نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دلوں پہ حکمرانی کا راز


دلوں پہ حکمرانی کا راز

(DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi)

ایک مرتبہ عروہ بن مسعود کو جب قریش نے صلح حدیبیہ کے سال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا تو انہوں نے صحابہ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہوئے دیکھا۔ جب عروہ واپس اپنے دوستوں کے پاس گئے تو کہنے لگے۔ اے لوگو! اﷲ کی قسم میں بادشاہوں کے درباروں میں جا چکا ہوں میں قیصرو کسریٰ اور نجاشی کے دربار میں بھی گیا ہوں۔ اﷲ کی قسم میں نے کسی بادشاہ کے اصحاب کو اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوئے نہیں دیکھا جیسی محمد کی تعظیم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کرتے ہیں۔ اﷲ کی قسم وہ اگر بلغم بھی پھینکتا ہے تو وہ کسی نہ کسی آدمی کے ہاتھ میں گرتی ہے پھر وہ اسے اپنے منہ اور جسم پر مل لیتا ہے۔ جب وہ انہیں کوئی حکم دیتا ہے تو اس کی تعمیل میں سارے کے سارے بھاگ پڑتے ہیں۔ وہ جب وضو کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ لوگ اس کے پانی سے برکت حاصل کرنے کے لیے آپس میں لڑ پڑیں گے۔ جب وہ بولتا ہے تو وہ لوگ اس کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں۔ اس کے ادب کی وجہ سے اسکی طرف نگاہیں جما کر نہیں دیکھتے۔ اس نے تم لوگوں کے سامنے ہدایت کا راستہ پیش کیا ہے لہٰذا اسے قبول کر لو(بخاری ، المستند صفحہ۹)۔

حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے کہ حجام آپ کی حجامت بنا رہا تھا اور آپ کے اصحاب آپ کے اردگرد موجود تھے۔ وہ چاہتے یہ تھے کہ ایک بھی بال گرے تو کسی نہ کسی کے ہاتھ میں جائے(مسلم ، المستند ،صفحہ۹)۔

اتنی ٹھاٹھ کے باوجود آپ نے کبھی خدائی دعویٰ نہیں کیا بلکہ اپنے آپ کو اﷲ کا بندہ کہلانا پسند فرمایا۔ ایک مرتبہ ایک دیہاتی نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے معجزہ طلب کیا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اس درخت سے کہو تمہیں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم بلا رہے ہیں۔ وہ درخت دائیں بائیں جھکا اور آگے پیچھے جھکا حتیٰ کہ اسکی جڑیں ٹوٹ گئیں۔ پھر زمین کو چیرتا ہوا ، اپنی جڑیں گھسیٹتا ہوا ، گرد اڑاتا ہوا آگیا حتیٰ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا السلام علیک یا رسول اﷲ۔ دیہاتی نے کہا اسے حکم دیں کہ اپنی جگہ پر واپس چلا جائے۔ وہ واپس چلا گیا ، اپنی جڑیں گاڑ دیں اور سیدھا ہو گیا۔ دیہاتی نے عرض کیا۔ مجھے اجازت دیجئے میں آپکو سجدہ کروں۔ فرمایا اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ اس نے کہا چلیے مجھے اپنے ہاتھ اور پاؤں چومنے کی اجازت دیجئے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دیـ (الشفاء ، المستند صفحہ۴۰۔۴۱)۔یہ ہے ان کی عاجزی ، بندگی اور حقیقت پسندی۔

محترم قارئین!!زمین پر حکمرانی کرنے والے بے نام و نشان رہے گئے جبکہ کردار و گفتار کے منارے جنھوں نے دلوں پر حکمرانی کی برسوں دلوں کی دنیا میں تابندہ رہے اور رہتی دنیا تک ان کے نقوش باقی ہیں ۔تو پھر کیا خیال ہے ۔آج سے اپنے اخلاق ،عادات و اطور سے دلوں پرحکمرانی کے گُر کو سیکھنے کی کوشش کریں اس کی بدولت ہماری دنیا اور ہماری آخرت بھی سنور جائے گی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا