نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کو نشے سے بچانے کے طریقے





بچوں کو نشے سے بچانے کے طریقے

Ways to protect children from addiction

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

آپ کی اولاد آپ کا سرمائیہ ہے ۔وہ کتنا بدقسمت انسان ہے جو اپنے سرمائے کو ضائع کردے۔یقینا کوئی بھی نہیں چاہتاکہ اس کی اولاد ضائع ہو۔غلط کاموں میں ملوث ہو۔لیکن  بدقسمتی سے ایک بچوں و بچیوں کی ایک بڑی تعداد نشے کا عادی ہوتی چلی جارہی ہے ۔کیا یہ معاشرے کے لیے alarming پوزیشن نہیں ۔اب یہ سوال پیداہوتاہے کہ یہ کہنا توآسان ہے کہ بچے نشے کا عادی ہورہے ہیں مگر ان بچوں کو اس عادت اس ذلت کی طرف جانے سے بچائیں کیسے ؟توآئیے قارئین ہم آپ کو اس کے طریقے بتاتے ہیں ۔آپ کی ذرا سی توجہ آپ کی اولادوں کو اس بدترین نشے کے کام سے محفوظ رکھ سکتی ہے ۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم   احتیاطی تدابیر اور طریقوں کو عام فہم اور آسان انداز میں پیش کریں تاکہ آپ باآسانی سمجھ کر اس کوعملی جامہ پہناسکیں ۔آئیے بڑھتے ہیں ان محرکات کی جانب جن کی مدد سے ہم اپنے بچوں کو نشے جیسی لعنت سے بچاسکتے ہیں ۔

کھلی بات چیت رکھیں: Open Communication:

آپ والد یا والدہ ہیں ۔اپنے بچوں اور اپنے درمیان اتنا گیپ نہ رکھیں کہ وہ کسی اور سے مَن کی باتیں share كرنے لگیں ۔یوں وہ معاشرے میں دوسرے ہمدرد تلاش کرنے لگیں گے اور ضروری نہیں کہ ان کو کوئی اچھا ہی انسان میسر آسکے ۔ممکن ہے کہ وہ نشے و اوباش صحبت کا شکار ہوجائے ۔لہذااپنے بچوں کو سے کھُل کر بات کریں  اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے اور بچوں کو بھی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے بات کرنے کا حق دیں ۔ان کی بات پوری توجہ سے سنیں ۔آپ کے ignore کرنے سے کچھ بعید نہیں کہ بچہ آپ سے دور ہوکر غلط دوستوں کی بیٹھک میں سکون تلاش کرنے لگے ۔لہذآپ بہتر اور کھلی گفتگو کے ذریعے بھی اپنے بچوں کو نشے کے راستے پر چلنے سے روکنے کا موثر ذریعہ بن سکتے ہیں ۔


انہیں تعلیم دیں: Educate Them:

لاعلم شخص اندھا ہوتاہے ۔اسے اچھے اوربُرے میں کوئی تمییز نہیں ہوتی ۔لہذااپنے اولاد کو بہتر سے بہترین تعلیم کے مواقع فراہم کریں ۔نیز انھیں نشے جیسی لعنت کے محرکات ،نقصانات سے verbal اور videoكی صورت ضرور بتائیں ۔تاکہ وہ educate ہوکر اس جانب بڑھنے سے رُک سکے ۔

بچوں کی تربیت کیسے کریں؟

ایک مثبت رول ماڈل بنیں: Be a Positive Role Model:

صحت مند طرز عمل اور نمٹنے کے طریقہ کار کا مظاہرہ کریں۔ بچے اکثر اپنے والدین کے رویے کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے منشیات سے پاک طرز زندگی کا نمونہ بنانا اثر انگیز ہو سکتا ہے۔اگر والد صاحب چین سموکر ہیں  کَش پر کَش لگاتے ہیں ،گٹکاکھاتے پھرتے ہیں،تمباکونوشی بچوں کے سامنے کرتے ہیں تو ایسے والدین بھلا بچوں کو نشے سے کیسے رُوک سکتے ہیں ۔لہذاکوشش کریں آپ بچوں کے لیے مثال بنیں ۔بچے والدین کو رول ماڈل سمجھتے ہیں ۔

ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں: Monitor Their Activities:

اپنے بچے کی سرگرمیوں، دوستوں اور ٹھکانے پر نظر رکھیں۔ ضرورت سے زیادہ دخل اندازی کیے بغیر ان کی زندگی میں شامل رہیں، اور یقینی بنائیں کہ ان کے پاس دوستوں کا ایک معاون نیٹ ورک ہے۔ایسے دوست ہیں جو کسی طور پربھی کسی نشے وغیر ہ کی عادت میں ملوث نہیں ۔اپنی تسلی ضرور رکھیں ۔

ایک معاون ماحول بنائیں: Build a Supportive Environment:

ایک معاون گھریلو ماحول کو فروغ دیں جہاں آپ کا بچہ محفوظ اور پیار محسوس کرے۔ ایک مثبت خاندانی ماحول ان کی مجموعی بہبود میں حصہ ڈال سکتا ہے۔بچے کو گھر میں تلخ رویوں کی وجہ سے گھر میں گھُٹن محسوس ہوگی تو کچھ بعید نہیں کہ وہ نشے جیسی لعنت میں سکون تلاش کرنے لگے ۔لہذااپنے گھر کاماحول خوشگوار رکھیں ۔بات بات پر اصلاح رُوک ٹوک آپ کے بچے کو مجرم بناسکتی ہے ۔لہذااس معاملے میں بہت محتاط رہیں ۔


صحت مند سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Healthy Activities:

غیر نصابی سرگرمیوں اور مشاغل میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کریں جو مقصد اور کامیابی کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔ اس سے ان کے وقت کو مثبت انداز میں گزارنے میں مدد مل سکتی ہے۔ایسے بچے ذہنی طور پر مضبوط ہوتے چلے جاتے ہیں اور وہ پھر منفی سرگرمیوں جیسے نشے وغیرہ ہے ان سے دور رہتے ہیں ۔

مقابلہ کرنے کی مہارتیں سکھائیں: Teach Coping Skills:

اپنے بچے کو تناؤ اور مشکل جذبات سے نمٹنے کے لیے صحت مند طریقہ کار تیار کرنے میں مدد کریں۔ اس میں ورزش، مراقبہ، یا پیشہ ورانہ مشاورت کی تلاش جیسی سرگرمیاں شامل ہو سکتی ہیں۔جب آپ بچے کو مشکل سے لڑنا نہیں سیکھائیں گے تو بچہ اپنی فرسٹریشن ،ڈپریشن کو ریلیز کرنے کے لیے نشے کا سہارالے سکتاہے ۔لہذااپنے بچوں کو حالات سے نمٹنے کے گُر ضرور سیکھائیں ۔

پیشہ ورانہ مدد طلب کریں: Seek Professional Help:

اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچے کو منشیات کا سنگین مسئلہ ہے، تو پیشہ ورانہ مدد لینے پر غور کریں۔ ایک مشیر، معالج، یا نشے کا ماہر رہنمائی اور مدد فراہم کر سکتا ہے۔اس معاملے میں سستی ہرگز مت کریں یہ دیربچے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے ۔

نتائج مرتب کریں: Establish Consequences:

 

اپنے بچے یا بچی کی تربیت کے دور انھیں واضح اور دو ٹوک انداز میں اپنے گھر کے اصول سمجھادیں اور خلاف ورزی کی صورت میں انھیں انجام بھی بتادیں ۔مثلانشے ہمارے گھر میں کسی طورپر بھی قابل قبول نہیں ۔جس نے ایسا کیا وہ اپنے انجام کے لیے تیار رہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔اس سے بچہ انجام سے واقف ہوکر اس جانب قدم بڑھانے سے رُکے گا۔مگر یہ سب باتیں حکمت و دانائی کے ساتھ بچے کے ذہن میں نقش کی جائیں جبر و تسلط اصلاح نہیں انسان جو مخالف بناتاہے ۔

خود عکاسی کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Self-Reflection:

اپنے بچے کو ان کے انتخاب اور ان کے اعمال کے اثرات پر غور کرنے کی ترغیب دیں۔تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہوسکے کہ آپ کا بچہ کس نہج پر ہے کس جانب میلان رکھتاہے ۔اپنے بچوں سے منشیات کے حوالے سے رائے لیں ۔ان کے اپنے الفاظ میں ان سے منشیات ونشے کی مذمت کروائیں اور اس پر ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔اس سے بچہ نشے جیسے قبیح کام کو شعور طور پر رد کرے گاجو کہ ایک بہترین کام ہوگا۔

ابتدائی مداخلت: Intervene Early

اگر آپ کو منشیات کے استعمال کے آثار نظر آتے ہیں تو جلد مداخلت کریں۔ جتنی جلدی آپ اس مسئلے کو حل کریں گے، کامیاب مداخلت اور بحالی کے امکانات اتنے ہی بہتر ہوں گے۔اپنے بچے کو شروع ہی سے کنٹرول کرلیں اس سے پہلے کے وہ نشے کا عادی مجرم بن کر کسی مہلک مرض کا شکارہوجائے ۔

قارئین:

آپ کی اولاد اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔انھیں نشے کی لعنت سے بچانے کی بھرپور کوشش کریں ۔نشہ کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(90)

رجمه : اےایمان والو شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ

عصرحاضر میں جب ہر سطح پر امت مسلمہ بدترین زوال کا شکار ہے اور اخلاقی اقدار بری طرح پامال کی جا رہی ہیں اسلامی معاشرہ کی بحالی اور اصلاح کا کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے، اس حوالے سے تربیت اولاد پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا والدین اور بزرگوں کا اولین فریضہ ہونا چاہئے، بچے ہمارے حال اور مستقبل کا اثاثہ اور قومی وملی سرمایہ ہیں، ان بچوں نے ہی جوان ہو کر ملک و قوم کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں سنبھالنی ہے اور تعمیر ملت کا فریضہ سر انجام دینا ہے۔ اس لئے اگر یہ بچے جو ہماری قوم کے معمار ہیں ان کی تربیت صحیح اسلامی خطوط پر ہو گی تو ہمارا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہو گا اور صف اقوام میں ہم عزت اور وقار کی فضا میں سانس لے سکیں گے۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اس حقیقت کی نشاندہی اپنے اس شعر میں کیا خوب کر دی ہے۔

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا