نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انسانی لباس کی تاریخ (حصہ اول)

textile school


انسانی لباس کی تاریخ (حصہ اول)

A history of human clothing

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

انسان نے کب سے لباس پہننا شروع کیا ؟کیا انسان برہنہ ہی رہتاتھا؟انسان نے لباس کا آغاز کب سے کیا؟یہ وہ سوالات ہیں جو کسی بھی ذہن میں آسکتے ہیں ۔بلکہ ریسرچر و رائٹر کے ذہن میں تو نہ جانے کیسے کیسے سوالات گردش کرتے رہتے ہیں ۔جن کے جوابات کی تلاش میں وہ کھوج کے گھوڑے پر سوال سبقت رفتاری سے آگے بڑھنے لگتاہے ۔میں کپڑے پہنتاہوں ۔مناسب پہنتاہوں اور انسانی اقدار کے مطابق پہنتاہوں ۔مجھے انسانی لباس  کی تاریخ کے بارے میں کھوج لگانے کی ضرور نہیں تھی لیکن اس کے پیچھے ایک reason تها.

پیارے بلکہ بہت پیارے قارئین:

بات کچھ اس طرح ہے کہ انسان  کا لباس اس کی شخصیت کی عکاسی کرتاہے ۔یعنی ہمار اfirst impression اور ہماری ذات کا خاموش تعارف ہمارا لباس بھی ہوتاہے ۔لیکن ہم نت نئے فیشن کو سینے سے لگائے بیٹھے انسان اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جو پہنا وہ میرے جسمانی خدوخال ،تہذیب اور معاشرتی اقدار سے بھی میل میلان رکھتاہے یا نہیں ۔

میں اصل میں حلال و حرام کے اعتبار سے اسٹڈی کررہاتھا تو  فوڈ انڈسٹری ،فارما ،سلاٹر ہاوس وغیر ہ میرے موضوعات تھے ۔لیکن مجھ سے کسی نے سوال کیا ہے کیا ڈاکٹر صاحب یہ حلال و حرام کی بحث لباس کے بننے کے حوالے سے بھی ہوتی ہے ؟

تو اس پر اللہ کی عطاسے میں اسٹڈی بھی کرچکاتھا اور آپ پیاروں کے لیے معلومات  ذخیرہ ترتیب بھی دے چکا تھا تو میں نے ان کو جواب تو دے دیا ۔

لیکن یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ لباس کے حوالے سے بھی اپنے قارئین کو ضرور  کچھ نہ کچھ مفید معلومات پیش کروں ۔

میں گلوبل ورڈ میں جی رہاہوں جہاں knowledgeاور fake knowledgeکی بھرمار ہے ۔درست کا تعین آپ کے علم کا امتحان ہے ۔آپ کا بالغ نظر اور وسیع مطالعہ کا ہونااور علم کے پیمانوں کو جانچنے کی expertise ہوں تو آپ درست بات سمجھ سکیں گے اور کسی تک درست بات  پہنچاسکیں گے ۔

میں جب انسانی لباس کی تاریخ کو پڑھنے لگاتو جہاں مجھےتاریخی  شواہد کی بھانت بھانت کی بولیاں ملیں ۔جومیں آئندہ پہرہ میں اقتباس کے طور پر پیش کرنے لگاہوں ۔پہلے آپ یہ پڑھیں پھر ہم اپنی بات کریں گے ۔

قارئین :انسانی لباس کی تاریخ کے متعلق آراپڑھ لیجئے ۔پهر nextبات ہوگی ۔مگر یہ بات ذہن نشین کرلیجئے گا۔یہ اقتباس موقف نہیں یہ ریسر چ ورک کا ایک حصہ آپ کے لیے پیش کررہاہوں ۔اس دور میں یہ بھی تو مسئلہ ہے جو لکھوڈر لگارہتاہے ۔ڈاکٹر صاحب آپ کے مضمون میں یہ پڑھا ۔یہ کیا بات ہوئی ۔تو میں اس سوچ کا ابتدا ہی میں اژالہ کردوں ۔

مختلف ویب سائٹس اورپی ڈی یف بکس سے کچھ چیزیں سامنے آئیں آپ پڑھ لیجئے ۔

()’’لباس ہزاروں سالوں سے انسانی زندگی کا حصہ رہا ہے، جو عملی اور ثقافتی دونوں مقاصد کو پورا کرتا ہے۔ لباس کا قدیم ترین ثبوت تقریباً 170,000 سال پہلے کا ہے، مراکش میں جانوروں کی کھالوں کے ٹکڑے ملے ہیں۔

قارئین:ابتدائی انسانوں نے ممکنہ طور پر سردی، گرمی، دھوپ اور بارش جیسے عناصر سے تحفظ کے لیے لباس کا استعمال کیا تھا۔ جیسا کہ انسان دنیا کے مختلف حصوں میں منتقل ہوئے، انہوں نے لباس کے انداز تیار کیے جو مقامی آب و ہوا کے مطابق تھے۔ مثال کے طور پر، سرد موسم میں لوگ جانوروں کی کھالوں سے بنے موٹے کپڑے پہنتے تھے، جب کہ گرم آب و ہوا والے لوگ پودوں کے ریشوں سے بنے ہوئے ہلکے کپڑے پہنتے تھے۔

قدیم تہذیبیں۔

قدیم تہذیبوں میں لباس بھی سماجی حیثیت کی علامت بن گیا۔ میسوپوٹیمیا میں، مثال کے طور پر، امیر لوگ باریک کتان کے کپڑے پہنتے تھے، جبکہ غریب اون یا چمڑے سے بنے کپڑے پہنتے تھے۔ مصر میں، لباس کو اکثر وسیع ڈیزائنوں سے سجایا جاتا تھا، اور لباس کا رنگ کسی شخص کے درجے کی نشاندہی کر سکتا تھا۔

نصفصدی

قرون وسطی کے دوران، لباس زیادہ پیچیدہ اور وسیع ہو گیا. خواتین تنگ کمروں اور بہتے ہوئے اسکرٹ کے ساتھ لمبے کپڑے پہنتی تھیں، جبکہ مرد انگور، نلی اور چادر پہنتے تھے۔ کپڑے اکثر امیر کپڑوں جیسے ریشم، مخمل اور بروکیڈ سے بنائے جاتے تھے۔

فیشن :

نشاۃ ثانیہ فیشن میں زبردست تبدیلی کا زمانہ تھا۔ لباس زیادہ فٹ اور ظاہر ہو گیا، اور خواتین نے کمر کی پتلی لکیر حاصل کرنے کے لیے کارسیٹ پہننا شروع کر دیں۔ مردوں کے لباس بھی زیادہ فیشن بن گئے، اور وہ ڈبلٹ اور نلی پہننے لگے۔

18ویں صدی

18 ویں صدی میں، لباس اور بھی وسیع اور روکوکو بن گیا۔ خواتین چوڑے پنیر اور بڑے ہیئر اسٹائل پہنتی تھیں، جبکہ مرد وسیع کوٹ اور واسکٹ پہنتے تھے۔

19ویں صدی

19ویں صدی میں سادہ اور زیادہ عملی لباس کی واپسی دیکھنے میں آئی۔ خواتین چھوٹے کپڑے پہننے لگیں، اور مردوں کے لباس زیادہ موزوں ہو گئے۔ سلائی مشین کی ایجاد نے زیادہ سستے اور تیزی سے لباس تیار کرنا ممکن بنایا، جس کی وجہ سے لباس کے انداز کی وسیع اقسام سامنے آئیں۔

20ویں صدی

20ویں صدی فیشن میں بڑی تبدیلی اور جدت کا زمانہ تھا۔ نئے کپڑے، جیسے نایلان اور پالئیےسٹر، تیار کیے گئے، اور جینز اور ٹی شرٹس جیسے نئے انداز مقبول ہوئے۔ فیشن بھی زیادہ عالمی بن گیا، دنیا بھر کے ڈیزائنرز رجحانات کو متاثر کرنے کے ساتھ۔

اکیسویں صدی

21ویں صدی میں فیشن کا ارتقاء جاری ہے۔ پائیدار فیشن کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ہے، جس میں ڈیزائنرز ری سائیکل مواد اور ماحول دوست پیداوار کے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ فیشن بھی متنوع ہوتا جا رہا ہے، جس میں جسمانی اقسام اور طرزوں کی وسیع رینج کی نمائندگی کی جا رہی ہے۔

()’’ آثارِ قدیمہ کو دیکھا جائے تو تین ہزار سالہ قدیم اونی پتلونیں موجود ہیں، جن کا ٹانگوں والا حصہ آراستہ ہے (جو وسط ایشیا کے خانہ بدوش گھڑ سوار پہنتے تھے)۔ ٹیڑھے میڑھے ٹانکوں والے قدیم ترین چیتھڑے موجود ہیں وہ تقریباً 34 ہزار سال پرانے ہیں۔

()ایسے بہت سے نوادرات دریافت ہوئے ہیں جیسا کہ جانوروں کی کھال سی کر قابل استعمال لباس بنانے والی سوئیاں اور سُوئے جو تقریباً 50 ہزار سال پرانے ہیں  جو سائبیریا کے غار ڈینی سووا سے ملے .

()یہ انجیر کے پتوں کا بطور لباس استعمال تھا جس کی وجہ سے ہمیں اس وقت برہنگی محسوس ہوئی جب ہمارا جسم انجیر کے پتوں سے محروم ہوا۔

() (Climate, Clothing and Agriculture in Prehistory) نامی کتاب کے مصنف این گلیگن اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔ ہم اناج بھی اگا رہے تھے لیکن ہماری زیادہ توجہ ایسی اجناس اگانے پر تھی جس سے کپڑے بنائے جا سکیں اور بھیڑ بکریاں ریوڑ پالنے پر تاکہ ان کی اون کاٹی جا سکے۔

()گلیگن کہتے ہیں :پہننے کے لیے چمڑے اور پشم سے کم گرم، نفیس کپڑوں کے جوڑوں کی ضرورت نے ہماری آوارہ گردی پر بند باندھا اور ہمیں ایک جگہ ٹھہرنے، مہذب بننے اور دھاگے سے کپڑا بننے پر مجبور کر دیا۔

قارئین:ہم نے جب سوشل میڈیاو دیگر کتب چھانی تو ہمیں مختلف طرح کی آرا پڑھنے کو ملیں ۔بعض تو ایسی باتیں بھی تھی ۔کہ جو قابل ذکر ہی نہیں ۔لیکن میں نے ایک اجمالی خاکہ سا پیش کرنے کی کوشش کی ۔تاکہ لباس کے متعلق آپ کو یہ معلوم ہوسکے کہ دنیا میں کس قسم کی theory موجود ہیں ۔

ریسرچ کے دوران آپ کو ہر aspect كوسامنے رکھنا ہوتاہے ۔چنانچہ میں نے ایک جنرل overview آپ كى سامنے رکھا۔ابھی میں نے لباس کے حوالےتاریخ اور اثار قدیمہ کے کئی اقتباسات پیش نہیں کئے ۔اس کی وجہ یہ تھی کہ میرامقصود آپ کو لباس  کی افادیت و اہمیت کے حوالے سے توجہ دلانی تھی کہ آگے چل کر ہم دھاگہ ،کپڑا،تانے بانے ،کیمکل ،فیبرکس پروڈکشن اور دیگر حلال و حرام کے ضمن میں اہم مضامین و معلومات پیش کرنی ہے تو یہاں ۔فقط آپ کے سامنے لباس کی ایک چھوٹی سی تصویر کشی کی ہے ۔

کپڑا،لباس وغیر ہ کے حوالے سے ہمارے مضامین کی یہ دلچسپ سیریرز ضرور پڑھتے رہیے گا۔آپ بہت سی بہترین اور اہم معلومات حاصل کرپائیں گے ۔

یہاں ایک اور بات عرض کرتاچلوں کہ اس موضوع پر اتنی سنجیدگی سے کام نہیں کیاگیا جس حد تک اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

قارئین:مضمون میں میں نے کہیں بھی مذہبی aspectپيش نہیں کیا۔اس  کی وجہ یہ ہے کہ اس پر تفصیل کے ساتھ بتدریج مضامین آپ کو ملتے رہیں گے ۔۔۔

اپنی رائے ضرور دیتے رہاکریں ۔گھنٹوں سوشل میڈیا پر صرف کرنے والے ناظرین و سامین سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اگر مثبت اور بے لوث کام کرنے والوں کا ساتھ دے دیں تو بہت بڑاانقلاب برپاہوجائے ۔ہم آپ سے اچھے کی امید ہے ۔

تن بھی اجلا رکھیں اور من بھی اُجلا رکھیں ۔ایک  کپڑے ،لباس ،انڈسٹری ،حلال و حرام  کی توجہ طلب معلومات کے ساتھ پھر حاضر ہوں گے ۔تب تک کے لیے اللہ حافظ

نوٹ:رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ:03112268353 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا