نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟


بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

انسان كی زندگی کا مقصد انتہائی اعلیٰ و ارفع ہے۔دوسری تمام مخلوقات پر انسان کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس کی جبلّت میں خیر و شر کا مادہ شامل کر دیا گیا ہے، تاکہ خیر و شر کو سامنے رکھتے ہوئے حضرتِ انسان اپنے لیے فوائد سمیٹنے کے ساتھ دوسرے انسانوں کے لیے بھی سودمند ثابت ہو سکے۔

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟کلک کیجئے

ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔

انسان کی عائلی و سماجی زندگی کی ابتدا ٕ اپنے گھر سے ہوتی ہے۔معاشرتی زندگی میں گھر کی حیثیت بنیادی اکائی کی ہے۔ گھر کا ہر فرد اس اکائی کو جوڑنے اور مضبوط و توانا بنانے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔نومولود بچے کے لیے گھر کی چاردیواری کو اگر دنیا کا آخری کونہ تصوّر کیا جائے تو گھر کے باقی افراد اس بچے کے لیے سامانِ زندگی ہوں گے ۔ والد اس بچے کے لیے مسیحا، جب کہ والدہ اس کی کل کائنات مانی جائے گی۔

آپ میں اور ہم سب اپنے بچوں کے لیے بہترین رول ماڈل ہیں ۔آئیے ہم اپنے بچوں کو باادب بنانے کے حوالے سے کچھ اہم باتیں جان لیتے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی اولادو کو ادب کے زیور سے آراستہ کرسکتے ہیں ۔

بچے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں؟

کسی دانا نے کیا خوب کہا :

ليس اليتيمُ الذي قد ماتَ والدُه 

إن اليتيمَ يتيمُ العلمِ والأدبِ

یتیم وہ نہیں ہے جس کے والد وفات پاجائیں ، بلکہ علم وادب سے محروم بچہ یتیم ہے۔

قارئین :آئیے ہم اپنے بچوں کو باادب بنانے کے حوالے سے اہم باتیں جان لیتے ہیں ۔


بچوں کو آداب سکھانا ان کی سماجی اور جذباتی نشوونما کا ایک اہم پہلو ہے۔ بچوں میں اچھے اخلاق پیدا کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لیے کچھ نکات  پیش خدمت ہیں ۔

مثالوں کے ذریعے رہنمائی: Lead by Example:

بچے اکثر اپنے ارد گرد بڑوں کے رویے کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ ان آداب کا نمونہ بنائیں جو آپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنائیں، جیسے کہ "براہ کرم" اور "شکریہ" کہنا، دوسروں کا احترام کرنا، اساتذہ  کے لیے ادبا کھڑے ہوجانا،کسی چیز کے حصول پر سامنے والے کوجزاک اللہ کہنا۔بچہ آپ کی ان مثالوں و عملی اقدامات سے سیکھے گاوہ بھی اس رویہ اور مزاج کو اپنانے کی کوشش کرے گا۔

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟کلک کیجئے

(تربیت)جلد شروع کریں: Start Early:

چھوٹی عمر میں ہی آداب سکھانا شروع کر دیں۔ جیسے ہی بچے بولنا شروع کریں، انہیں شائستہ الفاظ جیسے "براہ کرم" اور "شکریہ" استعمال کرنے کی ترغیب دیں۔ مثبت رویے کو مستقل طور پر تقویت دیں۔دائیں ہاتھ سے لینے دینے کی عادت ڈالیں

مثبت  طاقت فراہم کریں: Use Positive Reinforcement:

بچے کے اچھے اخلاق کی تعریف کریں اور انعام دیں۔یہ مزاج  بچوں کے لیے ایک طاقتور محرک ثابت ہو سکتاہے۔ جب وہ اچھے سلوک کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کی کوششوں کو تسلیم کریں اور ان کی تعریف کریں۔

ہمدردی سکھائیں: Teach Empathy:

بچوں کو دوسروں کے جذبات کو سمجھنے میں مدد کریں۔ انہیں اس بات پر غور کرنا سکھائیں کہ ان کے اعمال کسی اور کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔ یہ ہمدردانہ رویے کی بنیاد بنا سکتا ہے، جو اچھے آداب سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔انھیں ہمدردی کرنا سیکھائیں ۔


کردار ادا کر رہا: Role-Playing:

بچوں کو روز مرہ کی روٹین میں اپنا Input ڈالنے کی عادت ڈالیں ۔جیسے محلے میں کچرہ ہے ۔تو بچے صفائی ستھرائی کے کام میں حصہ ملائیں ۔گلی محلے کے بزرگ ہیں تو بچوں کو عیادت کے لیے اپنے ساتھ لے کر جائیں ۔تاکہ وہ عملی طور پر ادب و آداب کی مشق کرسکیں ۔

کہانیاں اور کتابیں استعمال کریں: Use Stories and Books:

کتابیں پڑھیں یا کہانیاں سنائیں جو آداب کی اہمیت پر زور دیں۔ ایسی کہانیوں کا انتخاب کریں جن میں متعلقہ کرداروں کے ساتھ حالات کا سامنا ہو جہاں اچھے اخلاق ایک اہم کردار ادا کریں۔

آہستہ سے درست کریں: Correct Gently:

جب بچے غلطیاں کریں تو انہیں نرمی سے درست کریں۔ ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے مثبت لہجہ استعمال ۔انہیں دوبارہ کوشش کرنے کی ترغیب دیں۔ان کا حوصلہ ٹوٹنے نہ دیں ۔بلکہ حکمت و دانائی کے ساتھ ان کی غلطی کو سدھارکرانکی تربیت کریں

شکرگزاری کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Gratitude:

بچوں کو ملنے والی چیزوں کے لیے شکریہ ادا کرنے کی ترغیب دے کر شکر گزاری کا احساس پیدا کرنے میں مدد کریں۔اپنے ہم عمر بچوں  کے ساتھ ملتے ،کھیلتے بچے کو ترغیب دیں کہ کسی کھولنے یا کھیل کی چیز کے ملنے پر اپنے ہم عمر کا شکریہ اداکریں ۔اس سے بھی بچے کی شخصی تعمیر میں آپ کو مدد ملے گی

صبر کی مشق کریں: Practice Patience

آداب سیکھنا ایک عمل ہے، اور ہو سکتا ہے بچے ہر چیز کو فوری طور پر نہ سمجھ سکیں۔ صبر کریں اور مثبت رویے کو تقویت دیتے رہیں۔فوراَ سے ری ایکٹ نہ کریں اس سے بچے کے حوصلے پست ہوں گے ۔بلکہ برداشت کے ساتھ ان ننھی کلیوں کو سنبھالنے اور سمجھانے کی کوشش کریں ۔اس سے بچے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے وہ بھی صبر کرنے والا بن جائے گا۔یاپھر آپ والدین کی کسی خامی یا غلطی کو خندہ پیشانی کے برداشت کرنے کا اس کے اندر ظرف پیداہوگا۔

انہیں بحث میں شامل کریں: Involve Them in Discussions:

اپنے بچوں کو اپنی روزمرہ زندگی میں جگہ دیں ۔ان سے رائے لیا کریں ۔انھیں اپنے مشوروں میں شامل کریں اس سے ان بچوں کا اعتماد بلند ہوگا۔ان کے اندر کہنے اورکرنے کا جذبہ بدرجہ اتم اُبھرے گا۔وہ جب اپنی رائے دیں گے تو ان میں ہونے والی غلطیوں کا اسی عمر میں اژالہ بھی ہوجائے گا یوں ساتھ ساتھ تربیت ہوتی چلی جائے گی ۔

مستقل مزاجی  چابی کی حیثت رکھتی ہے : Consistency is Key:

اپنے بچوں کی تربیت میں ہمت نہ ہار جایاکریں بلکہ مستقل کوشش کرتے رہیں ۔اپنے کردار کو مثالی بنائیں اور اپنے بچوں کو حکمت و دانائی کے ساتھ زندگی کے گُر سیکھاتے رہیں ۔ایک وقت آئے گا کے شریر سے شریر بچہ بھی باادب اور تربیت یافتہ ہوجائے گا۔


قارئین:

 والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ  مشفق ، مہربان  ،  سنجیدہ  ،   خیر خواہ  ،معتدل مزاج ،  زیرک  دوست بن کر رہیں

 ، اور تربیت  کے پہلووں کو کشادہ دلی سے انجام دیں ، اس طرح معاشرہ کو ایک نیک صالح فرد ملے گا 

،  بیٹے بھی  فرمانبردار  اور اطاعت شعار  بنیں گے  ،  ہر باپ  کو نیک نامی ملے گی جنہیں دیکھ ان کی جبین مسرت کھل اٹھیں گی   اور آنکھیں  ٹھنڈی ہونگی۔

اللہ پاک ہمارے بچوں کی اچھی تربیت کے معاملے میں ہمارے معاون ومددگارپیدا فرمائے،اور انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا