نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فلسطین کی باتیں (فلسطین کے معنی)





 ف ل س ط ي ن  کی باتیں (ف ل س ط ي ن کے معنی)

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)

میں ایک عرصے سے تحریر و تحقیق سے وابستہ ہوں ۔کئی موضوعات پر لکھابھی اور بولابھی ۔لیکن آج اپریل 2025 کو جب میں فلسطین کے بارے میں لکھنے لگاتو میری روح کانپ رہی تھی ۔ضمیر ندامت و پشیمان ،ہاتھ کپکپارہے تھے ۔ذہن پر ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری ہے ۔لیکن سوچا کہ میں اپنے حصے کا جو کام کرسکتاہوں کہیں اس میں مجھ سے کوئی غفلت نہ ہو ۔چنانچہ سوچاآپ پیاروں سے کیوں نہ فلسطین کی باتیں کرلی جائیں ۔

قارئین :میں نے سوچا کیوں نہ لفظ فلسطین کی لفظی و لغوی بحث کو آپ کی معلومات کے لیے پیش کیاجائے ۔

فلسطین! ایک ایسا نام جو صرف جغرافیائی حدود یا قوموں کی پہچان نہیں، بلکہ ایک مقدس سرزمین، انبیاء کی جائے قیام، مسلمانوں کا قبلۂ اول، اور دنیا بھر کے مظلوموں کی علامت بن چکا ہے۔ اس تحریر میں ہم "فلسطین" کے معنی اور مفہوم کو لغوی، تاریخی، اور اسلامی زاویوں سے اجاگر کریں گے۔

لغوی تجزیہ: لفظ "فلسطین"

"فلسطین" کا لفظ غالباً قدیم سامی زبانوں جیسے عبرانی یا آرامی سے آیا ہے۔ اکثر ماہرین لسانیات کا ماننا ہے کہ یہ لفظ "فلشتیم" (Philistines) سے نکلا ہے، جو ایک قدیم قوم تھی۔ یہ قوم تقریباً بارہویں صدی قبل مسیح میں بحر روم کے کنارے، خصوصاً غزہ اور اشقلون جیسے علاقوں میں آ کر آباد ہوئی تھی۔


ممکنہ لغوی معانی:

پھیلنے والے

مہاجر قوم

سمندر سے آنے والے لوگ

"فلسطینی" دراصل انہی قدیم فلستیوں کی طرف نسبت ہے، جو یونانی یا کریٹ (Crete) کے جزائر سے آئے تھے اور بعد میں اس خطے کا نام بھی انہی کے نام پر "فلستین" پڑ گیا۔

تاریخی پس منظر: فلسطین کا مقام و محل

فلسطین ایک قدیم اور بابرکت خطہ ہے جو بحر روم کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ موجودہ دور میں اس خطے میں شامل علاقے درج ذیل ہیں:

غزہ

مغربی کنارہ (West Bank)

بیت المقدس (Jerusalem)

اور کبھی کبھار اردن کے کچھ حصے

قدیم دور میں اس خطے کو ارضِ کنعان (Land of Canaan) بھی کہا جاتا تھا، جہاں بنی اسرائیل سے قبل کنعانی اقوام آباد تھیں۔


رومی و یونانی تاریخ:

یونانی مورخ ہیروڈوٹس (Herodotus) نے 5ویں صدی قبل مسیح میں اس خطے کو "سوریا فلسطینا" کہا۔

رومی سلطنت نے یہ نام خاص طور پر رکھا تاکہ یہودیوں کی شناخت کو مٹا دیا جائے۔

اسلامی نکتۂ نظر: مقدس سرزمین

اسلام میں فلسطین کو "ارضِ مقدس" یعنی مقدس سرزمین کہا گیا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں:

حضرت ابراہیمؑ، حضرت لوطؑ، حضرت یعقوبؑ، حضرت سلیمانؑ، حضرت داوٗدؑ جیسے انبیاء نے قیام کیا۔

نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات یہاں سے آسمانوں کا سفر کیا۔

قرآن مجید:

سورۃ المائدہ (5:21) میں ارشاد ہوتا ہے:

"يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ"

ترجمہ: "اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جسے اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔"

مفسرین جیسے ابن کثیر، طبری اور قرطبی نے واضح کیا کہ یہاں "ارض مقدس" سے مراد فلسطین ہی ہے۔


احادیث مبارکہ:

حضرت میمونہؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا:

"بیت المقدس کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟"
آپ ﷺ نے فرمایا:
"
یہ انبیاء کی سرزمین ہے، وہاں نماز پڑھنے کی کوشش کرو۔"
(سنن ابن ماجہ)

قارئین :اگر لغت کی کتب کامطالعہ کریں تو آپ کو فلسطین کے معنی کے حوالے سے ہمیں کچھ اس  طرح کی معلومات ملتی ہے

کتب و لغات کے حوالہ جات

یاقوت الحموی – معجم البلدان:

"فلسطین شام کے ان علاقوں میں سے ہے جو انبیاء کی جائے سکونت رہے، اور دینی عظمت کے حامل ہیں۔"

ابن خلدون کی مقدمہ:

"فلسطین ان خطوں میں شامل ہے جہاں بنی اسرائیل اور دیگر قدیم اقوام آباد رہیں، بعد ازاں اسلام نے اسے روحانیت کا مرکز بنایا۔"

ابن منظور – لسان العرب:

"یہ شام کا جنوبی حصہ ہے، جو فلست قوم سے منسوب ہے، جو سمندر سے آئی تھی۔"

المعجم الوسیط:

"فلسطین ایک عرب ملک ہے جو جنوب مغربی ایشیا میں واقع ہے، اور مسجد اقصیٰ کا مرکز ہے۔"

فلسطین محض ایک خطہ نہیں بلکہ ایک روحانی، تہذیبی اور ایمانی علامت ہے۔ یہ سرزمین انبیاء کی یادگار، قربانیوں کا نشان، اور مسلمانوں کی نظریاتی اساس کا اہم ستون ہے۔ آج بھی یہ ملتِ اسلامیہ کے دل کی دھڑکن ہے، اور اس کا دفاع، محبت اور معرفت سے جڑا ہوا فریضہ ہے۔


ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ کوشش آپ کی معلومات کا ذریعہ بنے گی ۔اللہ پاک اس عزت و شان والی دھرتی کی خیر ہو۔
 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بیٹیوں کی باتیں

بیٹیوں کی باتیں تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) یہ بات ہے آج سے ٹھیک 15سال پہلے کی جب ہم اسٹار گیٹ کراچی میں رہتے تھے ۔اللہ کریم نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔جب علی میڈیکل اسپتال کی ڈاکٹرنے مجھے بتایاکہ اللہ پاک نے آپکو بیٹی عطافرمائی ہے ۔میری خوشی کی انتہانہیں تھی ۔آپ یقین کریں اس بیٹی کی ولادت کے صدقے رب نے مجھے بہت نواز مجھے خیر ہی خیر ملی ۔آج وہ بیٹی نورالایمان  کے نام سے حافظہ نورالایمان  بن چکی ہیں ایک اچھی رائٹر کے طورپر مضامین بھی لکھتی ہیں ۔بیانات بھی کرتی ہیں اور اپنے بابا کو آئے دن دینی مسائل  کے بارے میں بھی بتاتی ہیں،گھر میں فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں و توفیق من اللہ سے تہجد کا اہتمام بھی کرواتی ہیں ، میراخیال بھی بہت رکھتی ہیں ۔جبکہ نورالعین سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو بے انتہاپیارکرتی ہیں کتناہی تھکان ہو وہ سینے سے لپٹ جاتی ہیں تو سب غم غلط ہوجاتے ہیں ۔میں اپنی بیٹیوں کی داستان و کہانی آپ پیاروں کو اس لیے سنارہاوہوں کہ تاکہ آپ کو ٹھیک سے معلوم ہوسکے کہ ایک باپ بیٹیوں کو کیسا محسوس کرتاہے اور بیٹیوں کو والدین سے کتنا حسین تعلق...

ختم نبوت كے پہلے شہید کی داستان

      ختم نبوت كے پہلے شہید کی داستان  ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، تحریر:حافظہ نورالایمان بنت ظہوراحمد دانش (دو ٹھلہ نکیال آزادکشمیر ) تمہید : اللہ  پاک نے حُضور نبیِّ کریم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کو دنیا میں تمام انبیا و مُرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسولِ کریم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکارِ مدینہ    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے زمانے یا حُضورِ اکرم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے ، یہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کے سابقہ شماروں میں قراٰن و حدیث اور تفاسیر کی روشنی میں اس عقیدے کو بڑے عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت صحابۂ کرام ، تابعین ، تبع تابعی...