نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بہتے اآنسو


بہتے اآنسو

آنکھیں اﷲ عزوجل کی بہت بڑی نعمت ہیں ۔وہ آلہ جس سے اس دنیا کی رونقوں کو ہم ملاحظہ کرتے ہیں ۔انہی آنکھوں سے ماں باپ کی زیارت،انہی آنکھوں سے بیت اﷲ کے جلوے،انہی آنکھوں سے روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ۔آہ !کیا بتائیں !کتنی بڑی نعمت ہے ۔جو اس نعمت سے محروم ہے اس سے پوچھیے یہ کتنی بڑی نعمت ہے ۔کیا اہمیت ہے ان دیدوں کی ۔ان آنکھوں کی ۔

محترم قارئین :آج ہم اسی آنکھ سے ٹپکنے والے آنسوؤں کے متعلق آپ کو دلچسپ معلومات بتائیں گے ۔آنسوؤں تو ہر آنکھ سے ٹپکتا ہے۔ کسی آنکھ سے غم کی وجہ سے، کسی آنکھ سے خوشی کے آنسو تو کسی آنکھ سے خوف خدا، کسی آنکھ سے یاد مصطفٰی میں سیل اشک رواں ہوجاتے ہیں۔
تو سنیے قدرت کے عطاکردہ اس آنسوکے بارے میں :

آنسو ، اشکی غدود(Lacrimal Glands)کی رطوبت ہیں۔ یہ آنکھ کے ڈھیلے (Eyeball)کی شفاف بیرونی تہ یا جھلی، قرنیہ( (Cornea)کو مسلسل دھوتے رہتے ہیں ۔ یہ اس پر موجود بیرونی ذرات مثلاً گرد یا بال وغیرہ مسلسل صاف کرتے رہتے ہیں۔ آنسو، قرنیہ کو خشک ہونے سے بھی بچاتے ہیں۔ قرنیہ کے خشک ہونے کا نتیجہ اندھے پن کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ ہر آنکھ میں، آنکھ کے پپوٹے (Eyelid) کے پیچھے ایک اشکی غدود موجود ہوتا ہے.

یہ آنکھ کے پپوٹے کے نیچے موجود چھوٹی چھوٹی نالیوں کے ذریعے اپنا مائع خارج کرتے ہیں۔ ہر بار آنکھ جھپکانے کی صورت میں اشکی غدود سے مائع ان نالیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جب کوئی شخص شدید جذبات ، جیسا کہ غم یا غصے کے زیراثر ہوتا ہے تو اشکی غدود کے گرد موجود عضلات تن جاتے ہیں اور آنسو خارج ہونے لگتے ہیں۔ دل کھول کر ہنسنے کی صورت میں بھی یہی عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ آنکھ کے ڈھیلوں پر سے گزرنے اور انہیں دھونے کے بعد، آنسو آنکھ کے اندرونی حصے میں موجود اشکی نالیوں (Lacrimal Ducts) سے باہر چہرے پر بہنے لگتے ہیں۔

حقائق:بیشتر نمکیات محلول پر مشتمل آنسوؤں میں بیکٹیریا کے خلاف مدافعت کرنے والے مادے بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں پروٹین ہوتی ہے، جو آنکھوں کو مختلف بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے ۔

طبی ماہرین کے مطابق آنسوؤں می ایک بیکٹریایا ایسا مادہ ہوتا ہے جو ہمارے اعصابی نظام کو کسی بڑے انتشار سے بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان کو جب کوئی شدید صدمہ پہنچتا ہے تو اس کے جسم میں دو قسم کے ہارمونز بڑی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ جنھیں strees hormons کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ ہارمونز ہمیں رونے پر آمادہ کرتے ہیں اور مشکل وقت میں اعصابی نظام کو کسی بڑے خطرے کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے انسان رو دیتا ہے اور دراصل آنسو ہمارے جسم کو نقصان دہ عناصر سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق آنسو بلڈ پریشر کو نارمل رکھتے ہیں۔ اور ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے ساتھ اگر جلد پر چھوٹی موٹی خراشیں پڑ جائیں تو آنسو کا پانی چہرے کو شاداب کردیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے مطابق آنسو کا روکنا کسی طور پر ٹھیک نہیں۔ جسم میں دباؤ پیدا کرنے عوامل کو آنسو بہا کر لے جاتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا آنسو بہانے کے بعد کچھ بوجھ ہلکا محسوس ہوتا ہے۔ انسان اپنے آپ کو قدرے مطمئن محسوس کرتا ہے۔ جیسا کہ ندامت کے آنسو ہی کی مثال لے لیں ۔

میرے بھی آنسو نکل رہے ہیں۔ پوچھیں وہ کیوں؟ وہ اسلیے کہ میں چادر اور چار دیواری میں ملکہ کو سربازار نیلام ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ حیا کی چادر کو تار تار دیکھ رہا ہوں۔ بہن بیٹی کو بے باک اور سرکش دیکھ رہا ہوں ۔اس کی اصلاح بے حد ضروری ہے۔ لیکن ۔۔۔۔۔ایک درد اور خالصتا ً رضائے الہی کے لیے بہن بیٹیوں کوبا شعور اور آگاہی کے لیے ایک ادارہ بنام فاطمۃ الزہراء اسلامک اکیڈمی کی بنیاد رکھی ہے۔ جہاں جدید عصری تقاضوں کے مطابق انھیں نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ملک و ملت کا مثبت شہری بنانے کی بھرپور سعی جاری رکھیں گے۔ اس ادارے کو تکمیل کے مراحل تک پہنچانے کے لیے آپ دوستوں کا مالی تعاون درکار ہے۔ میں پرامید ہوں کے امی فاطمۃ رضی اﷲ عنھا کے نام سے شروع ہونے والی اس اکیڈمی کے لیے آپ اپنے حصّے کو یقینی بنائیں گے۔ اﷲ عزوجل ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔
رابطہ نمبر:0346-2914283
برج بینک سی بی برار برانچ دھوراجی کراچی : اکاونٹ نمبر:0008135860001702

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا