نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بلڈپریشر اور علاج



تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

بلڈپریشر  اور علاج

بلڈ پریشر سے مراد وہ طاقت ہے جو خون کی شریانوں کی دیواروں پر ڈالتا ہے کیونکہ یہ دل کے ذریعے جسم کے ذریعے پمپ کیا جاتا ہے۔ اسے عام طور پر دو نمبروں کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے، systolic اور diastolic، جو بالترتیب سب سے زیادہ اور سب سے کم دباؤ کی سطح کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عام بلڈ پریشر کو عام طور پر 120 mmHg سے نیچے سسٹولک پریشر اور 80 mmHg سے کم ڈائیسٹولک پریشر کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر، یا ہائی بلڈ پریشر، ایک ایسی حالت ہے جہاں بلڈ پریشر مسلسل نارمل سطح سے اوپر رہتا ہے اور یہ صحت کے سنگین مسائل جیسے دل کی بیماری اور فالج کا خطرہ بڑھا سکتا ہے۔ کم بلڈ پریشر، یا ہائپوٹینشن بھی بعض صورتوں میں تشویش کا باعث ہو سکتا ہے اور یہ علامات جیسے چکر آنا یا بے ہوشی کا سبب بن سکتا ہے۔


کلک کریں:

ٹماٹر کا جوس               

ٹماٹر کا رس ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے

دہی
یہ کھانے میں ایک بہترین چیز ہے جو ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے
گاجر
گاجر کا استعمال ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس سے دل کی دھڑکن منظم رہتی ہے اور گردے ٹھیک طریقے سے کام کرتے ہیں
لہسن
 لہسن ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ دل کو مضبوط کرتا ہے اور خون کے بہاؤ میں اضافہ کرتا ہے

پالک

پالک آئرن سے بھرپور ہونے کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتی ہے

یلا

 یہ جسم کو پوٹاشیم فراہم کرتا ہے، جو جسم میں خون کی گردش کو منظم کرنے اور بلڈ پریشر کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرتا ہے۔

 پھلیاں

 ہائی بلڈ پریشر کو کم کرنے کے لیے اس کا استعمال ضروری ہے کیونکہ اس میں فائبر، میگنیشیم اور پوٹاشیم کی بڑی مقدار شامل ہوتی ہے

قارئین کے لیے کچھ بنیادی باتیں حاضر خدمت ہیں ۔آپ ضرور توجہ دیجئے گا۔لیکن پہلے اپنے معالج سے ضرور مشورہ کرلیجئے گا۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا