نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہماری بیٹیاں


ہماری بیٹیاں !!!

(DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi)

انسان ایک زنجیر کی ماند رشتوں میں جڑا ہوا ہے ۔ایک شخص مختلف رشتوں میں جڑا ہوا ہے ۔خالقِ کائنات مالک شش جہات نے ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی بلکہ اس نے فرق رکھا ہے اور یہ فرق بھی اس کی تخلیق کا کمال ہے کسی کو اس نے صحت قابلِ رشک عطا کی کسی کو علم دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا، کسی کودولت کم دی کسی کوزیادہ دی ،کسی کو بولنے کی صلاحیت غیرمعمولی عطا کی۔ کسی کو کسی ہنر میں یکتا بنایا، کسی کودین کی رغبت وشوق دوسروں کی نسبت زیادہ دیا کسی کو بیٹے دئیے، کسی کو بیٹیاں، کسی کو بیٹے بیٹیاں، کسی کو اولاد زیادہ دی ، کسی کوکم اور کسی کو دی ہی نہیں۔اﷲ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر اولاد کی محبت اور خواہش رکھ دی ہے ۔ زندگی کی گہما گہمی اور رونق اولاد ہی کے ذریعے قائم ہے۔ یہ اولاد ہی ہے جس کیلیے انسان نکاح کرتا ہے ،گھر بساتا ہے اور سامانِ زندگی حاصل کرتا ہے لیکن اولاد کے حصول میں انسان بے بس اور بے اختیار ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس نعمت کی عطاکا مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہے چاہے توکسی کو بیٹے اور بیٹیوں سے نوازے او رکسی کو صرف بیٹے دے او رچاہے توکسی صرف بیٹیاں دے دے۔ توبیٹیوں کی پیدائش پر پریشانی کا اظہار نہیں کرناچاہیے کیونکہ بیٹیوں کی پیدائش پر افسردہ ہونا مومن کو زیب نہیں دیتا۔ حضرات انبیاء علیہ السَّلامبیٹیوں کے باپ تھے ۔ بیٹیوں کی بجائے صرف بیٹوں کی ولادت پرمبارک باد دینا طریقہ جاہلیت ہے ۔ دونوں کی ولادت پر مبارک باددی جائے یا دونوں موقعوں پر خاموشی اختیار کی جائے ۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ کس قدر بیٹی کی اہمیت ہے ۔جہاں بیٹی کی شان بیان کی گئی وہیں اس عالی مرتب رشتہ سے اسلام کے کچھ تقاضے بھی ہیں کہ حوا کی یہ بیٹی کس کردار و گفتار کی مالک ہو۔بیٹی کو ایسا ہونا چاہے کہ جوحیاء کا لباس زیب تن کر لے تو لوگ اس کے عیب نہیں دیکھ پائیں گے۔اسلام بارہا حیاء پر زور دیتا ہے ۔یہ حیا ہی ہے جو انسان کو برے عمل سے روکتی ہے ۔دین اسلام ان عظیم ماؤں کو خراجِ عقیدت پیش کرتا ہے ۔جو اپنی کوکھ سے عزت مآب بیٹیوں کو جنم دیتی ہیں ۔

ہماری سوسائٹی میں یہ ایک عام رویہ ہے کہ بیٹوں کو بیٹیوں پر فوقیت دی جاتی ہے۔ عام طور پر بیٹاہونے پر خوشی منائی جاتی اور بیٹی پر منہ بنایا جاتا ہے۔اگر عقل و فطرت اور اسلام کے لحاظ سے لڑکا لڑکی سے بہتر ہے تو اس روئیے میں کوئی قباحت نہیں۔ لیکن اگر ایسا نہیں تو روئیے کی اصلاح ضروری ہے۔ آئیے اس مسئلے کا سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہیں۔

زمانہ قدیم ہی سے بیٹوں کو فوقیت دی جاتی رہی ہے۔ اس ترجیح کی کچھ معاشی، سماجی اور نفسیاتی بنیادیں ہیں۔ انسان کا ابتدائی دور قبائلی اور زرعی نظاموں پر مشتمل تھا۔ غذا کاوحصول یا تو شکار کرنے پر منحصر تھا یا پھر کھیتی باڑی کے ذریعے غلہ اگانے پر۔ دونوں ہی صورتوں میں بڑی تعداد میں کام کرنے والی لیبر فورس یعنی مزدوروں کی ضرورت ہوتی تھی۔ بیٹا ہونے کی صورت میں ایک فرد کو مفت کے مزدور ہاتھ آجاتے اور بیٹی ہونے کی صورت میں وہ ان کماو پوتوں سے محروم رہ جاتا تھا۔یہ بات واضح رہے کہ قدیم زمانے میں باپ کو اپنے بیٹوں پر تشدد، انہیں خاندان سے خارج کردینے، یہاں تک کہ انہیں قتل تک کرنے کے اختیارات بھی بعض صورتوں میں حاصل تھے ۔چنانچہ بیٹے اپنی معاشی اور سماجی بقا کے لئے باپ کی حکم ماننے اور مشترکہ جائداد سے جڑے رہنے پر مجبور تھے ۔

ماضی میں بیٹے کو ترجیح دینے کی ایک سماجی وجہ بھی تھی وہ یہ کہ بیٹوں اور پوتوں کی کثرت سماج میں ایک احساس تحفظ فراہم کرتی اور مبینہ دشمنوں سے دفاع میں معاون ثابت ہوتی تھی۔اس کے برعکس بیٹی کی ولادت کی صورت میں ایک طرف تو محافظوں کی نفری میں کمی واقع ہوجاتی اور دوسری جانب لڑکی کی بلوغت اور شادی تک حفاظت کا بار بھی بڑھ جاتا تھا۔

بیٹو ں کو ترجیح دینے کا ایک پہلو نفسیاتی بھی تھا ۔ جب لڑکے کے اس قدر دنیاوی فائدے نظر آنے لگے تو لوگ مرد کو برتر اور عورت کو کمتر مخلوق سمجھنے لگے۔ اسی طرح نسل کے تسلسل کا سلسلہ بیٹے سے جوڑ دیا گیااور ایک غلط تصور پیدا ہوگیا کہ اگر بیٹا نہ ہو ا تو نسل ختم ہوجائے گی۔ ان سب باتوں کا لازمی نتیجہ یہ نکلا بیٹی کی ولادت نفسیاتی طور پر ناپسند کی جانے لگی۔ پھر بعد میں پیدا ہونے والی نسلوں نے اس ناپسندیدگی کو ایک روایت کے طور پر قبول کرلیا۔

اسلام نے بیٹی کو رفعت و بلندی عطاکی۔انسان جو اس رشتہ سے بہر صورت بیزار دکھائی دے رہا تھا اس اس حساس اہم اور نفیس رشتے کی اہمیت باور کروار معاشرتی حسن کو دوبالا کردیا۔

آئیے!پیارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ کے فرامین سے اس عظیم رشتے کی افادیت جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس مرد کی بھی دو بیٹیاں بالغ ہو جائیں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے (کھلائے پلائے اور دینی آداب سکھائے) جب تک وہ بیٹیاں اسکے ساتھ رہیں یا وہ مرد ان بیٹیوں کے ساتھ رہے (حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے)تو یہ بیٹیاں اسے ضرور جنت میں داخل کروائیں گی ۔( سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 551))
صرف یہی نہیں بلکہ بیٹی کی شان میں بارگاہِ رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے ایسے ایسے فرامین کا صدور ہوا کہ بیٹی کا سرفخر سے بلندہوجائے اسے اپنی منصب اور اسلام کے عطاکردہ مقام کا پاس ہوتواسی کہ تشکر میں اپنی ساری زندگی صرف کردے ۔ یہ توہم نے بیٹی کے متعلق بیان کیا کہ بیٹی کی شخصیت کن کن مرحلوں سے گزری اور پھر اسلام نے اسے کیا مقام دیا۔اب اس بات پر غور کرتے ہیں کیا حوا کی اس بیٹی نے اپنا یہ مقام بحال رکھایا عطاکردہ اس مقام کو پسِ پشت ڈال دیا۔آج ہم اس دیکھتے ہیں۔ تو سر ندامت سے جھک جاتے ہیں کہ اس بیٹی نے سرکشی اختیار کی اور اس نے دوسروں کی ثقافت ،طرز زندگی ،طرز معاشرت کو اپنا لیا جس میں اس نے اپنے وقار کو سربازار نیلام کیا ۔ٹی وی اشتہار کی زینت ،باہم مردوں میں اختلاط ۔اُف وہ وہ رویے اس نے اپنا لیے کہ شرم سے سرجھک جائے ۔حالانکہ یہ ایک عظیم رشتہ ہے ۔یہ بیٹی محترم ہے ۔مکرم ہے ۔

ہمارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ فرماتے ہیں :عروہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک عورت اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ مانگتے ہوئی آئی، اس نے میرے پاس سوائے ایک کھجور کے کچھ نہیں پایا، تو میں نے وہ کھجور اسے دیدی، اس عورت نے اس کھجور کو دونوں لڑکیوں میں بانٹ دیا اور خود کچھ نہیں کھایا، پھر کھڑی ہوئی اور چل دی، جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے تو میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے بیان کیا آپ نے فرمایا کہ جو کوئی ان لڑکیوں کے سبب سے آزمائش میں ڈالا جائے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے آگ سے حجاب ہوں گی۔( صحیح بخاری جلد 1 حدیث نمبر 1333))

جہاں تک بیٹی کے تحفظ اور اسکی ذمہ داری کا تعلق ہے تو یقیناََ اس کی تعلیم ، تربیت، عفت کی حفاظت اور شادی کے اخراجات وغیرہ بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن کم و بیش یہی ذمہ داریاں بیٹے کے کیس میں بھی ہیں۔اس کی تعلیم، تربیت میں وہی اخراجات ہیں۔اسکی عفت کی حفاطت کی بجائے ۔بری صحبت سے بچانے کی ذمہ داری ہے ۔ یعنی اگر لڑکی کی حفاظت ایک داخلی معاملہ ہے تو لڑکے کو خارجی ماحول میں رہ کر کنٹرول کرنا پڑتا ہے ۔ اسی طرح لڑکا اور لڑکی کی شادی میں اخراجات کی نوعیت کم و بیش برابر ہی ہے۔ اگر لڑکی کو جہیز دینا پڑتا ہے۔ تو لڑکے کو بری چڑھائی جاتی ہے۔اگر فرنیچر اور الیکٹرانک آئٹمز کو نظر انداز کردیا جائے تو بری اور جہیز میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔

نفسیاتی طور پر بیٹے کو ترجیح دیناایک مغالطہ اور غلط روایت ہے ۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہاسے بہت زیادہ محبت اور تعلق کا اظہار کیا۔چنانچہ اسلام میں بیٹوں کو فوقیت دینے کی کوئی بنیاد نہیں ملتی بلکہ یہ تو جاہل معاشر ے کی بنیاد ہے۔

بیٹااور بیٹی کی پیدائش اور بانجھ پن سب کچھ اﷲ کے چاہنے پر منحصر ہے ۔ بیٹے یا بیٹی کا پیدا ہونا انسان کو شکر یا صبر کے امتحان میں ڈالتا ہے ۔نیز لڑکا ہو یا لڑکی ،اﷲ تعالیٰ یہ ملاحظہ فرماتاہے کہ والدین کس طرح ان کی درست تربیت کرکے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں ۔ دوسری جانب بانجھ پن انسان کو صبر کی آزمائش میں لے آتا ہے ۔
عورت کے کئی روپ ہیں۔کئی کرداروں میں عورت کو اہم ہستی سمجھا جاتا ہے۔ماں ،بہن ،بیٹی اور بیوی کی رو
پ میں اس کی عزت و عظمت مسلمہ رہی ہے۔خون ریز لڑائیاں عورت کے بیچ میں آنے سے رک جاتی تھیں۔عورت ہی کے خاطر خون ریز لڑائیاں بھی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔موجودہ دورمیں عورت ایک کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔اسکی سماجی حیثیت کو بالکل ختم کر دیا گیا ہے۔عورت سے درد ناک واقعات کا پیش آنا روز کا معمول بن گیا ہے۔

اسلام کی نظیر دیکھئے :پارہ25سورۃ شورٰی کی آیت:49میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :ترجمہ کنزالایمان:ترجمہ کنزالایمان:ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی سلطنت، پیدا کرتا ہے جو چاہے ،جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمائے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں اور جسے چاہے بانجھ کردے، بیشک وہ علم و قدرت والا ہے۔
محترم قارئین :آئیے وہ بشارتیں جانتے ہیں جو نصیب ہوں گیں بیٹیوں والوں کو۔

﴿۱﴾بیٹیوں کو بُرا مت سمجھو، بے شک وہ مَحَبَّت کرنے والیاں ہیں ۔۔۔۔﴿۲﴾ جس کے یہاں بیٹی پیدا ہو اور وہ اُسے اِیذا نہ دے اور نہ ہی بُرا جانے اور نہ بیٹے کو بیٹی پر فضیلت دے تو اُس شخص کو جنت میں داخِل فرمائے گا۔﴿۳﴾جس شخص پر بیٹیوں کی پرورش کا بوجھ آ پڑے اور وہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک (یعنی اچّھا برتاؤ) کرے تو یہ بیٹیاں اس کے لئے جہنَّم سے روک بن جائیں گی ۔﴿۴﴾ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو فِرِشتوں کو بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں:’’اَلسّّلَامُ عَلَیْکُم اَہْلَ الْبَیْتیعنی اے گھر والو! تم پر سلامَتی ہو ۔‘‘ پھر فِرِشتے اُس بچّی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اُس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ایک کمزور جان ہے جو ایک ناتُواں (یعنی کمزور) سے پیدا ہوئی ہے ، جو شخص اِس ناتواں جان کی پرورِش کی ذمّے داری لے گا،قِیامت تک کی مدد اُس کے شاملِ حال رہے گی ۔﴿۵﴾ جس کی تین بیٹیاں ہوں ،وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے ۔عرض کی گئی : اور دو ہوں تو؟ فرمایا :اور دو ہوں تب بھی ۔ عرض کی گئی : اگر ایک ہو تو ؟فرمایا : ’’ اگر ایک ہو تو بھی ۔﴿۶﴾ جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر وہ اُن کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے مُعامَلے(مُ۔عَا۔مَلے) میں سے ڈرتارہے تو اُس کیلئے جنت ہے﴿۷﴾جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔﴿۸﴾ جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں تک کہ انہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے ) تووہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہوجائیں گی۔ کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو اُس کے لئے جنت واجِب ہوجاتی ہے ۔عرض کی گئی : اور دو ہوں تو؟ فرمایا :اور دو ہوں تب بھی ۔ عرض کی گئی : اگر ایک ہو تو ؟فرمایا : ’’ اگر ایک ہو تو بھی ۔ ﴿۶﴾ جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں پھر وہ اُن کی اچھی طرح پرورش کرے اور ان کے مُعامَلے(مُ۔عَا۔مَلے) میں سے ڈرتارہے تو اُس کیلئے جنت ہے ۔ ﴿۷﴾جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سُلوک کرے تو وہ جنت میں داخل ہوگا ۔﴿۸﴾ جس نے اپنی دو بیٹیوں یا دو بہنوں یا دو رشتے دا ر بچیوں پر ثواب کی نیّت سے خرچ کیا یہاں تک کہ انہیں بے نیاز کر دے(یعنی ان کا نِکاح ہوجائے یا وہ صاحِب مال ہوجائیں یا ان کی وفات ہو جائے ) تووہ اس کیلئے آگ سے آڑ ہوجائیں گی۔

ماخذ:(مُسندِ اِمام احمد بن حنبل ج۶ص۱۳۴حدیث۱۷۳۷۸ ۲؂ المستدرک ج ۵ ص ۲۴۸ حدیث ۷۴۲۸ ۳؂ مسلم ص ۱۴۱۴ حدیث ۲۶۲۹ ۴؂ مجمع الزوائد ج۸ص۲۸۵حدیث۱۳۴۸۴ ۔۔۔۔ معجم الاوسط ج۴ص۳۴۷حدیث ۶۱۹۹مُلَخّصاً ۲ ؂ ترمذی ج ۳ ص ۳۶۷ حدیث ۱۹۲۳ ۳؂ تر مذی ج ۳ ص ۳۶۶ حدیث۱۹۱۹ ۴ ؂ مسند امام احمد بن حنبل ج۱۰ص ۱۷۹ حدیث ۲۶۵۷۸ )

ٍ محترم قارئین :اسلام کتنا نفیس دین ہے کہ انسانی رشتوں کو کس خوبصورت انداز میں پیش کیا کہ لمحہ لمحہ ہماری رہنمائی فرمائی ۔روایت پڑھیے اور جھوم اُٹھیے ۔’’حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالِک سے مروی ہے کہ رسولِ اکرم، شہنشاہ ِآدم وبنی آدم کا فرمانِ معظَّم ہے:’’جو بازار سے اپنے بچّوں کے لئے کوئی نئی چیز لائے تو وہ ان (یعنی بچّوں)پر صَدَقہ کرنے والے کی طرح ہے اور اسے چاہیے کہ بیٹیوں سے ابتِدا کرے کیونکہ بیٹیوں پر رحم فرماتا ہے اور جو شخص اپنی بیٹیوں پر رحمت وشفقت کرے وہ خوفِ خدا میں رونے والے کی مثل ہے اور جو اپنی بیٹیوں کو خوش کرے بروزِ قیامت اُسے خوش کرے گا ۔‘‘ (اَلْفِردَوس ج۲ص۲۶۳ حدیث۵۸۳۰)

صدکروڑ افسوس!آج کل مسلمانوں کی ایک تعداد ’’بیٹی ‘‘ کی پیدائش کو ناپسند کرنے لگی ہے ! اور بعض ماں باپ پیٹ میں بچّہ ہے یا بچّی اِس کی معلومات کے لئے الٹراساؤنڈ بھی کروا ڈالتے ہیں!پھر رپورٹ میں بیٹی کی نشاندہی کی صورت میں بعض تو ()حَمْل ضائع کروانے سے بھی دَریغ نہیں کرتے ۔ الٹرا ساؤنڈ کروانے کا اَہم مسئلہ ذِہن نشین فرما لیجئے: اگر مَرَض کا علاج مقصود ہے تو اُس کی تشخیص (تَشْ۔خِیْص۔یعنی پہچان) کیلئے بے پردَگی ہو رہی ہو تب بھی ماہِر طبیب کے کہنے پر عورت کسی مسلمان عورت(اور نہ ملے تو مجبوری کی صورت میں مرد وغیرہ) کے ذَرِیعے الٹرا ساؤنڈ کروا سکتی ہے۔ لیکن بچّہ ہے یا بچّی اس کی معلومات حاصل کرنے کا تعلُّق چُونکہ علاج سے نہیں اور الٹراساؤنڈ میں عورت کے سَتْر(یعنی ان اعضاء مَثَلاً ناف کے نیچے کے حصّے)کی بے پردَگی ہوتی ہے لہٰذا یہ کام مرد تو مر د کسی مسلمان عورت سے بھی کروانا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔

الامان والحفیظ:محترم قارئین !ہم نے مفصل انداز میں بیٹی کی شان بیان کرنے کی کوشش کی یہاں تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کرتا چلوں کہ میں بھی اپنی بیٹی نورالایمان سے بہت پیار کرتاہوں اس کی ننھی ننھی باتیں میری روح کو تسکین بخشتی ہیں میری بیٹی میرا ارمان ،میرامان اور ان شاء اﷲ عزوجل اگر میں اس کی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگیا تومیری آخرت کا ساماں بھی ہے ۔اﷲ عزوجل ہمیں بیٹیوں کی اچھی تربیت کرنے کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں اس رشتے کا احترام کرنے کی شرف عطافرمائے ۔آمین

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا