نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں ؟


بچے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں ؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)

گھر کے آنگن میں کچھ بچے تو کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن انہی میں کچھ بچے  خاموش مجسمہ حیرت بنے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ان کے چہرے پر ایک عجب ساشرمیلا پن ہوتاہے ۔جس کی وجہ سے لاکھ من کرنے کے باوجود یہ شرماتے رہتے ہیں ۔دیکھنے میں تو  بچے کا یہ عمل معمولی ساہے ۔لیکن آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ بچے کا یہ شرمیلاپن اس کے مستقبل پر کس قدر اثرانداز ہوسکتاہے ۔ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھ لیجئے ۔کہ ایک بچہ جو بچپن میں شرمیلاتھا۔وہ پڑھنے میں کمال تھا۔نمبر بھی اچھے لیتاتھا۔لیکن وہ اپنے شرمیلے پَن  کی وجہ سے معاشرے میں گھُل مل نہ سکا۔وہ بہترین معلومات رکھتاتھا لیکن کسی کو بیان کرنے سے شرماتاتھا۔اس کی آوزپُرسوز تھی لیکن اپنے شرمیلے پَن کی وجہ سے زندگی بھر اس نے کسی مجمع ،محفل یا پروگرام میں نعت نہ پڑھی وغیرہ ۔

اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں

پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

یعنی آپ یوں سمجھ لیں کہ شرمیلہ پَن فطرت میں ہوتاہے  فی نفسہ کوئی بُری بات نہیں ۔لیکن اس کے ضمن میں بہت سی چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ ثابت ہورہی ہوتی ہیں انہی باتوں پر کسی کے مستقبل کا انحصار ہوتاہے ۔چنانچہ اسی کیفیت اور حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ آپ پیاروں کو شرمیلے بچوں کے حوالے سے بھی مفید معلومات پیش کرسکیں ۔

قارئین :آئیے غور کرتے ہیں کہ بچوں کے شرمیلے ہونے کی وجوہات و محرکات کیا کیا چیزیں بنتی ہیں ۔


مزاجی عوامل: Temperamental Factors:

کچھ بچے قدرتی طور پر نئے یا غیر مانوس حالات میں زیادہ محفوظ یا محتاط ہوتے ہیں۔ مزاج بچے کے سماجی رویے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

آئی ایس اوآڈٹ اسٹینڈرڈ  کے طریقے

جینیاتی عوامل: Genetic Factors:

شرم میں جینیاتی جزو ہو سکتا ہے۔ اگر والدین یا قریبی رشتہ دار شرمیلے ہیں، تو بچے کے لیے اسی طرح کی خصلتوں کو ظاہر کرنے کا جینیاتی رجحان ہو سکتا ہے۔

سماجی ماحول: Social Environment:

بچے کا ابتدائی سماجی ماحول ان کی سماجی نشوونما پر نمایاں اثر ڈال سکتا ہے۔ خاندانی پس منظر، والدین کے انداز، اور گھر کا مجموعی ماحول جیسے عوامل سماجی حالات  بچے کی شخصیت پر اپنے اثرات مرتب کرسکتے ہیں ۔

چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں

بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے

ماضی کے تجربات: Past Experiences

  اگر کسی بچے کو مسترد، تنقید یا غنڈہ گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے، تو وہ دوسروں کے ساتھ مشغول ہونے میں زیادہ ہچکچاتے ہیں۔ان کے ذہن پر ایک عجب خوف و ڈر ہوتاہے جو انھیں دوسروں سے گھُل مِل جانے سے رُوکتاہے وہ شرمیلے ہوتے ہیں ۔


اپنے زعم میں خوش: Happy in their opinion:

یہ بھی ممکن ہے کہ آپکا بچہ ایک نیچرل پراسس سے گزر رہاہوں وہ سیکھ بھی رہاہو۔مگر ہو اپنے فقط معلومات پر اکتفاکرتاہو۔وہ مہارت رکھنے کے باوجود فقط اپنے پاس جمع شدہ معلومات کے حصول پر ہی خوش ہو۔دوسروں کو بتانا،سمجھانا،دکھاناوغیرہ کرنے میں ہچکچاتاہو۔اس کی تسلی فقط حاصل شدہ علم پر ہی ہو۔یعنی سوشل ہونے میں اُسے دلچسپی نہ ہو۔

حلال آڈیٹر کون؟

ثقافتی اور ماحولیاتی عوامل: Cultural and Environmental Factors:

 ثقافتی اور ماحولیاتی عوامل بھی بچے کے  ذہنی و فکری نشونماپر اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔یہ عوامل بھی بچے کو شرمیلابناسکتے ہیں ۔اس کی مثال ایسے سمجھ لیجئے کہ آپ کی فیملی میں  ریزور رہنے کی عادت ہو۔ایونٹس پر بھی محدود میل میلان ہو۔تویہ طرز ِ زندگی بھی آپ کے ساتھ چلنے والے اس ننھے بچے کو  ریزرو رکھنے کی عادت ڈالے گا۔جس کی وجہ سے یہ آہستہ آہستہ اسی حصار میں بندھتا چلا جائے گا۔

شخصیت کی نشوونما: Personality Development:

شرم و حیا بچے کی مجموعی شخصیت کی نشوونما کا حصہ ہو سکتی ہے۔ جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں اور زیادہ تجربات حاصل کرتے ہیں، وہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ آرام دہ اور کم شرمیلی ہو سکتے ہیں۔

والدین، اساتذہ اور دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ شرمیلے بچوں کو سمجھیں اور ان پر بھرپور توجہ دیں ۔ان کے اندر کے ڈر خوف اور تنہائی کو بدلنے کی کوشش کریں ۔انھیں بھرپور انداز میں سننے کی کوشش کریں ۔ایسے بچوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی appreciate كریں ۔اس سے یہ بچہ شرمیلے پَن کے خول کوتوڑکرباہر نکلے گا۔جی بھر کے جی سکے گا۔مَن کی بات کہہ سکے گا۔دنیا میں بول کر ،دل کھول کر خود کو متعارف کرواسکے گا۔

اگر آپ نے توجہ نہ دی تو یہ بچہ گھُٹ گھُٹ کر قید تنہائی میں اپنی ساری زندگی بسر کردے گا۔اپنے بچوں کی چھوٹی بڑی سب ہی حرکات و سکنات پرتوجہ دیں ۔آپ کی تھوڑی سی عدم توجہی آپ کے بچے کی شخصی تعمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاسکتی ہے ۔۔

یہ آپ کے بچے ہیں ان کی خیال رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے ۔اللہ پاک سب کی اولادوں کو اچھا ،باوقار ،پُراعتماد نیک اور صالح بنائے ۔ہم دنیا کے حالات دیکھنے کے بعدمستقل بچوں کی تعمیر و تعلیم و تربیت ہی پر مضامین لکھ رہے ہیں تاکہ ہم اپنی نسل نو کو آئندہ کے چیلنجز کے لیے تیارکرسکیں ۔ہماری کوشش آپ کی زندگی میں راحت کا باعث بنے تو ہماری مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔

آپ اپنے بچوں کی کونسلنگ ،آن لائن شارٹ کورسسز  کے لیے رابطہ کرسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔رابطہ نمبر:03112268353/وٹس ایپ:03112268353

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا