نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مجھے خود کشی کرنی ہے


مجھے خود کشی کرنی ہے

(DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi)

اور سناو ٔ کیا حال ہیں ؟سب ٹھیک چل رہاہے نا۔۔۔نہیں یار خاک ٹھیک چلنا ہے ۔جس کام میں ہاتھ ڈالو ناکامی ۔بس یار اب زندگی سے مایوس ہوگیاہوں ۔اتنی بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کرنے کا کچھ فائد ہ نہیں ۔اس سے بہتر تو موٹر سائیکلوں کا کام سیکھ لیتا۔ہزار دو ہزار جیب میں آتے ۔انصاف ہی نہیں ۔بس اب میری ایک بات کان کھول کے سن لے ۔میں نے خودکشی کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ایسے جینے ہی کا کیا فائدہ جس میں ضرورتیں بھی پوری نہ ہوں ۔تھک گیا ہوں زندگی سے ۔مایوس ہوگیاہوں بس۔

محترم قارئین !یہ گفتگو کوئی خیالی گفتگو نہیں بلکہ ملک کی مشہور یونیورسٹی کے ماسٹر ڈگری ہولڈر ذہین ترین نوجوان کے الفاظ تھے جو میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں ۔آپ کو بھی حیرت ہوئی ہوگی ۔لیکن حیران نہ ہوں ۔آپ کے معاشرے میں ہر پانچواں شخص مایوسی کا شکار ہے ۔وہ ایک ریبوٹ زندگی بسر کررہاہے ۔وہ فطری زندگی سے کوسوں دور مشینی زندگی گزار رہاہے ۔اور اس کے گرد مایوسی نے اس قدر گھیرا تنگ کر رکھا ہے کہ اسے ان مایوسیوں کا حل خود سوزی میں ہی نظر آنے لگاہے یا پھر وہ موت کو ایک امید کی طرح دیکھ رہا ہے ۔

اس عنوان پر پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عام طور پر ان مسائل کے حل کی جو تجاویز دی جاتی ہیں ، وہ اجتماعی سطح پر دی جاتی ہیں جن پر عمل حکومت یا بڑے بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس ہماری اس تحریر کا مخاطب وہ لوگ ہوں گے جو کسی نہ کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہیں۔ اس تحریر میں ہم یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ انسانوں میں مایوسی کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟

محترم قارئین :پہلے تو مایوسی کو سمجھیں کے مایوسی ہے کیا ؟تاکہ آپ مایوسی اور کسی دوسرے نفسیاتی مرض میں امتیاز کرسکیں ۔علم نفسیات کا مطالعہ کریں تو آپ جانیں گئے کہ وہاں مایوسی کو خیبت بھی کہا جاتا ہے۔مایوسی کی تعریف کتب میں کچھ اس طرح ملتی ہے ’’مایوسی یا خیبت ہم اس احساس کو کہتے ہیں جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے، مثلاً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونا چاہے لیکن فیل ہو جائے تو وہ خیبت یا مایوسی سے دوچار ہوگا یا اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں مقابلہ جیتنا چاہے، لیکن ہار جائے تو وہ خیبت کا شکار ہوگا۔ ‘‘

محترم قارئین :اس تعریف کی روشنی میں ذرا اپنا اور اپنے گردو نواح کا جائزہ لیجیے گاآپ پر معاشرے کی تصویر واضح ہوجائے گی ۔

دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی یا خیبت کا شکار رہا ہے اور جب تک کسی شخص کے سانس میں سانس ہے، وہ خیبت سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں، جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔

ایک عام فہم انداز میں مایوسی کو سمجھئے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں جو تلخ احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔

محترم قارئین :یہ ایک ایسا وسیع موضوع ہے کہ جس پر دیوان کے دیوان بھرے جاسکتے ہیں ۔لیکن چونکہ احقر قلم و قرطاس کے ذریعہ شعور و آگاہی کو اپنا فریضہ سمجھتاہے ۔لہذا اسی اعتبار سے ظہوراحمد دانش آپ سے ہمیشہ آ پ کے قیمتی وقت کا احساس کرتے ہوئے مختصر سے مختصر کلام کی کوشش کرے گا کہ تاکہ کم وقت میں زیادہ پیغام عام ہوسکے ۔

طویل غو ر و فکر اور مطالعہ کہ بعد اس نتیجہ کو اخذ کیا کہ مایوسی بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ناقابل کنٹرول مایوسی کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ زندہ رہے اور بڑا ہو کر اس کی خدمت کرے۔ کسی وجہ سے اس بچے کی موت واقع ہوجائے اور اس شخص کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو یہ ناقابل کنٹرول مایوسی کہلاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان میں لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہیں وہ ناقابل کنٹرول ہوتی ہے۔

یہ وہ معاملات ہیں جن میں انسان کچھ نہیں کرسکتا ۔ اس قسم کی مایوسی کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملات میں وہ اﷲ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نما زکی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاۃِ وَإِنَّہَا لَکَبِیرَۃٌ إِلاَّ عَلَی الْخَاشِعِینَ. الَّذِینَ یَظُنُّونَ أَنَّہُمْ مُلاقُو رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔(سورۃ البقرۃ) ۔

اس قرانی پیغام میں انسان کو بقاء کی امید اور مایوسی کے سحر سے نکالا گیا ہے کہ یہ آفات کوئی بڑی چیز نہیں ہیں اس لئے کہ ایک دن سب نے ہی اپنے رب سے ملاقات کرنے کے لئے اس دنیا سے جانا ہے۔ اگر انسان حقیقت پسند ہو اور کائنات کی اس بڑی حقیقت کو قبول کرلے تو پھر اسے صبر آ ہی جاتا ہے اور یوں اس کی مایوسی کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں کیونکہ چند روزہ زندگی کے بعد ایک لامحدود زندگی اس کے سامنے ہوتی ہے جہاں نہ کوئی دکھ ہو گا اور نہ کوئی غم۔ اگر ہم رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ آپ نے ہر ایسے معاملے میں اﷲ کی پناہ پکڑی ہے اور جب بھی آپ کو کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو آپ نے نماز کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع کر کے ذہنی سکون حاصل کیا اور اس مصیبت پر صبر کیا۔ اس کا احساس ہمیں آپ کی دعاؤں سے ہوتا ہے۔ دوسری قسم کی مایوسی وہ ہوتی ہے جو انسانی وجوہات سے ہوتی ہے اور اگر انسان چاہے تو اسے کم سے کم حد تک لے جا سکتا ہے۔ اس قسم کی مایوسی کی بہت سی وجوہات ہیں۔ جن میں کچھ اس کی ذاتی خامیوں او ر خطاوں کی وجہ سے اسے ملتی ہیں اور کچھ میں غیر ارادی طور پر محرکات کی بنیاد بھی وہ ان کا شکار ہوجاتاہے ۔
محترم قارئین:قصہ مختصر یہ کہ اپنی زندگی سے مایوسی کو نکال دیں ۔یہ زندگی جیسا آپ چاہتے ہیں آپ کو آپ کی منشا و خواہش کے مطابق تمام ثمرات دے ایسا ضروری نہیں اور نہ ہی اس کائنات کے نظام کو آپ اپنے تابع کرکے جو چاہیں وہ کرگزریں اور آپ کی ہرہر طلب ہرہر خواہش تعبیر پاجائے ۔قرین ِقیاس اور عقل سے ماورا ہے ۔لہذا پیش آنے والے حالات ،ناکامایوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔انسان کو مایوسی ہوتی ضرور ہے لیکن مایوسی تاری کرلینے سے مزید مایوسیاں ٹھکانہ بنالیں گیں ۔آئین مل کر نئی امنگوں نئے جذبوں سے اپنے نئے دنوں کا آغاز کرتے ہیں ۔
یار زندہ صحبت باقی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا