نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امیر بننے کے طریقے



امیر بننے کے طریقے

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

امیر بننے کا خواب بھلا کون نہیں دیکھتا۔کس کی خواہش نہ ہوگی کہ وہ خوب دولت مند ہودل میں کوئی کاش نہ رہے ۔جس سہولت کو چاہے پاسکے ۔من میں کوئی کاش ،اب ،جب ،تب اور کب نہ رہ جائے ۔لیکن ہم یہاں عرض کرتے چلیں کہ اچھی زندگی گزارنا آپکا حق ہے اس کی خواہش کرنا بھی آپ آپکو حق حاصل ہے ۔لیکن یہ فقط سوچنے یا خواہش کرنے سے ممکن نہیں ہوگابلکہ اس کے لیے دولت کمانے کے طریقے سیکھنے ہوں گے ۔

میں خود دولت مند تو نہیں  لیکن  معاشیات کو اسٹڈی کرنے اور اہل مال و ثروت کی زندگی اور کاروبار کے نظائر کا مشاہد ہ و مطالعہ تو کیا ہے چنانچہ اس  کی روشنی میں کچھ اہم باتیں آپ قارئین کے لیے پیش کررہاہوں جو آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گیں ۔

آئیے وہ ٹپس جانتے ہیں ۔

تعلیم اور کیریئر: Education and Career

 اپنی تعلیم میں سرمایہ کاری کریں اور زیادہ مانگ والی صنعت میں اپنا کیریئر بنائیں۔ ملازمت کے بازار میں متعلقہ رہنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مسلسل اپ گریڈ کریں۔


انٹرپرینیورشپ: Entrepreneurship:

اپنا کاروبار شروع کریں۔ مواقع کی نشاندہی کریں، مسائل حل کریں، اور دوسروں کے لیے قدر پیدا کریں۔ انٹرپرینیورشپ خطرات کے ساتھ آتی ہے لیکن کافی انعامات پیش کر سکتی ہے۔

سرمایہ کاری: Investing

سرمایہ کاری کے مختلف اختیارات کے بارے میں جانیں جیسے اسٹاک، رئیل اسٹیٹ، میوچل فنڈز، یا اپنا سرمایہ کاری کا پورٹ فولیو شروع کرنا۔ سرمایہ کاری وقت کے ساتھ بڑھ سکتی ہے۔

رئیل اسٹیٹ: Real Estate

پراپرٹی خریدنا، بیچنا، یا کرائے پر لینا ایک منافع بخش منصوبہ ہوسکتا ہے۔ ریل اسٹیٹ اکثر وقت کے ساتھ قدر میں اضافہ کرتا ہے، اور کرائے کی جائیدادیں ایک مستحکم آمدنی فراہم کر سکتی ہیں۔

بچت اور بجٹ سازی: Savings and Budgeting:

اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کرنے سے بچیں اور مستقل بچت کریں، اور اپنے مالیات کو مؤثر طریقے سے منظم کرنے کے لیے بجٹ بنائیں۔ یہ آپ کو جلدی امیر نہیں بنا سکتا، لیکن یہ دولت کی تعمیر میں ایک بنیادی قدم ہے۔

سائیڈ ہسٹلز: Side Hustles:

سائڈ بزنسز یا فری لانس کام کے ذریعے اضافی آمدنی کے مواقع تلاش کریں۔ یہ آپ کی اہم آمدنی کو بڑھا سکتا ہے اور آپ کی دولت بنانے کے عمل کو تیز کر سکتا ہے۔

نیٹ ورکنگ اور تعلقات: Networking and Relationships:

 ایک مضبوط پیشہ ورانہ نیٹ ورک بنائیں۔ مواقع اکثر رابطوں، شراکت داری اور تعاون کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔

دریافت اور مسائل حل کریں: Innovate and Solve Problems

 مارکیٹ میں مسائل کی نشاندہی کریں اور حل تیار کریں۔ حقیقی ضرورت کو پورا کرنے والا کاروبار شروع کرنا مالی کامیابی کا باعث بن سکتا ہے۔

مالی خواندگی: Financial Literacy:

 اپنے آپ کو ذاتی مالیات، سرمایہ کاری کی حکمت عملیوں، اور دولت بنانے کی تکنیکوں کے بارے میں تعلیم دیں۔ یہ سمجھنا کہ پیسہ کیسے کام کرتا ہے باخبر فیصلے کرنے کے لیے اہم ہے۔

طویل مدتی وژن: Long-Term Vision:

 دولت کی تعمیر اکثر ایک طویل مدتی کوشش ہوتی ہے۔ حقیقت پسندانہ اہداف طے کریں، نظم و ضبط میں رہیں، اور صبر کریں۔ مستقل مزاجی اور استقامت کلید ہے۔

قرض سے بچیں: Avoid Debt:

مؤثر طریقے سے قرض کو کم سے کم اور منظم کریں۔

مسلسل سیکھنا: Continuous Learning:

متجسس رہیں اور سیکھتے رہیں۔ نئی مہارتیں اور علم حاصل کرنا کیریئر کی ترقی اور کاروباری سرگرمیوں کے مواقع کھول سکتا ہے۔

قارئین:

سادگی، اعتدال بہت ہی اچھا عمل ہے اگر اس پر اکتفا کیا جائے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنے مستقبل کو بہتر کرنے کے لیے تگ و دو کرنا چھوڑ دیں اور بس صرف یہ نہ سوچیں کے جو نصیب میں ہے مل کے ہی رہے گا۔  یہ بات درست ہے کہ جو نصیب میں ہوتا ہے وہ مل ہی جاتا ہے لیکن اُس کے لیے محنت ضروری ہے۔ عام سی کہاوت ہے کہ محنت میں عظمت ہےاور ہم نے اپنے بڑوں سے سنا بھی ہے کہ محنت کرو گے تو ہی کوئی مقام حاصل کر پاؤ گے۔ آج کل کے  دور میں ہر کوئی کہتا ہے کہ میری تو قسمت ہی خراب ہے۔  درحقیقت ایسا نہیں ہے  جو شخص محنت کرتا ہے اُس کو کہیں نہ کہیں سے اُس کی محنت کا صلہ مل جاتا ہے۔ زمانے میں اپنا مقام بنانے کے لیے  اپنے حصے کی محنت کریں آپ کی محنت ضائع نہیں جائے گی ۔اللہ کریم ہمیں حلال ذرائع اپنانے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا