نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تنقید کا کھیل




تنقید کا کھیل

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

میں جب حنیف ایس آر ای میں اسکول پڑھتاتھا تو ہمارے  کلاس فیلو تھے ۔جن کی یہ عادت تھی کہ چھوٹی بات ہویا بڑی بات مگر ان کا ہر جملہ تنقید سے خالی نہ ہوتاتھا۔آپ اس بات سے سمجھ لیجئے کہ سر ظفر اقبال ہمیں کیمسٹری پڑھایاکرتے تھے ۔مابدولت پڑھنے کے دوران سر کی بتائی ہوئی معلومات پر کوئی نہ کوئی تنقید کا پہلو نکال لاتے ۔آپس میں بھی بیٹھک ہوتی تھی تو ایک نارمل بات بھی ہوتی تو اس میں کوئی ایسا تنقیدی پہلو تلاش کرلیتے کہ ہم سب حیران رہ جاتے ۔خیر اس وقت تو ہم  سب ان کی اس حرکت کی وجہ سے بہت بیزار تھے ۔لیکن جیسے جیسے علم کے بند کواڑ کھُلتے گئے ۔درست اور حقیقت کی قندیلوں نے تاریکی کا روشنی سے مات دی تو بہت کچھ سجھائی دینے لگا۔

لوگ نفرت كيوں کرتے ہیں اس موضوع پر مضمون پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں 


قارئین:

کالج ،یونیورسٹی  ،پروفیشنل لائف میں بھی criticismدیکھتا آرہاہوں  اور ابھی تک فیس بھی کررہاہوں ۔لیکن میں نے ایک عقلمندی یہ کرلی کہ جب تنقید گھر ،محلے ،دوست ،پروفیشنلز میں بھی سر چڑھ کر بولنے لگی تو میں نے اس کی سائنسی ،طبی ،معاشرتی وجوہات کوstudyكرنا شروع كيا تو اآپ يقين کریں ۔جن کی باتیں بلڈ پریشر ہائی کردیتی تھیں ۔اب ان کی تنقید کو میں دیگر پیمانوں پر تول کر مثبت نتائج اخذکرتاہوں ۔

حلال فوڈ کے قوانین کے بارے میں جاننے کے لیے پڑھئے زبردست مضمون کلک کریں

گزشتہ سات ،آٹھ سالوں سے جہاں دیگر موضوعات زیر بحث ہیں وہاں مذہب اور مولوی بھی بہت عتاب کا شکار ہیں ۔ان کے متعلق تنقید کی پرسنٹیج بہت بڑھ گئی ہے ۔جس کو میں نے شدت سے محسوس کیا۔لیکن یہاں یہ بھی عرض کرتاچلوں کہ تنقید فی نفسہ بُری نہیں کیوں کہ یہ تنقید ہی ہے جو انسان کو اصلاح اور بہترین کی جانب رہبری کرتی ہے ۔لیکن میں بے جا تنقید کی بات کررہاہوں ۔

ورنہ مذہب کے متعلق تخلیقی و تحقیقی ابحاث ہونی چاہیے اس سے مزید جہات کھُلیں گیں ۔لیکن بے وجہ دور کی کُوڑی لاکر اپنا موقف ثابت کرنے کی کوشش یہ کچھ ہضم نہیں ہوتی ۔

اہل علم کی ابحاث اور دلائل کو میں تنقید نہیں تخلیق کہتاہوں انھیں یہ میدان زیب دیتاہے لیکن وہ افراد جن کا کوئی علمی پس منظر نہیں وہ فرد اور موقف کو تنقید کے تیروں سے چھلنی کردیں تو یہ قابل غور امر ہے جس سے بے باک نسل جنم لے گی جو آئندہ کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے ۔

بات طویل نہ ہوجائے ۔پیارے قارئین:آئیے ذرا ہم تنقید کرنے کے محرکات ،اسباب تو جان لیں ۔میں پھر عرض کرتاچلوں کہ یہ تحریر فقط اللہ پاک کی رضا اور آپ پیاروں تک ایک مثبت بات پہنچانے کی نیت سے ترتیب دی ہے ۔


آئیے اب تنقید کے اسباب و جوہات بھی جان لیتے ہیں :

قارئین:

تنقید خود فطری طور پر منفی نہیں ہے۔ تعمیری تنقید ذاتی اور اجتماعی ترقی کے لیے قابل قدر ہو سکتی ہے۔ تاہم، جب تنقید ایک عادت اور بنیادی طور پر منفی رویہ بن جاتی ہے۔اس کے کئ محرکات ہوسکتے ہیں آئیے وہ محرکات جان لیتے ہیں

عدم تحفظ: Insecurity:

جو لوگ اپنے بارے میں غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں وہ دفاعی طریقہ کار کے طور پر تنقید کا سہارا لے سکتے ہیں۔ دوسروں میں خامیوں کی نشاندہی کرکے، وہ اپنی عدم تحفظ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

 انسانی لباس کی تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے کلک کریں 

احساس کمتری: Low self-esteem:

کم خود اعتمادی والے لوگ تنقید میں مشغول ہوسکتے ہیں تاکہ ان کی اپنی سمجھی جانے والی خود کی قدر میں عارضی اضافہ محسوس کیا جاسکے۔ دوسروں کو نیچے رکھنا اپنے آپ کو بلند کرنے کی کوشش کرنے کا ایک گمراہ طریقہ ہو سکتا ہے۔

غیر متوقع توقعات: expectations:

جب لوگ خود سے یا دوسروں سے غیر حقیقی توقعات رکھتے ہیں، تو وہ اکثر مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ مایوسی تنقید کے طور پر ظاہر ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ سمجھی جانے والی کوتاہیوں پر اپنی مایوسی یا عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں۔

ہمدردی کی کمی: Lack of empathy:

بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمدردی یا شفقت کی کمی کی وجہ سے بھی  آپ ایک متعصبانہ رویہ کا شکار ہوکر تنقیدکرنے لگتے ہیں

ثقافتی یا معاشرتی اثرات: Cultural or societal influences:

ثقافت جس میں انسان کی پرورش ہوتی ہے وہ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کچھ ثقافتوں یا سماجی ماحول میں، تنقید زیادہ عام ہو سکتی ہے، اور افراد اس رویے کو سیکھے ہوئے ردعمل کے طور پر اپنا سکتے ہیں۔جیسا کہ پاکستان کے چائے کہ ہوٹلز پر آپ تبصروں اور زہر میں بجھی ابحاث سے اندازہ لگاسکتے ہیں ۔

پرفیکشنزم: Perfectionism:

پرفیکشنسٹ اکثر اپنے اور دوسروں کے لیے انتہائی اعلیٰ معیار قائم کرتے ہیں۔ جب یہ معیارات پورے نہیں ہوتے ہیں، تو وہ تنقید کے ذریعے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر سکتے ہیں۔

مواصلاتی انداز: Communication style:

کچھ لوگوں کو جب تک تنقید نہ کی جائے نارمل بات بھی نہیں سمجھتے اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے  انکی پرورش، تعلیم، یا ماضی ایسا گزراہے جہاں اتنی تنقید ہوئی ہے کہ دماغ نے اس رویہ کا قبول کرلیاہے ۔

نمٹنے کا طریقہ کار: Coping mechanism:

تنقید افراد کے لیے تناؤ، مایوسی، یا بے اختیاری کے احساسات سے نمٹنے کا ایک طریقہ ہو سکتی ہے۔ تنقید کے ذریعے دوسروں پر قابو پانے سے، وہ بااختیار ہونے کا احساس محسوس کر سکتے ہیں۔کچھ افراد میں یہ مزاج ہوتاہے کہ وہ سب پر برتری کو قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ ان کے پاس تنقید ایک ہتھیار اور ٹول ہوتاہے جس کا وہ بھرپور استعمال کرتے ہیں

شعور کی کمی: Lack of awareness:

شعور اللہ کا انعام ہے ۔بعض مرتبہ ہم کسی چیز کے بارے میں جانتے تو نہیں لیکن یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں ۔اور اس  چیزیا اپ ڈیٹ کے بارے میں اپنی فقاہت قائم رکھنے کے لیے بے جاتنقید کرتے ہیں ۔حالانکہ وہ سراسر لاعلم ہوتی ہے ۔

قارئین:

میری کوشش ہوتی ہے کہ آپ تک مفید اور مستند بات پہنچاوں ۔میں کس حدتک کامیاب ہوایہ توآپ کی رائے ہی بتاسکتی ہے اور آپ کی دعائیں ۔میرے مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔اللہ کریم ہم سب کاحامی و ناصر ہو۔

رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ:03112268353

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا