نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نفرت کیوں کرتے ہیں



نفرت کیوں کرتے ہیں ؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

جب سے ہوش سنبھالا ہے دولفظوں کا تکرار بہت سننے کو ملااور دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ایک میں انتہا کی مٹھا س اور ایک لفظ کہ سنتے ہی کی دھڑکنیں بے ربط ہوجاتی ہیں ۔چہرے پر بل پڑجاتے ہیں ۔ایک ہیجانی سی کیفیت پیداہوجاتی ہے حالانکہ تعداد حروف کے اعتبار سے دیکھیں تو دونوں ہی لفظ چار چار حروف کا مرکب ہیں لیکن اپنی تاثیر اور وضع کے اعتبار سے جداجدا ہیں ۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ڈاکٹر صاحب کیا پہلیاں پوچھ رہے ہیں ۔



محترم قارئین !میری مراد لفظ ن۔ف۔ر۔ت جس کا مجموعہ نفرت اور م۔ح۔ب۔ت جس کا مجموعہ محبت ہے مراد ہیں ۔محبت و نفرت بھی انسان کی شخصیت کے اہم پہلو ہیں۔ ہم بہت سی چیزوں کو پسند یا ناپسند کرتے ہیں۔ یہی جذبے کچھ شدت اختیار کرکے محبت اور نفرت اور پھر اس سے بھی بڑھ کر عشق اور شدید نفرت کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ اگر تو یہ جذبے اپنی فطری حدود و قیود میں رہیں پھر تو ٹھیک ہے لیکن اگر یہ ان حدود کو عبور کرجائیں تو پھر انسان کی شخصیت کو بری طرح مسخ کردیتا ہے۔ آپ نے یقینا ایسے کئی لوگ دیکھے ہوں گے جو عشق یا نفرت کی شدت کا شکار ہو کر اپنی پوری زندگی تباہ کربیٹھے یا پھر اس سے ہاتھ ہی دھو بیٹھے۔
بے جا تنقید کرنے والے 

انسان فطری طور پر محبت پسند ہے اور دنیا میں محبت کا پیغام پھیلانے آیا ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کے بہت سے علاقوں میں ہر طرف نفرت کی وہ آگ بھڑک رہی ہے جس نے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔۔۔ آخر کیوں؟ محبت کرنے والا انسان نفرت کا شکار کیوں؟۔

کہتے ہیں کہ انسان فطری طور پر انسان دوست، امن پسند، محبت کرنے اور محبت چاہنے والا ہے جبکہ یہی انسان جذبہ نفرت اپنے ارد گرد کے ماحول سے کشید کرتا ہے ۔ کسی بھی انسان کی فطرت نفرت کی طرف مائل نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ منفی رجحان یا جذبہ ، جذبہ محبت کی طرح ایک فطری جذبہ ہے بلکہ یہ جذبہ یا منفی رجحان دیگر ناگوار و ناپسندیدہ رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہونے والا منفی رجحان ہے۔کسی بھی انسان کے دل میں نفرت کا محرک بہت سی معاشرتی ناہمواریاں ہیں جو کسی نہ کسی غم و غصہ، ظلم و ناانصافی ذلت و تحقیر، غیر مساویانہ رویوں، یا پھر محرومیوں کے رد عمل کے نتیجے کے طور پر دلوں میں پنپتی ہے۔

محترم قارئین!میں نے محسوس کیا کہ اس موضوع پر لکھنا ناگزیر ہوچکا ہے جس جانب دیکھو نفرت کے لاوے پھوٹ رہے ہیں جس میں عزیز ترین رشتے جل کا راکھ ہوتے چلے جارہے ہیں ۔یہ وائرس بہت تیزی کے ساتھ پھیلتاچلاجارہاہے ۔جس کی وجہ سے پورا ہی معاشرہ اپاہج ہوکر رہ گیا ہے میں صرف ہند و پاک کے معاشرے کی بات نہیں کررہابلکہ جہاں جہاں انسان بس رہاہے جمع انسانوں کی بات کررہاہوں ۔نفرت ہے کیا؟یہ پیداکیوں ہوتی ہے کیا محرکات ہیں ؟آئیے ا س پرذرا غور کرتے ہیں ۔

جب کوئی محبت کامتلاشی محبت سے محروم رہ جائے یاپھر دیگر معاشرتی ناانصافیوں کا شکار ہو جائے تو اس کے دل میں رفتہ رفتہ محبت کی آرزو کی جگہ نفرت جڑ پکڑنے لگتی ہے۔ جو آہستہ آہستہ نفرت و عداوت کے ایسی بھیانک آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو کہ خود نفرت کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ اس نفرت کا باعث بننے والوں کے علاوہ بہت سی معصوم جانوں کو بھی اپنی خوفناک لپیٹ میں لے کر بھسم کر دیتی ہے۔نفرت و عداوت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اذیت و نقصان سے ہر ذی شعور آگاہی رکھتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ انسان اس آگ سے انسانیت کو بچا نہیں پاتا بلکہ نفرت کی یہ آگ دنیا میں پھیلتی ہی چلی جا رہی ہے کیوں اس بھڑکتی دہکتی اور سلگتی آگ پر قابو نہیں پایا جا رہا، کیوں ابھی تک اس آگ کو بجھایا نہیں جا سکا؟

آج کی اس جدید دنیا میں بھلا کیا ناممکن رہ گیا ہے کچھ بھی ناممکن نہیں اور انسان کو قدرت کی طرف سے وہ قوت عطا کی گئی ہے کہ وہ چاہے تو اس کائنات کو رضائے الٰہی سے تسخیر بھی کر سکتا ہے۔دنیا میں کوئی مشکل ایسی نہیں جس کو آسان کرنے کی تدبیر انسان کے پاس نہ ہو، کوئی مسئلہ ایسا نہیں جس کو حل کرنا انسان کے بس میں نہ ہو صرف یقین کی دولت، سچی لگن، قوت ارادی، محنت اور تدبیر سے کام لیا جائے۔ تو سب کچھ آسان ہے سب کچھ ممکن ہے۔

محترم قارئین !ہم یہی تکرار کرتے چلے جارہے ہیں نفرت عام ہوگئی ہے ۔نفرت عام ہوگئی ہے کبھی اس حوالے سے بھی غور کیا کہ جتنی طاقت ہم اس نفرت زدہ معاشرہ کی تبصروں پر صرف کی ہے اگر اس کی نصف اینرجی اس کے تدارک کے حوالے سے صرف کرتے تو کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑتا۔

انسان کو اپنے فطری جذبہ محبت کو جذبہ نفرت پر حاوی کرنے کے لئے اپنے اندر سے ہر قسم کے منفی رویوں کو ختم کرنا ہوگا اور مثبت رجحانات پر اپنی طبیعت کو مائل کرنا ہو گا کوئی وجہ نہیں کہ وہ اپنی محبت کی طاقت سے نفرت کی آگ پر غالب نہ آسکے اس آگ پر قابو نہ پا سکے۔

نفرت کی آگ پر حاوی آنے کے لئے پہلے ہر انسان کو خود اپنے ماحول سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا ہوگا اور اپنی زندگیوں کو مثبت رجحانات کے تابع کرنا ہو گا، بہت سے معاملات میں اپنی نام نہاد انا کے بت کو توڑتے ہوئے صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، درگزر کی عادت کو اپنانا ہوگا دوسروں کی دانستہ اور نادانستہ طور پر سرزد ہوجانے والی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کردینے کا ظرف پیدا کرنا ہوگا، اگر آپ یہ سب کرسکتے ہیں اور یقیناً کسی بھی انسان کے لئے یہ سب کر گزرنا مشکل یا ناممکن نہیں ہے اگر ہم چاہیں تو دوسروں کے ناپسندیدہ یا منفی رویوں کے ردعمل کے طور پر پیدا ہونے والے غم و غصہ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے اپنے دل کو نفرت کی آگ سے محفوظ رکھ سکتے ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں نفرت کی یہ آگ نہ ہمیں کوئی فائدہ دے سکتی اور نہ ہی اس سے انسانیت کی خدمت اور بھلائی کا کام لیا جا سکتا ہے اپنے غصے پر قابو پانا سیکھ لیں تاکہ نفرت کی آگ کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے انسان کی یہ کوشش بالآخر ایک نہ ایک دن دنیا سے نفرت کی آگ کا خاتمہ کر سکتی ہے اور دنیا کو امن و محبت کا گہوارہ بنا سکتی ہے ۔

ہاں یہ حقیقت ہے ۔تو پھر آج ہی سے آغاز کیجیے !کسی کی کہی ہوئی باتوں کو ،کسی کے دئیے ہوئے زخموں کو ،کسی کی دل شکنی کو بھول کراس کی اچھائیوں کو یاد کرکے اس سے محبت کے رشتے کو بڑھانے کی کوشش کریں ۔آپ سمجھتے ہیں کہ اس کی جانب سے زیادتیاں ہی زیادتیاں ہیں تو پھر آپ اس کے ساتھ زیادتی کا بدلہ زیادتی روارکھ کر کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دے رہے بلکہ اس نفرت کی آگ کو ہوا دینے میں آپ بھی برابرکے شریک ہیں ۔ایک باریک سا نکتہ عرض کرتاہوں ۔آپ کے رشتے دار آپ سے نفرت کرتیں ہیں ۔؟آپ کے دوست آپ نفرت کرتے ہیں ؟یا پھر اس کا عکس آپ ان سب سے نفرت کرتے ہیں ۔بصورت اول اگر تو وہ آپ سے نفرت کرتے ہیں تو پھر آپ ٹھنڈے دماغ کے ساتھ وسیع قلب کے ساتھ غور فرمالیں کہ وہ کونسے عوامل ہیں کہ جن کی بنا پر وہ مجھ سے نالاں ہیں ان کو حل کرنے کی کوشش کریں اور اگر معاملہ اس کے برعکس یعنی آپ ان سے نفرت کرتے ہیں تو پھر یہ سوچ لیں کہ آپ کوئی اچھا کام نہیں کررہے کوئی بھی مہذب معاشرہ اس رویہ کی تائید نہیں کرتا ۔لہذا پہل خود کیجیے ۔آپ دیکھتے چلے جائیں گئے کہ ایک وقت ایسا ہوگا کہ لوگوں کے دلوں پر آپ کے عزت و تکریم محبت و الفت کے تمغے سجے ہوں گے ۔نفرت کی کالیاں بدلیاں چھٹ چکی ہوں گیں ۔آج جیسے کڑہتے رہتے ہیں یہ کڑہن ذہنی تناؤ ،قلبی بے چین سب امن و سکوں ،محبت و راحت میں بدل جائیں گیں ۔بس ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے ہاتھ سے نفرت کی آگ کو بجھانے کی کوشش کیجیے ۔ان شاء اﷲ عزوجل !آپ دنیا اور آخرت میں اس کا خوب خوب ثمر پائیں گے۔میں بھی عہد کرتاہوں کہ میں بھی نفرت کو محبت میں بدلنے کے لیے مقدور بھر کوشش کروں گا۔
یا زندہ صحبت باقی

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا