نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟



بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)

ہم تو اپنی زندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔

بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟

قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پوراjourneyہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں


 ۔


v  ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا ہے۔ دلچسپ انداز اور کہانی کی صورت میں بچے کو سبق اچھی طرح یاد کروایا جا سکتا ہے۔

دولت مند بننى كى طریقے سیکھنے کے لیے کلک کریں

v  ۔قارئین  بچے کو وقفے وقفے سے سبق یاد کروایا جائے۔ مثال کے طور پر اگر بچے کو ایک نظم ایک وقت میں دس بار پڑھائی جائے اور یہ خیال ہو کہ اسی وقت بچہ نظم یاد کرلے تو اس سے مایوسی ہوگی۔ اس کی بجائے بہتر ہے کہ بچے کو جب وہ تازہ دم ہو تو وقفے وقفے سے پڑھائی جائے۔ اس طرح بچے کو وہی نظم بغیر کسی مشکل کے یاد ہو جائے گی۔

v  محترم قارئین ۔ بچے کو اگر کوئی بات ایک یا دو مرتبہ بھول جائے تو اسے کند ذہن یا نالائق کہہ کر اُس کی دل آزاری اور حوصلہ شکنی نہ کی جائے، بلکہ اس وقت مختلف انداز سے اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر بچے کی یادداشت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہر بچہ ہر مضمون میں اول نہیں آ سکتا۔ کمزور یادداشت والے بچوں کو یہ باور نہ کروایا جائے کہ وہ خاص شفقت اور توجہ کے محتاج ہیں۔ محض بھول جانے کی عادت یا کمزوری کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی سختی کرنے یا اُنہیں برا بھلا کہنے سے ان پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔

بچے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں؟

v  ۔ بچے پر کام کا حد سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔ تھکاوٹ عارضی طور پر بچے کی یادداشت اور اعصاب پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اگر بچے کو آرام، کھیل کود اور تفریح کے لیے مناسب وقت فراہم کیا جائے تو بعد میں بچہ آسانی سے سبق یاد کر سکتا ہے۔


v  ۔ بچے کی رات کی نیند ضرور پوری ہونی چاہیے۔ جو بچہ شام کے وقت کوئی چیز یاد نہیں کرسکتا جب رات کی پرسکون نیند کے بعد صبح تازہ دم اُٹھے گا تو وہی چیز اُسے با آسانی یاد ہو جائے گی۔

v  ۔ سبق یاد کرنے کے لیے بچے کا صحت مند ہونا ضروری ہے، اس لیے بچے کو سادہ، زود ہضم اور قوت بخش غذا دینی چاہیے۔ بچے کو ایسی چیزیں کھانے پر مجبور نہ کیا جائے جن کو وہ پسند نہیں کرتا۔ ہر وقت یا بار بار بچہ اگر کچھ کھاتا پیتا رہے تو اس سے بھی اس کے معدہ اور صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا بچے کے کھانے کے اوقات میں اتنا وقفہ ضرور ہونا چاہیے کہ پہلی غذا ہضم ہوجائے، ورنہ وہ بچہ غبی اور کند ذہن ہو جائے گا۔

بچوں کو خطاطی سکھائیں ۔۔۔کلک کریں مضمون پڑھیں

v  ۔ بعض اوقات اولاد کی بیماریوں سے والدین کی غفلت بھی بچوں کی یادداشت پر اثر انداز ہوتی ہے، لہٰذا بچوں کا علاج کسی اچھے ڈاکٹر سے بروقت کروانا چاہیے۔ اس طرح بچے کا مرض دور ہوتے ہی، اس کی یادداشت کی قوت بحال ہو جاتی ہے۔


پیارے قارئین :

میں گزشتہ 15سال سے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوں ۔ٹیچنگ کے تجربہ اور ایک والد ہونے کی حیثیت سے میں نے اپنے تجربات ،مشاہدے اور مطالعے کی روشنی میں بچوں کو یاد کرنے کے حوالے سے اہم نکات پیش کئے ہیں جن کی مددسے آپ اپنے بچوں سبق یاد کروانے میں بہترین مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔


امید ہے کہ ہماری کوشش آپ کے لیے معاون ثابت ہوگی ۔ہماراعزم ہے کہ نسل نوکی عمدہ تعمیر ۔اس سفر میں آپ بھی ہمارے ہمسفر بنیں اور ان مضامین و کوششوں کو عام کیجئے ۔اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصرہو۔

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا