آپ نے اپنے جسمانی ساخت پر غور کیا۔ جس جسم کو آپ توانا رکھنا چاہتے ہیں اﷲ عزوجل نے اس میں کیا کیا چیزیں رکھی ہیں؟ اگر ہم اس پر غور کریں تو حیران رہ جائیں ۔ تو سنیے آج ہم آپ کے لیے ایسی دلچسپ معلومات لائے ہیں کہ آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔ فولاد: انسانی جسم میں اتنا فولاد ہوتا ہے کہ اس سے درمیانے درجے کے سات کیل تیار ہوسکتے ہیں۔ انسانی جسم کی حرارت: انسانی جسم میں اتنی حرارت ہوتی ہے کہ اس سے چائے کی تین پیالیاں تیار کی جاسکتی ہیں۔انسانی چھینک کی رفتار سو میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ چربی: یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ انسانی جسم میں چربی بھی ہوتی ہے۔ لیکن یہ کتنی ہوتی ہے۔ اگر بتاؤں تو آپ سوچتے رہ جائیں! پتا ہے کتنی؟ انسان کے جسم میں اتنی چربی ہوتی ہے کہ اس سے تقریباً چار پونڈ صابن تیار ہوسکتا ہے۔ توانائی: ان

ہم اگر اس طرح سوچ لیں!!

ہم اگر اس طرح سوچ لیں!! (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) آج کے جدید دور میں جدید چیزیں ہمار ے استعمال میں ہیں ۔ان چیزوں کے استعمال میں بھی اچھی اچھی نیتیں کرنے کی گنجائش موجود ہے کہ ان کا استعمال بھی باعث خیر و برکت بن سکتاہے ۔جیسا کہ الیکٹرونک دور کی نئی ایجاد موبائل فون ہے ۔اس کے استعمال کیا جاتا ہے ۔آئیے!! اس کے استعمال کے متعلق کیا کیا نیتیں کی جاسکتی ہیں ۔سیکھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ فون کرنے یا وُصول کرنے کی نیّتیں بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط پڑھ کر فون کروں گا اور وُصُول کروں گا۔ مسلمان کو اَلسّلامُ عَلَیکُمْ وَرَحمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکٰتُہکہہ کر سلام میں پہل کروں گا خاگر مجبوری نہ ہوئی توفوراً فون وُصول کرکے مسلمان کی تشویش دُور کروں گا (کیونکہ فون وُصول نہ ہونے کی صورت میں اکثر بے قراری ہوتی ہے)کم از کم ایک بارصَلُّوا عَلَی الْحَبیب!کہوں گا۔ دوسروں کی موجودگی میں مخاطَب کی اجازت کے بغِیر فون کا اسپیکر آن نہیں کروں گابغیر اجازت کسی کا فون ریکارڈ نہیں کروں گا گناہوں بھری گفتگو (مثلاً غیبت، چغلی وغیرہ) سے بچوں اور بچاوں گا اِختتام پر بھی سلام کروں

بچے کورے کاغذ کی ماند ہیں !!

بچے کورے کاغذ کی ماند ہیں !! (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) بعض مرتبہ ہم وہ کام کررہے ہوتے ہیں جو اس وقت تو ہمیں بہت اچھالگارہاہوتاہے بلکہ اس کے کرنے پر خوشی بھی ہورہی ہوتی ہے اور کرتے وقت بھی کندھے اچک اچک کر کررہے ہوتے ہیں ۔لیکن جب اس کے نقصانات ہمارے سامنے آتے ہیں تو پھر احساس ہوتاہے کہ ہاں مجھے ایسا نہیں کرناچاہیے تھا۔ آج’’ تربیت اولاد اور مفید مشورے ‘‘میں اسی جانب آپ کی توجہ دلاوں گا۔ والدین اپنی اولاد کے سامنے اپنے بچپن کی باتیں کرتے ہیں ۔اپنے طالب علمی کے دور کی باتیں کرتے ہیں ۔کرنی بھی چاہیں ۔لیکن جو انداز ہوتا ہے وہ درست نہیں ہوتا و سراسر منفی ہوتا ہے ۔ ڈھینگیں مارتے والدین !!! اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے، یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگا کر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کیقریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کر لیتا ہے اگرچہ اس کو اس کے اظہار کاطریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا، اپنے گن گانا، ہر وقت دوسروں پہ خودکو ترجیح دینا، شیخی بگھارنا، درحقیقت اپنی کمزور شخصیت

ہماری بیٹیاں

ہماری بیٹیاں !!! (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) انسان ایک زنجیر کی ماند رشتوں میں جڑا ہوا ہے ۔ایک شخص مختلف رشتوں میں جڑا ہوا ہے ۔خالقِ کائنات مالک شش جہات نے ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی بلکہ اس نے فرق رکھا ہے اور یہ فرق بھی اس کی تخلیق کا کمال ہے کسی کو اس نے صحت قابلِ رشک عطا کی کسی کو علم دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا، کسی کودولت کم دی کسی کوزیادہ دی ،کسی کو بولنے کی صلاحیت غیرمعمولی عطا کی۔ کسی کو کسی ہنر میں یکتا بنایا، کسی کودین کی رغبت وشوق دوسروں کی نسبت زیادہ دیا کسی کو بیٹے دئیے، کسی کو بیٹیاں، کسی کو بیٹے بیٹیاں، کسی کو اولاد زیادہ دی ، کسی کوکم اور کسی کو دی ہی نہیں۔اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر اولاد کی محبت اور خواہش رکھ دی ہے ۔ زندگی کی گہما گہمی اور رونق اولاد ہی کے ذریعے قائم ہے۔ یہ اولاد ہی ہے جس کیلیے انسان نکاح کرتا ہے ،گھر بساتا ہے اور سامانِ زندگی حاصل کرتا ہے لیکن اولاد کے حصول میں انسان بے بس اور بے اختیار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس نعمت کی عطاکا مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہے چاہے توکسی کو بیٹے اور بیٹیوں سے نوازے او رکسی کو صرف بیٹے دے او رچا

بچّوں کو تحفے تحائف دینے کی عادت ڈالیے

بچّوں کو تحفے تحائف دینے کی عادت ڈالیے (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) محترم قارئین ! ایک مرتبہ پھر ہم حاضر ہیں آپ کے بچّوں کی تربیت اور رہنمائے اساتذہ کے حوالے ۔میں ایک بات آپ سے پوچھتاہوں ۔وہ بات یہ ہے کہ جب آپ کو کوئی تحفہ پیش کرتاہے تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں ۔اچھا!!!!!!!بہت اچھا!!!!!!! کبھی ایسا ہواکہ کسی نے تحفہ دیا ہو اور آپ کو بُرا لگاہو!!! کبھی بھی ایسا نہ ہواہوگا۔کیونکہ تحفہ دینے اور لینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے ۔ہمارے آقاﷺ نے بھی تحفہ دینے کی تعلیم فرمائی ہے ۔ جب ہم بڑوں کو تحفے قبول کرنے پر خوشی ومسرت محسوس ہوتی ہے ۔تو ان ننھے پھولوں یعنی ہمارے بچّوں کو بھلاتحفے سے خوشی کیوں نہ ہوگی ۔ تحائف دینا!! میں سچ بتاؤں ۔یہ ایک عظیم الشان عمل ہے جس سے محبتیں پروان چڑھتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی بات ۔آپ نے بچّے کی ضرورتیں پوری کرنی ہیں ۔ان کے کھانے پینے ،پہننے ان کی تعلیم یہ سب آپ کے ذمہ ہے نا!تو انہی ضرورتوں میں سے کسی روز ایک کاپی ،کسی روز ایک اچھاسا پین ،کسی روز ایک اچھی سی کتاب ،اگر بچّوں کو لاکر دے دیں اور کہیں کہ بیٹا یہ میری طرف سے آپ کو تحفہ ۔ اسی طرح آپ

ایک سبق ایک کہانی

ایک سبق ایک کہانی (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) مسلمان حاکم ہارون الرشید عبّاسی کے دو بیٹے تھے۔ اس نے اپنے دونوں بیٹوں کو ایک بزرگ استاد کے پاس پڑھنے کے لیے بٹھایا۔ ایک دن حاکم کے دل میں خیال آیا کہ مجھے استاد صاحب کے پاس جا کر اپنے بیٹوں کی پڑھائی کے بارے میں معلوم کرنا چاہیے۔ حاکم استاد صاحب کی ملاقات کے لیے گیا۔ جب استاد صاحب حاکم کے استقبال کے لیے اُٹھنے لگے تو دونوں شہزادے دَوڑکر اُٹھے اور اپنے استاد کی جوتی اس کے پاؤں کے آگے رکھنے میں پہل کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ایک شہزادے کی خواہش تھی کہ پہلے مَیں جوتی رکھوں اور دوسرے شہزادے کی خواہش تھی کہ یہ کام پہلے مَیں کروں۔ حاکم نے جب استاد کے احترام کا یہ منظر دیکھا۔ تو اس نے استاد صاحب سے کہا کہ آپ جیساآدمی مر نہیں سکتا۔ پیارے بچو!اس چھوٹی سی کہانی سے تم نے کیا سبق سیکھا؟ یہی ناکہ ہمیں اپنے بزرگوں اور استادوں کا احترام اور ان کی عزت کرنی چاہیے۔ بچو!سچّی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم اس وقت ہی زندہ قوم کہلاسکتی ہے جب اس قوم کے بچوں اور نوجوانوں میں یہ خواہش پیدا ہو کہ جو بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام ہمارے بزرگوں ن
حیرت انگیز مچھلی !!!! (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) محترم قارئین :آج بھی ہم لائے ہیں ۔ایک ایسی معلومات ممکن ہے کہ آپ پہلی بار سن رہے ہوں ۔ مچھلی تو آپ سب شوق سے کھاتے ہی ہوں گے۔بلکہ اگرمہمان آجائیں تو ان کی ضیافت میں بھی یہ ڈش شامل کرتے ہیں ۔ مچھلی کی بہت سی اقسام ہیں ان میں ایک حیرت انگیز قسم’’ قوقی ‘‘مچھلی بھی ہے ۔اب جب میں اس کے بارے میں بتاوں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے ۔ یہ ایک عجیب وغریب مچھلی ہے،اس کے سر پر ایک بَہُت بڑا کانٹا ہوتا ہے ۔ جب بھوک لگتی ہے تو جس(بڑے سے بڑے)جانور کو بھی اپنا شکار بنانا چاہے اُس پر جاگِرتی ہے اور وہ جانور اُسے آئی روزی سمجھ کر نگل جاتا ہے اوریہ اندر پہنچ کراپنے کانٹے سے اُس کاپیٹ چیر کر باہَر آجاتی ہے!اوریوں اپنا شکار کرنے والے جانور کو خود شکار کر لیتی اور پھر اُسے مزے سے کھانے لگتی ہے۔اُس کے شکار کابچاکھچادوسرے دریائی جانور بھی کھاتے ہیں۔جب ماہی گیر قُوقی مچھلی کاشکار کرنے کی کوشِش کرتے ہیں تو اپنے کانٹے سے حملہ کر کے کشتی پھاڑدیتی اور ڈوبتے ہوئے ماہی گیر وں کو ہڑپ کرجاتی ہے !قُوقی کا شکار کرنے والے اِسی مچھلی کی کھال اپنی کِش

دلچسپ اور حیران کن چیزیں

دلچسپ اور حیران کن چیزیں (Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi) محترم قارئین!اس سے قبل تو بہت سنجید ہ سنجیدہ موضوعات پر آپ سے ہم کلام رہا ۔کچھ دنوں سے خیال آیا کیا ہی اچھا ہو کہ میں اپنے قارئین کے لیے دلچسپ معلومات کیوں نہ پیش کروں ۔میری وعظ و نصیحت باتیں پڑھ پڑھ کے تھک گئے ہوں گے تو لیجیے ۔ آپ کی لیے بہت ہی حیران کن معلومات ۔۔ بارش برستی ہے تو کتنی اچھی لگتی ۔موسم کتنا پیار اہوجاتاہے۔آپ کو پتاہے دنیا میں ایک مقام ایسابھی ہے جہاں کبھی بارش نہیں ہوئی ۔۔آپ بھی کہہ رہے ہوں گے یہ کیا بات ہوئی ۔۔توجناب ہماری معلومات کے مطابق ۔۔۔چلی ملک کا ایک ریگستان ہے۔جس کا نام اٹاکاماہے ۔وہ کبھی بارش نہیں ہوئی ۔ ہے نا دلچسپ معلومات!!! قارئین اور بھی کچھ بتاؤں ؟چلیں ٹھیک ہے ۔تو پڑھیے ۔ آپ نے بانس کا کھیت دیکھاہے ؟نہیں ! بانس تو دیکھے ہوں گے ۔؟کتنے لمبے لمبے ہوتے ہیں ۔۔آپ کو پتاہے ایک بانس ۲۴ گھنٹے میں کتنابڑاہوتاہے یعنی دن رات میں اس کا قد کتنا بڑھتاہے ۔تین فٹ قد اس کا بڑھتاہے ۔۔یعنی اتنی تیزی کے ساتھ اس کی بڑھوتری ہوتی ہے۔ جی محترم قارئین ہے نا حیرت کی بات ۔بس یا اور کچھ بھی دلچسپ بتاؤں ۔

دلچسپ اور عجیب پرندے

دلچسپ اور عجیب پرندے (DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi) ہجرت لفظ سن کر فوراً ایک بات ذہن میں آجاتی ہے۔کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ہمارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ نے بھی ہجرت فرمائی۔ جس میں نفع ہی نفع تھا۔ابھی بھی سیانے کہتے ہیں ۔کہ سفر وسیلہ ظفر ۔ محترم قارئین :انسانوں کی ہجرت تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں ۔کبھی یہ سنا کہ پرندے بھی ہجرت کرتے ہیں ۔ہے نا دلچسپ بات !   بھئی پرندوں نے کونسی جاب کرنی ہے ؟کہ وہ روزگار کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جائیں ۔انھیں تو غذا میسر آجاتی ہے ۔ جناب!ہم بتاتے ہیں کہ پرندے بھی سفر کرتے ہیں نہ صرف سفر ۔بلکہ بہت طویل طویل سفر۔ جیسے ہم اور آپ ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ یہ پرندے ایک ملک سے دوسرے ملک بھی ہجرت کرتے ہیں ۔ کیسا؟ موسمی حالات میں تبدیلی ، روشنی کی شدت و کمی و بیشی، دن کی روشنی کا وقفہ، روشنی کی نوعیت، ہوا کی رفتار اور اس کی سمت کے علاوہ بھی کئی عوامل پرندوں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس طرح ہجرت ایک موسمی عمل ہے جس کے دوران پرندے گروہوں کی شکل میں حرکت کرتے ہیں ۔ اس دوران پرندے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں ۔

بہتے اآنسو

بہتے اآنسو آنکھیں اﷲ عزوجل کی بہت بڑی نعمت ہیں ۔وہ آلہ جس سے اس دنیا کی رونقوں کو ہم ملاحظہ کرتے ہیں ۔انہی آنکھوں سے ماں باپ کی زیارت،انہی آنکھوں سے بیت اﷲ کے جلوے،انہی آنکھوں سے روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ۔آہ !کیا بتائیں !کتنی بڑی نعمت ہے ۔جو اس نعمت سے محروم ہے اس سے پوچھیے یہ کتنی بڑی نعمت ہے ۔کیا اہمیت ہے ان دیدوں کی ۔ان آنکھوں کی ۔ محترم قارئین :آج ہم اسی آنکھ سے ٹپکنے والے آنسوؤں کے متعلق آپ کو دلچسپ معلومات بتائیں گے ۔آنسوؤں تو ہر آنکھ سے ٹپکتا ہے۔ کسی آنکھ سے غم کی وجہ سے، کسی آنکھ سے خوشی کے آنسو تو کسی آنکھ سے خوف خدا، کسی آنکھ سے یاد مصطفٰی میں سیل اشک رواں ہوجاتے ہیں۔ تو سنیے قدرت کے عطاکردہ اس آنسوکے بارے میں : آنسو ، اشکی غدود(Lacrimal Glands)کی رطوبت ہیں۔ یہ آنکھ کے ڈھیلے (Eyeball)کی شفاف بیرونی تہ یا جھلی، قرنیہ( (Cornea)کو مسلسل دھوتے رہتے ہیں ۔ یہ اس پر موجود بیرونی ذرات مثلاً گرد یا بال وغیرہ مسلسل صاف کرتے رہتے ہیں۔ آنسو، قرنیہ کو خشک ہونے سے بھی بچاتے ہیں۔ قرنیہ کے خشک ہونے کا نتیجہ اندھے پن کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ہر آنکھ میں، آنکھ کے پپو