نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچے کورے کاغذ کی ماند ہیں !!


بچے کورے کاغذ کی ماند ہیں !!

(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)

بعض مرتبہ ہم وہ کام کررہے ہوتے ہیں جو اس وقت تو ہمیں بہت اچھالگارہاہوتاہے بلکہ اس کے کرنے پر خوشی بھی ہورہی ہوتی ہے اور کرتے وقت بھی کندھے اچک اچک کر کررہے ہوتے ہیں ۔لیکن جب اس کے نقصانات ہمارے سامنے آتے ہیں تو پھر احساس ہوتاہے کہ ہاں مجھے ایسا نہیں کرناچاہیے تھا۔

آج’’ تربیت اولاد اور مفید مشورے ‘‘میں اسی جانب آپ کی توجہ دلاوں گا۔

والدین اپنی اولاد کے سامنے اپنے بچپن کی باتیں کرتے ہیں ۔اپنے طالب علمی کے دور کی باتیں کرتے ہیں ۔کرنی بھی چاہیں ۔لیکن جو انداز ہوتا ہے وہ درست نہیں ہوتا و سراسر منفی ہوتا ہے ۔

ڈھینگیں مارتے والدین !!!

اپنی جوانی کی غیراخلاقی سرگرمیوں کو فخر سے بچوں کو بتانا حد درجہ حماقت ہے، یا پھر اپنے کارناموں کو نمک مرچ لگا کر پیش کرنا کہ بچے جان جائیں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بچہ فطرت کیقریب ہوتا ہے۔ وہ سچ اور جھوٹ کا ادراک کر لیتا ہے اگرچہ اس کو اس کے اظہار کاطریقہ نہ آتا ہو۔ ہر بات میں اپنی تعریف کرنا، اپنے گن گانا، ہر وقت دوسروں پہ خودکو ترجیح دینا، شیخی بگھارنا، درحقیقت اپنی کمزور شخصیت کا اظہار ہے۔

رشتوں کو تقسیم کرکے پیش کرنا:
لڑکوں کو لڑکیوں پرترجیح دینا، یا ننھیال ؍ددھیال والوں کی برائیاں کرنا، یا بچوں کا ننھیال؍ددھیال والوں سے قلبی تعلق برداشت نہ کرنا، لڑکیوں کی پے درپے پیدائش سے دل تنگ ہونا اوران کے مقابلے میں لڑکے کی آو بھگت کرنا، لڑکیوں کے والد کو بے چارہ، بوجھ کے تلیدبا ہوا جیسے احساسات دلانا، ایک طرح کا گناہ میں ملوث ہونا ہے ۔لڑکیوں کی پیدائش پہ انقباض محسوس کرنے والوں کی مذمت قرآن پاک میں کی گئی ہے۔

ترغیب دینے کے لیے سراپہ ٔ ترغیب بنیں:
بزرگوں کو اپنی بزرگی اور مقام و مرتبے کا احساس دلانے کے لیے رعب ڈالنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ سلام کروانے کے لئے بچوں پہ سختی کرنا کوئی اعلیٰ اخلاق کی مثال نہیں۔ اعلیٰ اخلاق تویہ ہے کہ آپ خود بڑھ کر بچوں کو سلام کریں، محبت سے، پیار سے، اور یہی سنت رسول ہے۔ بچے آپ کو وہی کچھ لوٹائیں گے جو آپ ان کو پہلے عطا کریں گے۔محترم قارئین !آپ کے ننھے بچّوں کے اذہان خالی تختی کی ماند ہیں ان پر جو لکھا جائے گا ہو نقش ہوجائے گا۔۔محتاط ہوجائیں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا