نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دلچسپ اور عجیب پرندے


دلچسپ اور عجیب پرندے

(DR ZAHOOR AHMED DANISH, Karachi)

ہجرت لفظ سن کر فوراً ایک بات ذہن میں آجاتی ہے۔کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا۔ہمارے آقا مدینے والے مصطفی ﷺ نے بھی ہجرت فرمائی۔ جس میں نفع ہی نفع تھا۔ابھی بھی سیانے کہتے ہیں ۔کہ سفر وسیلہ ظفر ۔

محترم قارئین :انسانوں کی ہجرت تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں ۔کبھی یہ سنا کہ پرندے بھی ہجرت کرتے ہیں ۔ہے نا دلچسپ بات !
 


بھئی پرندوں نے کونسی جاب کرنی ہے ؟کہ وہ روزگار کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ جائیں ۔انھیں تو غذا میسر آجاتی ہے ۔

جناب!ہم بتاتے ہیں کہ پرندے بھی سفر کرتے ہیں نہ صرف سفر ۔بلکہ بہت طویل طویل سفر۔ جیسے ہم اور آپ ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ یہ پرندے ایک ملک سے دوسرے ملک بھی ہجرت کرتے ہیں ۔

کیسا؟

موسمی حالات میں تبدیلی ، روشنی کی شدت و کمی و بیشی، دن کی روشنی کا وقفہ، روشنی کی نوعیت، ہوا کی رفتار اور اس کی سمت کے علاوہ بھی کئی عوامل پرندوں کو ہجرت پر مجبور کرتے ہیں ۔ اس طرح ہجرت ایک موسمی عمل ہے جس کے دوران پرندے گروہوں کی شکل میں حرکت کرتے ہیں ۔ اس دوران پرندے ہزاروں کلو میٹر کا سفر طے کرتے ہیں ۔

بطخ جسے انگریزی میں ڈک کہتے ہیں ۔آپ کو معلوم ہے اس کی کئی قسمیں ہیں ۔سنہری رنگت والے نیلے پر والی چھوٹی بطخ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہر دن میل کی اڑان بھر سکتی ہے۔۔ دنیا میں چند پرندے اپنے لمبے ہجری سفر کے لیے بڑی شہرت رکھتے ہیں۔ قطب شمالی کا ٹرن نامی پرندہ گرمیوں کے آخیر میں اپنی شمالی کالونیوں کو خیر باد کہہ کر قطب جنوبی تک جاتا ہے۔ اس کا طے کردہ ریکارڈ فاصلہ 100 کلومیٹر ہے۔

اسی طرح بوبولنگ پرندہ شمالی امریکہ میں افزائش نسل کا کام کرتا ہے اور پھر ارجنٹائنا کے کوہستان تک چلا جاتا ہے۔ ہر سال ستمبر تا اپریل ہندوستان کو لاکھوں پرندوں کی میزبانی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔ یہ پرندے بڑے تواتر کے ساتھ آتے ہیں اور مختصر سے قیام کے بعد اپنے اصلی وطن لوٹ جاتے ہیں۔ ان پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ وسطی و مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ سے یہاں آ پہنچتے ہیں۔
 


یہ بات بڑی تعجب خیز ہے کہ پرندے کس طرح اتنا طویل سفر بعض اوقات بغیر غذا کے اور راستہ بھٹکے بغیر کر پاتے ہیں ۔ اس راز کے پیچھے کون سے محرکات کام کر رہے ہیں ۔ وہ نہ راستے سے بھٹکتے ہیں اور نہ ہی راستے کی سمت۔ اور مقرر وقت پر پہنچتے ہیں۔ آخر وہ کون سے محرکات ہیں جو ان کی اس باقاعدگی اور پابندی کے پیچھے مضمر ہیں ؟

رات میں اڑنے والے پرندے عموماً تنہا اڑتے ہیں جبکہ دن میں پرواز ایک گروہ کی شکل میں ہوتی ہے۔ یہ ندیوں، وادیوں، ساحل وغیرہ کو بطور نشانی استعمال کرتے ہوئے پہاڑی سلسلوں اور سمندروں کو بھی پار کر جاتے ہیں۔ پرواز کرنے والے پرندوں کے لیے جغرافیائی نشانیاں بہت سودمند ثابت ہیں ۔ سفر کرنے والے پرندوں کی راہوں اور سمتوں کا تعین کون سی چیز کرتی ہے، اس کے متعلق کوئی صحیح فیصلہ نہیں ہو پایا ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ فطرت میں یہ جذبہ ودیعت ہونے کے علاوہ تجربہ بھی ان کے اس عمل میں رہنمائی کرتا ہے۔

سبحان اﷲ !کیسا نظام ہے میرے ربّ کا !

محترم قارئین !ہے نا پتے کی بات ۔ہے نادلچسپ بات ۔۔ایسی ہی مزید دلچسپ اور مفید معلومات کے ساتھ ہم پھر حاضر ہوں گے ۔اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا۔اپنے آراء اور خیالات سے ضرور آگاہ کرتے رہیے گا۔فیوچر پلاننگ اور دیگر علم نفسیات سے متعلق معلومات کے حوالے سے آپ ہماری خدمات حاصل کرسکتے ہیں ۔رابطہ نمبر:0346-2914283

محترم قارئین :آپ میرے اپنے ہیں اپنوں سے بندہ دل کی ہر بات کہہ دیتا ہے آپ کو بتانا تھا کہ خواتین کے لیے ایک جدید طرز پر ادارہ بنانے کے لیے محو سفر ہوں ۔اس حوالے سے آپ اپنا تعاون ضرور فرمائیں ۔ایک ایک بچی کی تعلیم ایک کنبہ کی تعلیم ہے ۔فاطمۃ الزہراء اسلامک اکیڈمی رکھ موڑ مندرہ تحصیل گوجرخان اپنے ابتدائی مراحل میں ہے ۔جہاں جدید و عصری تعلیم فی سبیل اﷲ دی جائے گی ۔نیکی کے سفر میں ہمارے دست راست بنیں ۔۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا