نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  بعد میں ہوا۔اللہ پاک میرے پیارے بہت ہی پیارے ابو جان  کی حتمی مغفرت فرمائے ۔عالم برزخ ان کے لیے راحت و سکون کی سیج بن جائے ۔

ایم فل و پی ایچ ڈی مقالے کی تیاری :

قارئین :یہ سب باتیں جو میں نے کی آپ بور تو نہیں ہوئے ؟یہ بیان کرنے کی بھی وجہ تھی ۔تاکہ میں اپنے تعلیمی پس منظر سے آپ کو مستقبل کے تانے بانے سمجھا سکوں ۔ہم سب ہی کا بچپن کی داستانیں ملتی جلتی ہوتی ہیں ۔مگر بھروقت فیصلہ ہمارے مستقبل کا تعین کرتاہے۔جب میں نے میٹرک کی تو مجھے ابو کو دوستوں نے کہا کہ FSCکے بعد نیوی میں کمیشن آفیسر چلاجائے ۔لیکن میرے ابو بہت متقی انسان تھے ۔اس دنیا کی چکاچوند دنیا انھیں زیادہ متاثر نہ کرسکی ۔میں بھی بچپن ہی سے ابو کی شفقت کی برکت سے مسجد ،نماز ،تلاوت ،عبادت   سے مانوس تھا۔چنانچہ دل میں عالم بننے کی خواہش پیداہوتی تھی ۔علما کو دیکھ کر رشک آتاتھا۔ابو نے تو ہمیں ساری زندگی تہجد کے وقت میں اُٹھایا۔خیر میٹرک کے بعد اپنی خواہش اور ابو کی دعاوں و شفقت کے ساتھ درس نظامی میں داخلہ لے لیا۔یوں میرے علم دین کاسفر شروع ہوگیا۔

قارئین۔کچھ وقت گزرنے کے بعد دل و دماغ پر ایک عجب خدشات جنم لینے لگے ۔درس نظامی پڑھنے کے بعد کریں گے ۔تدریس ،امامت ،خطابت بس ۔اور اگر یہ نہ ملی تو؟لیکن میرا ایک پلس پوائنٹ یہ تھا کہ مجھے پڑھنے کا جنون کی حدتک شوق تھا۔میں پڑھنے پڑھانے سننے سنانے سے تھکتا نہیں تھا۔میں نے درس نظامی کے ساتھ ساتھ انٹر ،گریجویشن بھی کرلی ۔یہاں ایک بات بتاتاچلوں جو فقط اسلیے بتارہاہوں کہ اس سےآپ کو حوصلہ ملے گا۔میں نے علم دین کی تعلیم کے دوران بہت بیماری اور مشکل حالات دیکھے ۔لیکن مجھے بہت مخلص کلاس فیلو ملے جنھوں نے میرے ارادوں کو روح بخشی ۔رب سلامت رکھے انھیں ۔پھر اسی ظہوراحمد نے صحافت میں ماسٹر کیا۔ڈاکٹر بننے کا شوق ہواکہ تو DHMSکرلیا۔کراچی سے اپنا میگزین پبلش کیا۔اپنا انسٹیٹیوٹ بنام میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ قائم کیا۔مختلف  نادار و مزدور طبقے کے لیے ویلفئیر ایسوسی ایشن بھی بنائیں ۔قلم و قرطاس سے تعلق رہا ۔پاکستان اور پاکستان سے باہر جرائد میں  اردو انگریزی میں مضامین لکھے ۔مختلف ویب کے لیے مذہب ،سائنس ،کیرئیر کونسلنگ پر مضامین لکھے ۔موٹیویشنل ٹرینر کے طور پر مختلف سیشن کئے ۔کوچنگ سینٹرز میں پڑھایا۔کلینک رن کیا۔پاکستان اسپورٹس بورڈ میں خطابت بھی کی۔امامت کا دورانیہ بہت کم ہے البتہ خطابت مختلف جگہوں پر جاری رہی ۔کتب کے تراجم کا کام بھی کیا۔

میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

قارئین :یہ سب باتیں اس لیے بتارہاہوں کہ یہ وہی بچہ ہے جس نے درس نظامی میں داخلہ لیا۔جسے یہ بتایاگیا کہ درس نظامی والے تو خلائی مخلوق ہیں ۔ان کا بھلا کیا مستقبل ہے ۔لیکن اسی فاضل درس نظامی نے پاکستان الیکٹرونک ،پرنٹ میڈیا کے لیے کام کیا۔مختلف اداروں کے لیے ریسرچ ورک کیا۔نصاب تیارکیے ۔کونسپٹ ڈیویلپر کے طور آج بھی مختلف اداروں کو سروسز دیتاہوں ۔درس نظامی ایک علم سمندر ہے ۔بس ایک چیز کا شدت سے احساس ہوااگر اساتذہ طلبا کو یہ اعتماد دے سکیں کہ آپ بھی قیمتی ہیں اور آپ جو کررہے ہیں اس کا بہت روشن مستقبل ہے ۔آج دنیا بھر آپ کو مختلف فیلڈز میں فاضل درس نظامی اپنے کارہائے نمایاں سرانجام دیتے ہوئے نظر آئیں گے ۔

پانچ سے محبت پانچ سے غفلت

قارئین:آپ مدارس کے طلبابہت عظیم ہیں جنھیں اللہ پاک نے اپنے دین کی اشاعت کے لیے قبول کیا۔اپنے بخت پر رشک کریں ۔مستقبل کے لیے پریشان نہ ہواکریں اگر آپ کا مستقبل نہیں تو پھر کس کا مستقبل ہے ۔بس آپ کو اپنی قابلیت کو بڑھاناہوگااور وقت کی رفتارسے قدم بہ قدم چلنے کا ہنر سیکھناہوگا۔میں اپنی  NEXTتحریر میں آپ کو بتاوں گا کہ آپ درس نظامی سے فاضل ہونے کے بعد کیاکیا کرسکتے ہیں ۔آپ کمال ہیں اور کمال کو بھلاکیا زوال ہے ۔سلامت رہیں ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا