نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

برادری کے نام پر حماقت بھری داستانیں


برادری کے نام پر حماقت بھری داستانیں

(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)

ہم جہاں عقائد کے اعتبار سے ٹکڑوں میں بٹے ہیں وہیں ہم نے تقسیم سے تقسیم در کے ضابطے پر عمل کرتے ہوئے خود ہو انسانوں کی دنیا میں تقسیم کرتے چلے جارہے ہیں ۔اسی تقسیم کاری کی ایک صورت ،بٹ ،گجر ،ملک ،وڑائچ ۔۔کنبو ۔۔۔جتوئی ۔۔۔۔۔۔وٹو ۔مینگل ۔۔۔مغل ۔۔پلیجو۔۔میواتی ۔۔۔۔سواتی ۔۔چوہدری ۔۔بھٹو۔ملک ۔سردار ۔۔تھکیال ۔۔۔ڈمال ۔۔۔وغیرہ ہے۔جس پر ہم نازکرتے ہیں ۔جس پر ہم نے اپنی بہت سی معاشرتی و ملی ترجیحات کو ترتیب دے رکھا ہے ۔میرے محلہ میں میرے علاقہ میں اسکول اور ڈسپنسری کی حاجت ہے ۔میرے علاقہ میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے ۔جب بات ان مسائل کے حل کی آتی ہے میں آپ ہم سب سراپائے احتجاج ہوجاتے ہیں ۔لیکن یاد رکھیں مسائل کے حل کا طریقہ کار ہے اس طریقہ کار پر چلیں گے تو آپ کے بچے کو جاب بھی ملے گی ۔بہتری بھی آئی گی ۔صحت و تعلیم کی سہولیات بھی ملیں گیں ۔لیکن آپ کے ساتھ ہوا کیا۔ہوا یہ کہ ایک طرف تو آپ نے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کی تو دوسری جانب آپ کی آنکھوں پر براری کی پٹی باندھ دی گئی ۔جس میں آپ نے جانتے بوجھتے ہوئے ۔بٹ برادری والے قابل اور دیانت دار ،اہل اور ہمدر نمائندہ کو پس پشت ڈال کے اپنی شیخ برادری کے شیخ ہی کو منتخب کرتے ہیں ۔حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ شیخ صاحب انتہا کے بددیانت اور لہجہ کے سخت اور لڑائی جھگڑے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ۔اہلیت کا یہ عالم ہے کہ موصوف سے پاکستان کی بنیادی معلومات ہی کے متعلق پوچھ لیا جائے تو بغلیں جھانکتے ہیں ۔لیکن اس محلے اور علاقے کے شیخوں نے قسم کھارکھی ہے برادری کی ناک کا مسئلہ ہے ۔جیسابھی ہو۔اپنی برادری کا تو ہے۔

اب ذرا غور کیجیے !برادری والو!! جب شیخ صاحب منسٹر بنتے ہیں توآپ کو ملنے کے لیے پہلے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتاہے ۔پھر آپ ہی کے انتخاب کی بدولت اسمبلی میں پہنچنے والے مابدولت آپ کو مکوڑوں کی طرح دیکھتے ہیں ۔ان کے لیے آپ ماضی کا قصّہ دیکھائی دیتے ہیں ۔آپ نے انتخاب کے دوران اپنے بنیادی حقوق کو نہ دیکھا۔آپ نے فقط برادری ہی کو ترجیح دی ۔نتیجہ یہی نکلا کہ وہ بٹ صاحب جو آپ کے لیے بلاامتیاز ہمدردی بھی رکھتے تھے ۔قابلیت بھی رکھتے تھے ۔عزائم بھی اچھے تھے ۔لیکن آ پ جو طبی علاج کے لیے میلوں میل دور جارہے ہیں ۔آپ کے بچے کو معقول تعلیمی ماحول نہیں ملتا۔ٹرانسپوٹیشن کا بھی کوئی پرسانِ حال نہیں ۔علاقے میں بچے کا بے فارم ہی بنوانا پڑے تو دھکے ہی کھانے پڑتے ۔
یہ سب کیوں ہوا۔کچھ غور کیا۔جناب آپ نے اپنی برادری کے شیخ کو تو پروموٹ کیا لیکن اپنے حقوق کو برادری کی بھینٹ چڑھادیا۔اب آپ محرومی پر کف افسوس ہی مل سکتے ہیں ۔آپ برادری ضرور قائم کریں اس سے کوئی منع نہیں کرتا۔لیکن برادری کو بربادی نہ بنائیں ۔آئیے میں آپ کو کچھ حقائق سے آگاہ کردوں ۔یہاں صرف برادری کو صرف سیاست کے حوالے سی بیان کیاہے ورنہ اس کے اور بہت سے پہلو ہیں جس پر بات کی جاسکتی ہے ۔میں برادری کا صریح انکار نہیں کررہابلکہ آپ کو یہ بتاچارہاہوں ۔کہ برادری کا نظریہ جو آپ اور میں نے اپنایا ہے وہ کسی طور پر بھی درست نہیں ۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی کی کسی شعبہ میں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے غیروں کا محتاج نہیں رکھا۔ روح و جسم کی تمام ضرورتیں پوری کی ہیں۔ معاش و معاد کے تمام مسائل کا شافی حل بتا دیا ہے۔ ذہنوں میں اٹھنے والے وسوسوں اور دماغوں میں پیدا ہونے والی الجھنوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ہے۔ اب یہ امت پر منحصر ہے کہ وہ اس خزینہ علم و حکمت سے کہاں تک فیض یاب ہونے کی سنجیدہ کوشش کرتی ہے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ انسانیت کا مستقبل دین اسلام سے وابستہ ہے۔ تہذیب حاضر نے مادی ترقی کے عوض انسان سے جو کچھ لیا ہے اس سے انسان کو جو ذہنی انتشار، نفاق، کھچاؤ اور ظلم و بربریت اور سیاسی و اقتصادی غلامی نصیب ہوئی ہے وہ بڑی بھاری قیمت ہے جو انسان نے ادا کی ہے۔ نئی سائنسی ترقی سے مخلوق خدا کو جو فوائد و برکات حاصل ہو سکتی تھیں وہ کم اور اس کی مکمل تباہی کا جو سامان مہیا کر دیا گیا ہے اس کی ہلاکت آفرینی کا خوف زیادہ ہے۔
آئیے ۔کتاب مبین سے اس برادری کی حقیقت جانتے ہیں ۔سورۃ حجرات میں اﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا:’’
یٰـاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی وَ جَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّ قَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْاط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ.(الحجرات، 49 : 13)
’’اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم)کیاتاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ با عزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے۔‘‘

اس آیت کریمہ میں ایک بڑی اور عالمگیر گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے۔ جس سے دنیا میں ہمیشہ گمراہی پھیلی ہے اور جس سے ظلم و زیادتی کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں۔ یعنی نسلی، قومی، وطنی، لسانی اور رنگ کا تعصب۔ قدیم زمانے سے انسانوں نے انسانیت کو چھوڑ کر اپنے اردگرد کچھ دائرے کھینچے ہیں جن کے اندر بسنے والوں کو اس نے اپنا اور باہر والوں کو بیگانہ سمجھا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی یا اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقیہ پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ مثلا، ایک قبیلے یا خاندان میں پیدا ہونا۔ کسی خاص خطہ زمین پر پیدا ہونا، کوئی خاص زبان بولنا، کسی خاص رنگ و نسل سے متعلق ہونا وغیرہ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی اگر اس میں صرف یہ ہوتا کہ اپنوں سے نسبتاً زیادہ محبت ہوتی، ان سے زیادہ ہمدردی ہوتی، ان سے زیادہ حسن سلوک کیا جاتا تو بات بری نہ تھی۔ مگر اس تمیز نے دوسروں سے نفرت، عداوت، تحقیرو تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین صورتیں اختیار کیں۔

ہم نے تمام انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ ان تمام قوموں اور نسلوں کی ابتداء صرف ایک آدم اور حواء سے ہوئی ہے۔ اس تمام سلسلہ میں کوئی بنیاد اس اونچ نیچ کے لئے نہیں جس میں لوگ متبلا ہیں۔ ایک خدا پیدا کرنے والا۔ ایک مادہ منویہ سے سب کی پیدائش، ایک طریقہ تخلیق کے ماتحت تمام انسان پیدا کئے گئے۔

اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پورے روئے زمین کے انسانوں کا ایک ہی خاندان یا ایک ہی علاقہ یا ایک جیسا رنگ یا ایک ہی زبان تو نہ ہوئی تھی۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ خاندان بڑھیں۔ مختلف علاقوں میں آباد ہوں۔ خاندانوں سے قومیں بنیں اور کسب معاش کے لئے مختلف پیشے اختیار کریں اور تمدن کی بنیاد رکھیں۔ ان فطری اختلافات کو تو ظاہر ہونا ہی تھا، اس میں کوئی خاندانی خرابی نہ تھی بلکہ ان سے قوموں میں اور انسانوں کے مختلف طبقات میں تعارف پیدا ہوا جو ناگزیر تھا۔ مگر اس فطری فرق و امتیاز کا ہر گز منشا یہ نہ تھا کہ اس امتیاز پر انسانوں میں اونچ نیچ، شریف کمین، برتر اور کمتر اور چھوٹے بڑے کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے۔ ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کی تحقیر کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے مختلف اقوام اس لئے بنائیں کہ باہمی تعارف و تعاون ہو۔ ایک دوسرے سے محبت و مودت ہو اور لوگ ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں۔

انھی میں سے ایک بات یہ ہے کہ کسی قوم اور برادری میں پیدا ہونا کسی کی بزرگی یا سعادت کی بنیاد نہیں۔ بزرگی و شرافت کی اصل بنیاد اخلاقی فضیلت ہے۔ کسی شخص کا کسی قوم میں پیدا ہونا اس کے لئے اتفاقی امر ہے۔ اس کا اپنا اس میں کوئی اختیار نہیں لہٰذا شرف بزرگی کا اصل سبب قوم و قبیلہ سے متعلق ہونا نہیں بلکہ اس کی ذاتی اخلاقی خوبیاں ہیں۔ جو شخص خدا سے زیادہ ڈرتا ہے، اس کے احکام کا پابند ہے، اس کی رضا کا متلاشی ہے، وہ عظیم ہے، شریف ہے، بزرگ ہے اور قابل تکریم و تعظیم ہے، اور جو شخص خدا کا باغی ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا گستاخ ہے وہ ذلیل ہے، نیچ ہے، حقیر ہے۔

حضور ﷺ نے ارشادفرمایا:’’’’ألحمد ﷲ الذی أذہب عنکم عیبۃ الجاہلیۃ و تکبرہا. بأباہا الناس رجلان برتقی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم علی اﷲ وفاجر شقی ہین علی اﷲ، والناس بنو آدم و خلق اﷲ آدم من تراب.(سیوطی، الدر المنثور، 7 : 579)
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سی جاہلیت کا عیب اور غرور دور فرمایا، لوگو! تمام انسان صرف دو قسم کے ہیں۔ ایک نیک، پرہیزگار، اﷲ کی نگاہ میں عزت والا۔ دوسرا فاجر بدبخت جو اﷲ کی نگاہ میں ذلیل ہوتا ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اﷲ نے مٹی سے بنایا۔‘‘

حجۃ الوادع کے موقع پر فرمایا :’’یٰا أیّہا الناس ان ربکم واحد لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی أحمر ولا لا حمر علی أسود إلا بالتقوی إن أکر مکم عند اﷲ أتقٰــکم ألا ہل بلغت؟ قالوا بلی یا رسول اﷲ قال فلیبلغ الشاہد الغائب.‘‘(بیہقی، شعب الایمان، 4 : 289، الرقم : 5137)

’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو سرخ اور کسی سرخ کو کالے پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔ بے شک تم میں اﷲ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کی یا رسول اﷲ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں۔‘‘
ایک حدیث میں ہے :’’إن اﷲ لا ینظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ینظر إلی قلوبکم و أعما لکم.
(ابن ماجہ ، السنن ،2 : 1388، الرقم : 4143)

بے شک اﷲ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے۔
یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے۔ جس میں رنگ، نسل، زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں۔ جس میں چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور موجود نہیں۔ جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ کسی قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں، بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصولوں کو جس طرح کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی صورت دی گئی ہے۔ اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی ملک، کسی دین اور کسی نظام میں کہیں نہیں پائی گئی۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے مختلف قبیلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔

محترم قارئین !قلم و قرطاس سے جہاد کرنے والوں کا یہ طریق رہاہے کہ جب جب انسان میں کوئی مضر خیال ،مضر نظریہ ،کوئی مضر فکر عام ہونے لگتاہے ۔تو اس کی اصلاح کے لیے الفاظ کے ذریعہ شعور کو بیدار کرنے کے لیے میدان عمل میں آتے ہیں ۔میں بھی سماج میں اسی روش کو عام ہوتا دیکھ رہاتھا چنانچہ آپ قارئین تک اپنا پیغام پہنچارہاہوں ۔ہر گز ذات پات کے وہ بندھن نہیں، جن میں مذکورہ بالا خرابیوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی بھائی چارہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہم دے رہے ہیں دعوتِ حق
جو چاہے ہمارے ساتھ چلے

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا