نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلال فوڈ اور قانونی ضابطے



حلال فوڈ اور قانونی ضابطے

تحرير:ڈاکٹر ظہوراحمددانش

عالمی حلال فوڈ انڈسٹری اسلامی اصولوں کی تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے مختلف قوانین، معیارات اور ضوابط کے تابع ہے۔ مگر آپ یہ بات ذہن نشین کرلیجئے گا کہ  یہ قوانین ملک کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں، کیونکہ مختلف خطوں کے اپنے ریگولیٹری فریم ورک ہو سکتے ہیں۔ تاہم، عالمی حلال فوڈ انڈسٹری میں کچھ عمومی اصولوں اور معیارات کو بڑے پیمانے کو تسلیم کیا جاتاہے ۔ان پر عملدرآمد بھی کیا جاتاہے ۔

قارئین:آج کے مضمون میں وہ ضابطے ہم آپ سے share كریں گے ۔

اسلامی غذائی قوانین (شریعت): (Islamic Dietary Laws (Sharia))

حلال خوراک کے ضوابط کی بنیاد اسلامی غذائی قوانین لی گئی ہے یعنی جو قرآن و حدیث (پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال) میں بیان کیے گئے ہیں۔ یہ قوانین حکم دیتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے کیا حلال (جائز) ہے اور کیا حرام (حرام) ہے۔اس کی اصل sourceاسلام ہے ۔

حلال سرٹیفیکیشن: Halal Certification

 بہت سے ممالک اور خطوں نے کھانے کی مصنوعات کی حلال حیثیت کی نگرانی اور تصدیق کے لیے حلال سرٹیفیکیشن ادارے قائم کیے ہیں۔ یہ تنظیمیں اکثر مذہبی اسکالرز کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتی ہیں کہ مصنوعات اسلامی غذائی قوانین کے مطابق ہوں۔اس میں کوئی کمی ہوتواس کو پوراکیا جاسکے ۔



چیزوں اجزاء اور پروسیسنگ کے معیارات: Ingredients and Processing Standards

قارئین:جب سے صنعتی انقلاب آیاہے ۔مصنوعی خورو نوش کی چیزوں میں اضافہ ہواہے ۔چنانچہ اب یہ بات بھی قابل غورہوئی کہ جن اجزا سے کوئی چیز مل کر بن رہی ہے ۔ان کی حلت و حرمت پر بھی غورکیاجائے ۔چنانچہ اس حوالے سے حلال فوڈ اسٹینڈرڈز اجزاء کی سورسنگ اور پروسیسنگ پر توجہ دیتے ہیں۔ اس میں حلال گوشت کے استعمال، حرام (حرام) اجزاء جیسے سور کا گوشت اور الکحل سے اجتناباور پروسیسنگ کے دوران آلودگی سے بچاؤ کے ضابطے شامل ہیں۔

جانوروں کا ذبیحہ: Animal Slaughter:

حلال گوشت کے لیے جانوروں کا ذبح اسلامی اصولوں کے مطابق کرنا چاہیے۔ اس میں تیزی سے گلا کاٹنے کے لیے تیز دھار چاقو کا استعمال اور اللہ کے نام کی دعا (تسمیہ) کی تلاوت شامل ہے۔قارئین:اس ضمن میں مزید ابحاث ہیں جن سے میں صرف نظر کررہاہوں ۔جیسے مشینی ذبیحہ وغیرہ

ٹریس ایبلٹی اور لیبلنگ: Traceability and Labeling

حلال فوڈ ریگولیشنز کو اکثر سپلائی چین میں ٹریسی ایبلٹی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ خام مال کے ماخذ سے لے کر حتمی مصنوعات تک حلال معیارات کو برقرار رکھا جائے۔ صارفین کو مصنوعات کی حلال حیثیت سے آگاہ کرنے کے لیے مناسب لیبلنگ بہت ضروری ہے۔

ذخیرہ اور نقل و حمل: Storage and Transportation:

قارئین:مصنوعات حلال بھی ہوتی ہیں اور حرام بھی ۔چنانچہ قانونی ضابطے میں اس بات کا بھی لحاظ رکھاجائے گا کہ آلودگی کو روکنے کے لیے حلال مصنوعات کو غیر حلال مصنوعات سے الگ ذخیرہ اور منتقل کیا جائے۔

 

حلال آگاہی اور تعلیم: Halal Awareness and Education:

کوئی بھی قانون اس وقت تک نافذ نہیں ہوسکتاجب تک اس کا شعور نہ دیا جائے ۔چنانچہ حلال فوڈ مکمل ایک علم ہے اس کی قانونی باریکیوں اور اس  کی حساسیت کو بیان کرنے اور سمجھانے کے لیے حکومتیں اور تنظیمیں اکثر بیداری اور تعلیم کے پروگراموں میں مشغول رہتی ہیں تاکہ حلال معیارات اور طریقوں کے بارے میں پروڈیوسرز اور صارفین دونوں کو آگاہ کیا جا سکے۔

بین الاقوامی معیارات: International Standards:

بین الاقوامی حلال ایکریڈیٹیشن فورم (IHAF) اور عالمی حلال کونسل (WHC) جیسی تنظیمیں حلال سرٹیفیکیشن کی باہمی شناخت کو فروغ دیتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر حلال معیارات کو ہم آہنگ کرنے کے لیے کام کرتی ہیں۔

قارئین :ہماری کوشش ہوتی ہے کہ حلال فوڈ اینڈ سیفٹی کے حوالے سے آپکو آگاہ کرتے رہیں ۔میں چونکہ اس اس فیلڈ میں کام کررہاہوں ۔مستقبل میں فیلڈ میں آپ کے لیے بھی مواقع پیداہوسکتے ہیں ۔آپ اس حوالے سے اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہیں ۔

پیارے و محترم قارئین:

میں حلال فوڈ انڈسٹری کو اپنے روزگار کے طور پر نہیں بلکہ فی سبیل للہ خدمت کی نیت سے اپنائے ہوئے ہوں اس سے میراروزگار وابستہ نہیں ۔اس بات کی وضاحت ضروری تھی ۔ہماری کوشش آپ کو کیسی لگی ۔اپنی رائے ضرور دے دیا کریں ۔اس سے مجھے مزید کام کرنے کا جذبہ اور شوق ملتاہے ۔اپنی دعا میں یاد رکھئے گا۔میری مغفرت کی دعابھی کردیجئے گا۔

آپ کیرئیر کونسلنگ ،طبی مشوروں اور آن لائن شارٹ کورسسز کے حوالے سے ہماری خدمات حاصل کرسکتے ہیں ۔رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ:03112268353

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا