نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آپ کی اولاد آپ کی توجہ کی سب سے زیادہ حقدار ہے


آپ کی اولاد آپ کی توجہ کی سب سے زیادہ حقدار ہے

(DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi)
بچے خالقِ کائنات کا بہترین تحفہ ہیں، ان کی معصوم سی خوبصورت مسکراہٹ سے انسان اپنی تمام تکالیف اور پریشانیاں بھول جاتا ہے۔ والدین بچے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی اور قیمتی نعمت ہیں جس کا نعم البدل کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ ہم میں سے ہر والدین کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد ایک کامیاب ،با اعتماد اور پُرکشش شخصیت کا حامل ہو جو اس کے لئے باعثِ فخر اور اطمینان کا ذریعہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کہ پیدائش کے بعد سے ہی والدین اس کے مستقبل کے متعلق سوچنا شروع کر دیتے ہیں ۔ تاکہ وہ خوشگوار اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری کو بچوں کے لئے لازمی قرار دیتا ہے۔والدین شکایت کررہے ہوتے ہیں کہ اس کا بچہ بہت شرارتی ہے ،پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگاتا ،تو کوئی یہ کہتا ہے کہ اس کے بچے اس کی بات بالکل نہیں مانتے، دن بدن بدتمیزاور نافرمان ہوتے چلے جارہے ہیں ،کبھی والدین اپنے بچوں کو ڈھیٹ اور ضدی ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتے ہیں تو کبھی ان کو خود سر اور نافرمان قرار دیا جا رہا ہوتا ہے ۔

پہلے یہ جاننا ضروری ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بچے سرکش اور نافرمان ہو جاتے ہیں؟

بچوں کے بگاڑ میں عدم توجہی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جب والدین مستقلًابچوں کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں تو ابتدا ہی سے وہ اپنی مرضی چلانے کا عادی ہو جاتا ہے۔ اور جوں جوں وہ بڑا ہوتا جاتا ہے ،اسکی یہ عادت پختہ ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ خود سر ہو جاتا ہے پھر والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ بچہ ان کی بات نہیں مان رہا ہے۔ دراصل جب بچے کو ہماری ضرورت ہو تی ہے تو ہم اس پرتوجہ نہیں دیتے اور جب ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ ہماری ضرورت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

والدین کا رویہ :
ایک بات تو عام نظر آتی ہے کہ والدین اپنی مصروفیت کے اوقات میں بچوں کو عموماً ٹی وی کھول کر اس کے سامنے بٹھا دیتے ہیں کہ کچھ وقت وہ سکون سے اپنے امور انجام دے سکیں اور بچہ انہیں تنگ نہ کرے۔ ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اتنے سے بچے کو کیا پتہ کہ ٹی وی پہ کیا آرہا ہے؟ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے ،کیونکہ بچہ بہت تیزی سے اپنے اطراف کے ماحول سے سیکھتا ہے اور آج بچوں کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ جو کچھ ٹی وی پر دیکھتے ہیں، اپنی عملی زندگی میں بھی وہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اب یہ والدین کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ انہیں صحیح اور غلط ، اچھے اور بُرے کا فرق سمجھائیں۔ اگر والدین اس ذمہ داری سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ تو اس کے بہت خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

مثلاً جب وہ ٹی وی لڑائی جھگڑے کے مناظر دیکھتے ہیں تو اس عمل کو وہ بہن بھائی پر apply کرتے ہیں ۔کسی کو ویڈیو میں گالی گلوچ سنتے ہیں تو پھر وہ اپنی گفتگو میں ایسے الفاظ لاتے ہیں ۔

بہت بڑی غلط فہمی :
آج کل والدین دو ڈھائی سال کے معصوم بچوں کو اسکول میں داخل کروا کے مطمئن ہو جاتے ہیں۔ کہ اس طرح ان کی بہت اچھی تربیت اور کردار سازی ہوجائے گی ۔ یہ وہ فاش غلطی ہے جس کا خمیازہ والدین کو ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے۔ کیونکہ تربیت کا بنیادی ادارہ گھر اور والدین ہیں ۔آپ خود سوچیں اسکول وہ کام کیسے کر سکتے ہیں جو صرف گھر ہی میں ممکن ہو سکتا ہے۔ ٹیچر صرف ٹیچر ہے وہ والدین کی جگہ نہیں لے سکتا۔ عموماً والدین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ درست ہے۔ اور جب بچہ وہی کام کرتا ہے ، تو فوراً ہی بچے کو ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں پتہ نہیں کہاں سے یہ غلط حرکتیں سیکھ کر آتے ہیں؟ جبکہ بچہ یہ غلط حرکتیں کہیں اور سے نہیں اپنے گھر سے ہی سیکھتا ہے ۔ مثال کے طور پر والدین اکثر اپنے بچوں کو ڈانٹتے ہوئے الفاظ کے استعمال پر کوئی توجہ نہیں دیتے اور غصّے میں جو کچھ منہ میں آتا ہے بولتے جاتے ہیں مثلاً (پاگل، گدھا، منحوس، بیوقوف وغیرہ) اور بعد میں یہی الفاظ جب بچہ استعمال کرنے لگتا ہے تو والدین شکورہ کررہے ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ کتنا بدتمیز ہوتا چلاجارہا ہے؟ کسی کا ادب اورلحاظ ہی نہیں کرتا ؟ حالانکہ بچے سے زیادہ والدین کا قصور ہوتا ہے۔ ہر وقت کی روک ٹوک سے بچوں میں عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے اور پھر ان میں قوت فیصلہ کی بھی کمی ہو جاتی ہے۔ گو کہ یہ والدین کا فرض ہے کہ بچے کو کھرئے اور کھوٹے پہچان کروائیں ،جبکہ بچوں کو مناسب حد تک آزادی دینا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے دماغ سے سوچیں اور ان میں خود اعتمادی پروان چڑھے ۔ کیونکہ ہر وقت کی روک ٹوک سے بچے میں ضد، خوف، نفرت، اور ردِعمل کے طور پر منفی جذبات پیدا کر دیتی ہے۔ یوں اس کی تعمیری صلاحتیں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ اس لئے بچوں کو کامیاب اور پُراعتماد بنانے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں مناسب حد تک آزادی اور خود مختاری دی جائے اور اس پر والدین نظر رکھیں کہ بچہ آزادی کا غلط استعمال تو نہیں کررہاہے۔

گھر تربیت کا اصل مرکزاور میدان ہے ۔جتنے اچھے اور مکمل انداز میں تربیت گھر میں ہو سکتی ہے وہ کہیں اور ہر گز نہیں ہو سکتی۔

محترم قارئین چند اہم نکات نوٹ فرمالیں :
نکات:(1)اپنی الاد کی تربیت پر توجہ دیں ۔۔۔(2)لاپرواہی کی صورت میں اولاد پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔(3)گھر کے ماحول میں بہتری لائیں بچے کی پہلی درس گاہ گھر ہے ۔(4)اپنی اولاد کے لیے وقت نکالیں ۔ان سے جان نہ چھڑائیں ۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بیٹیوں کی باتیں

بیٹیوں کی باتیں تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) یہ بات ہے آج سے ٹھیک 15سال پہلے کی جب ہم اسٹار گیٹ کراچی میں رہتے تھے ۔اللہ کریم نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔جب علی میڈیکل اسپتال کی ڈاکٹرنے مجھے بتایاکہ اللہ پاک نے آپکو بیٹی عطافرمائی ہے ۔میری خوشی کی انتہانہیں تھی ۔آپ یقین کریں اس بیٹی کی ولادت کے صدقے رب نے مجھے بہت نواز مجھے خیر ہی خیر ملی ۔آج وہ بیٹی نورالایمان  کے نام سے حافظہ نورالایمان  بن چکی ہیں ایک اچھی رائٹر کے طورپر مضامین بھی لکھتی ہیں ۔بیانات بھی کرتی ہیں اور اپنے بابا کو آئے دن دینی مسائل  کے بارے میں بھی بتاتی ہیں،گھر میں فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں و توفیق من اللہ سے تہجد کا اہتمام بھی کرواتی ہیں ، میراخیال بھی بہت رکھتی ہیں ۔جبکہ نورالعین سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو بے انتہاپیارکرتی ہیں کتناہی تھکان ہو وہ سینے سے لپٹ جاتی ہیں تو سب غم غلط ہوجاتے ہیں ۔میں اپنی بیٹیوں کی داستان و کہانی آپ پیاروں کو اس لیے سنارہاوہوں کہ تاکہ آپ کو ٹھیک سے معلوم ہوسکے کہ ایک باپ بیٹیوں کو کیسا محسوس کرتاہے اور بیٹیوں کو والدین سے کتنا حسین تعلق...

ختم نبوت كے پہلے شہید کی داستان

      ختم نبوت كے پہلے شہید کی داستان  ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، تحریر:حافظہ نورالایمان بنت ظہوراحمد دانش (دو ٹھلہ نکیال آزادکشمیر ) تمہید : اللہ  پاک نے حُضور نبیِّ کریم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کو دنیا میں تمام انبیا و مُرسلین کے بعد سب سے آخر میں بھیجا اور رسولِ کریم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    پر رسالت و نبوت کا سلسلہ ختم فرمادیا۔ سرکارِ مدینہ    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے زمانے یا حُضورِ اکرم    صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم    کے بعد قیامت تک کسی کو نبوت ملنا ناممکن ہے ، یہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد ہوکر دائرۂ اسلام سے نکل جاتا ہے۔ “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کے سابقہ شماروں میں قراٰن و حدیث اور تفاسیر کی روشنی میں اس عقیدے کو بڑے عمدہ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ عقیدۂ ختمِ نبوت صحابۂ کرام ، تابعین ، تبع تابعی...

فلسطین کی باتیں (فلسطین کے معنی)

 ف ل س ط ي ن  کی باتیں ( ف ل س ط ي ن  کے معنی) تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) میں ایک عرصے سے تحریر و تحقیق سے وابستہ ہوں ۔کئی موضوعات پر لکھابھی اور بولابھی ۔لیکن آج اپریل 2025 کو جب میں فلسطین کے بارے میں لکھنے لگاتو میری روح کانپ رہی تھی ۔ضمیر ندامت و پشیمان ،ہاتھ کپکپارہے تھے ۔ذہن پر ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری ہے ۔لیکن سوچا کہ میں اپنے حصے کا جو کام کرسکتاہوں کہیں اس میں مجھ سے کوئی غفلت نہ ہو ۔چنانچہ سوچاآپ پیاروں سے کیوں نہ فلسطین کی باتیں کرلی جائیں ۔ قارئین :میں نے سوچا کیوں نہ لفظ فلسطین کی لفظی و لغوی بحث کو آپ کی معلومات کے لیے پیش کیاجائے ۔ فلسطین! ایک ایسا نام جو صرف جغرافیائی حدود یا قوموں کی پہچان نہیں، بلکہ ایک مقدس سرزمین، انبیاء کی جائے قیام، مسلمانوں کا قبلۂ اول، اور دنیا بھر کے مظلوموں کی علامت بن چکا ہے۔ اس تحریر میں ہم "فلسطین" کے معنی اور مفہوم کو لغوی، تاریخی، اور اسلامی زاویوں سے اجاگر کریں گے۔ لغوی تجزیہ: لفظ "فلسطین" " فلسطین" کا لفظ غالباً قدیم سامی زبانوں جیسے عبرانی یا آرامی سے آیا ہے۔ اکثر ...