نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حیرت انگیز مچھلی !!!!

(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)

محترم قارئین :آج بھی ہم لائے ہیں ۔ایک ایسی معلومات ممکن ہے کہ آپ پہلی بار سن رہے ہوں ۔
مچھلی تو آپ سب شوق سے کھاتے ہی ہوں گے۔بلکہ اگرمہمان آجائیں تو ان کی ضیافت میں بھی یہ ڈش شامل کرتے ہیں ۔

مچھلی کی بہت سی اقسام ہیں ان میں ایک حیرت انگیز قسم’’ قوقی ‘‘مچھلی بھی ہے ۔اب جب میں اس کے بارے میں بتاوں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے ۔

یہ ایک عجیب وغریب مچھلی ہے،اس کے سر پر ایک بَہُت بڑا کانٹا ہوتا ہے ۔ جب بھوک لگتی ہے تو جس(بڑے سے بڑے)جانور کو بھی اپنا شکار بنانا چاہے اُس پر جاگِرتی ہے اور وہ جانور اُسے آئی روزی سمجھ کر نگل جاتا ہے اوریہ اندر پہنچ کراپنے کانٹے سے اُس کاپیٹ چیر کر باہَر آجاتی ہے!اوریوں اپنا شکار کرنے والے جانور کو خود شکار کر لیتی اور پھر اُسے مزے سے کھانے لگتی ہے۔اُس کے شکار کابچاکھچادوسرے دریائی جانور بھی کھاتے ہیں۔جب ماہی گیر قُوقی مچھلی کاشکار کرنے کی کوشِش کرتے ہیں تو اپنے کانٹے سے حملہ کر کے کشتی پھاڑدیتی اور ڈوبتے ہوئے ماہی گیر وں کو ہڑپ کرجاتی ہے !قُوقی کا شکار کرنے والے اِسی مچھلی کی کھال اپنی کِشتی پر چڑھا لیتے ہیں کیوں کہ اِس کی اپنی کھال پر اِس کا کانٹا اثر نہیں کرتا ۔

جی قارئین :کیسی لگی معلومات ہے نا حیران کردینے والی معلومات ۔اسی طرح کی مفید اور دلچسپ معلومات سے مستفید ہونے کے لیے راقم کی تحریر پڑھتے رہے ان شاء اﷲ مزید اچھی اور مفید معلومات کے ساتھ پھر حایک تحریر کی صورت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گا ۔ایک مرتبہ تخلیقِ کائنات کے اس شاہکار کے معلومات پڑھ سن کر سبحان اﷲ ضرور کہیے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ اپنی آراء اور مفید مشورے اس نمبر پر بھی دے سکتے ہیں ۔0346-2914283
۔۔۔۔۔یارزندہ صحبت باقی

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا