نوجوانوں کے لیے امید بھرا پیغام
تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش
(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)
میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہوں ۔جہاں و جب جاتاہوں تو
ایک سوال ضرورت ہوتاہے ۔ہمارا مستقبل کیاہے ۔یعنی آج کا نوجوان اپنے مستقبل کی
فکروں میں گھُلتاچلاجارہاہے ۔اسٹریس تو گویااس کی ذات کا حصہ بن گئی ہے ۔اب ایسے
میں میں بہت دل جلاتاتھا کہ آخر ایسا کیا کیا جائے کہ یہ قوم کہ معمار ٹینشن فری ہوں ۔خیر اپنے حصے
کی جو ممکن کوشش تھی کرتارہا۔کافی دنوں سے سوچ رہاتھا کہ اس موضوع پر کوئی مختصر کی
بات ضرور کروں ۔شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات کے حصول کے لیے ۔یہ مضمون
بھی اُسی کی ایک کڑی ہے ۔
پیارے قارئین:
موجودہ دور میں نوجوانوں میں مستقبل کے بارے میں بے
چینی اور خوف ایک عام منظر بن چکا ہے۔ یہ خوف نہ صرف ذہنی سکون چھین لیتا ہے بلکہ
زندگی کی توانائی، تخلیق اور کوششوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس خوف
کی نوعیت، اس کے اسباب، دنیاوی و دینی پہلو، قرآنی و حدیثی پیغام، عقلی دلائل،
عملی حل، عمدہ مثالیں اور آخر میں ایک مختصر ریسرچ ریپورٹ پیش کریں گے تاکہ
نوجوانوں کو ایک روشن اور باوقار مستقبل کی طرف رہنمائی مل سکے۔
پیارے قارئین:یہ خوف ہے کیا؟آئیے ذرا اس کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
مستقبل کا خوف
(Fear of the Future) وہ اندرونی کیفیت ہے جس
میں انسان آنے والے وقت کے بارے میں غیر یقینی، پریشانی، اضطراب یا مایوسی محسوس
کرتا ہے — چاہے وہ تعلیم، روزگار، شادی، معاشی حالت، صحت، یا دنیاوی و دینی ذمہ
داریوں سے متعلق ہو۔ یہ خوف کبھی غیر مخصوص ہوتا ہے
(baseless anxiety) اور کبھی مخصوص خطرات (مثلاً نوکری نہ
ملنا، قرض وغیرہ) کے بارے میں ہوتا ہے۔
پیارے قارئین۔یہ بھی جان
لیتے ہیں کہ اس خوف کے اسباب کیاہیں تاکہ بات مزید واضح ہوسکے ۔آئیے وہ بھی جان
لیتے ہیں ۔غیر یقینی کا ماحول: معاشی حالات،
روزگار کی غیر یقینی، تیز تکنیکی تبدیلیاں۔معاشرتی تقابلی دباؤ: سوشل میڈیا پر دوسروں کی کامیابی نظر
آ کر احساسِ کمتری۔غلط تربیت یا تجربات:
ناکامیوں یا گھریلو خوف کی آمیزش۔علمی کمی: مستقبل کی منصوبہ بندی، مالی خواندگی،
یا کیریئر انفارمیشن کا فقدان۔ذہنی اور نفسیاتی عوامل:
کاتاسٹروفائزنگ (ہر چیز بُری تصور کرنا)، پرفیکشن ازم،
کوگنیٹو بائیسس۔روحانی خلا: اللہ پر بھروسے کی
کمی، معنوی رہنمائی کا فقدان۔مجھے مطالعہ ،مشاہدہ سے یہ محرکات نظر آتے ہیں جو
بچوں کو مستقبل کے خوف میں مبتلاکرتے ہیں ۔امید ہے کسی حدتک بات سمجھ آگئی ہوگی۔
پیارے بلکہ بہت ہی پیارے قارئین:اب سوچنایہ ہے کہ ہم نے
وجہ و اسباب تو جان لیے اب نوجوانوں کو کرنا کیاہے ؟آئیے ذرا اس پر بھی غور
کرلیتے ہیں ۔پیارے نوجوان موبائل کی اسکرین سے ذرا ٹائم نکال کر یہ میری باتیں دل
میں اتارلواللہ نے چاہا تو آپ اس fearسے نکل جائیں گے ۔آئیے اصل بات موضوع پر چلتے ہیں ۔یہ جو
میں کام بتانے جارہاہوں ضرور توجہ کیجئے گاتنہائی میں غور کیجئے گا کہ
ڈاکٹرظہوراحمد دانش نے جو کہا کس حدتک درست ہے ۔بلکہ آپ مجھے سے اس حوالے سے
کونسلنگ ،کیرئیر پلاننگ ،لوجیک بلڈنگ ،کیرئیر پاتھ کے حوالے سے کال پر بھی رابطہ
کرسکتے ہیں ۔(03112268353)
قارئین:نوجوانو!!!
(Goal
Setting): چھوٹے، قابلِ حصول اہداف بنائیں (SMART: Specific, Measurable, Achievable,
Relevant, Time-bound)۔
مارکیٹ کی مانگ والی مہارتیں سیکھیں — تکنیکی، زبان،
کمیونیکیشن، ڈیجیٹل سکلز۔ بجٹ، بچت، ہنگامی فنڈ اور چھوٹے سرمایہ کاری کے اصول
اپنائیں۔ اساتذہ، مینٹور، ہم پیشہ افراد سے رابطہ رکھیں؛ موقعیں اکثر تعلقات سے
ملتی ہیں۔ تبدیلی کو قبول کرنا سیکھیں — جب حالات بدلیں تو پلان تبدیل کریں مگر
قدم جاری رکھیں۔ انٹرنشپ، فری لانس پروجیکٹس، والنٹیئرنگ سے تجربہ اور اعتماد
بڑھتا ہے۔ بار بار خوف یا
ڈپریشن ہو تو پروفیشنل تھیراپی یا کونسلنگ مفید ہے۔ کوشش کے بعد نتیجه اللہ ہی کے
اختیار میں ہے؛ دعا اور عمل دونوں ضروری ہیں۔ دل کو ہمت ملتی ہے، ذہنی سکون آتا
ہے۔ مصائب میں صبر اور نعمتوں میں شکر دل کو مضبوط کرتے ہیں۔ بزرگوں، علما اور
صالح دوستوں کی رہنمائی لیں۔ ایمان کے مطابق ایمانداری، وقت کی پابندی، وعدہ خلافی
سے بچنا — یہ سب معاشرتی اعتبار بڑھاتے ہیں۔
قارئین:اسلام
بہت ہی پیارادین ہے اس میں آپ کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے بس آپ کو تھوڑی کی
کوشش کرنی ہوگی ۔آئیے ذرامیں اسلام کا پیغام جانتے ہیں ۔قرآن ہمیں ڈھیر ساری
ہدایت دیتا ہے کہ مشکل کے بعد آسانی ہے: "فَإِنَّ
مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا"
— یہ آیت (سورہ الشرح/94:5-6) نوجوان کو امید دیتی ہے کہ
رکاوٹیں مستقل نہیں۔
اللہ
فرماتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اختیار کریں اللہ ان کے لئے راستہ بناتا ہے اور بے حساب
رزق مہیا کرتا ہے۔ (اس پیغام کی قرآنی روح متعدد آیات میں موجود ہے)۔احادیث میں ہمیں
محنت، منصوبہ بندی اور عقل کے استعمال کی ترغیب ملتی ہے — جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے practical اقدامات کے ساتھ توکل کی
اہمیت بتائی۔ مختصراً دینی پیغام: کوشش کریں، منصوبہ بنائیں، دعا کریں، اور نتیجہ
اللہ پر چھوڑ دیں۔
نوجوانو!!ایک
بات تو ذہن نشین کرلیں کہ خوف انسان کی فطرت میں ہے کسی بھی انسان کو کسی بھی طرح
کا خوف لاحق ہوسکتاہے ۔مگر اس خوف سے نکلناکیسے ہے یہ بھی انسان کے اختیار میں ہے
۔ہم یہاں کچھ لوجیکل باتیں کرنے لگیں ہیں اس کو اپنے دل کی ڈائری میں نوٹ کرلیجئے
۔بہت فائدہ ہوگا۔
قارئین:
غیر
یقینی ہوتا ہے، اور دماغ خطرہ تلاش کرتا ہے
(negativity bias) — یہ قدرتی ہے مگر کنٹرول کیا جا سکتا
ہے۔ ناکامیاں مستقل
شناخت نہیں ہوتیں؛ وہ ڈیٹا پوائنٹس ہیں جن سے بہتر فیصلے بنتے ہیں۔ وہ عوامل جن پر آپ قابو رکھتے ہیں
(مہارت، نیٹ ورک، منصوبہ بندی) — انہی پر توجہ کر کے اضطراب کم ہوتا ہے۔ عقل بتاتی ہے کہ زندگی میں مثبت رسک
لینے سے امکانات بڑھتے ہیں؛ بغیر رسک کے وضع کردہ خوف آپ کو جامد رکھتا ہے۔
قارئین:آپ
روشن مستقبل چاہتے ہیں تو پھر اپنی کمزوریاں، طاقت، دلچسپیاں نوٹ کریں۔: 6 ماہ، 2 سال، 5 سال کے اہداف لکھیں۔ ہر سال 2-3 نئی مفید مہارت سیکھنے کا
ہدف رکھیں۔ وقت کا شیڈول —
مطالعہ، نیند، ورزش، عبادت، سوشل ٹائم۔ آمدنی کا حصہ بچت
میں، ہنگامی فنڈ، چھوٹی سرمایہ کاری۔ کم از کم ایک ایسا
فرد جو آپ کے شعبے میں تجربہ رکھتا ہو۔ ناکامی پر ریوائز،
ری ٹرائی؛ ہر ناکامی کو فیڈبیک سمجھیں۔ باقاعدہ ورزش،
نیند، غذائیت؛ ضرورت پر کونسلنگ۔ نماز، قرآن، ذکر
اور شکر؛ یہ حوصلہ اور مقصد فراہم کرتے ہیں۔
انٹرنشپ، پارٹ ٹائم، والینٹیئرنگ
— CV کو مضبوط کریں۔
قارئین:ہمارے
لیے انبیاعلیہم السلام ایک زبردست موٹیویشن ہیں ۔حضرت یوسف علیہ السلام — مشکلات، قید اور ناانصافی کے بعد آخری
مقام تک پہنچے؛ صبر اور حکمت کی مثال۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ — فیصلہ سازی، لیڈرشپ اور جدت کی
مثال۔ایک طالب علم جو مالی مشکل کے باوجود پارٹ ٹائم کرکے اور آن لائن کورسز لے کر
اپنی زندگی بدل دیتا ہے ۔ یہ عام کہانیاں اکثر قریب نظر آتی ہیں اور نوجوانوں کے
لیے حقیقی تحریک بنتی ہیں۔قارئین:ہم کچھ غلط فہیموں کا شکار ہیں جن کا دور کرنا
بہت ضروری ہے ۔"ہر
چیز میں کامل ہونا ضروری ہے" — پرفیکشن ازم نقصان دہ ہے۔"ناکامی میری شناخت
ہے" — حقیقت یہ ہے کہ ناکامی عارضی ہے۔"دوسرے
بہت آگے ہیں، میں پیچھے ہوں"سوشل میڈیا یک رخا تصویر دیتا ہے؛ حقیقت پیچیدہ
ہوتی ہے۔
قارئین:آئیے ہم ایک تجزیاتی ریپورٹ پیش کرتے ہیں ۔18–30
سال کے 400 نوجوانوں پر كیس اسٹڈی کی گئی تاکہ مستقبل کے
خوف کے اسباب، اس کے نفسیاتی و سماجی اثرات اور ممکنہ حلوں کا تجزیہ کیا جا سکے۔
سروے اور 20 انٹرویوز کے ذریعے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔اس سروے کے مطابق 68% نوجوانوں نے معاشی غیر یقینی کو سب سے
بڑا سبب قرار دیا۔54% نے
سوشل میڈیا تقابل کو عمومی اضطراب کا باعث بتایا۔جو نوجوان مینٹور یا فنی تربیت
رکھتے تھے ان میں خوف کے درجے کم تھے۔روحانی مشغولیت (نماز، اذکار) رکھنے والوں نے
بہتر ذہنی استحکام دکھایا۔
اگر
ہم سب چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس fear سے
نکلیں تو ہمیں کچھ پلاننگ کرنی ہوگی ۔نیز ہمیں تعلیمی اداروں میں کیریئر گائیڈنس
اور مینٹر شپ پروگرام لازمی کیے جائیں۔مالی خواندگی کو نصاب کا حصہ بنایا
جائے۔نفسیاتی سپورٹ سنٹرز اور کم لاگت کونسلنگ سروسز مہیا کی جائیں۔نوجوانوں کو
عملی تجربات (انٹرنشپ، تربیتی پروگرام) فراہم کیے جائیں۔روحانی رہنمائی اور
کمیونٹی سپورٹ کو فروغ دیا جائے۔
مستقبل کا خوف ایک پیچیدہ مگر قابو پانے والی کیفیت ہے۔
مناسب تربیت، ہنر، سماجی اور روحانی سپورٹ نوجوانوں کو مضبوط کر سکتی ہے۔بس
یہ باتیں ذہن میں بٹھالیں ۔ "خوف
مستقبل کو نہیں بدلتا، مگر یقین آج کو مضبوط کر دیتا ہے۔""جس
نے اللہ پر بھروسہ کرنا سیکھ لیا، اُس کے لیے کل کبھی اندھیرا نہیں ہوتا۔""مایوسی اُن دلوں میں
بسیرا کرتی ہے جو دعا کرنا بھول جاتے ہیں۔""نوجوان
وہ نہیں جو وقت کے بہاؤ سے ڈرے، بلکہ وہ ہے جو ایمان کے زور سے بہاؤ کا رُخ موڑ
دے۔""خوف
کی دیواریں تب گرتی ہیں جب انسان پہلا قدم یقین سے اُٹھاتا ہے۔""کل کی فکر میں آج کو ضائع
نہ کرو — کیونکہ روشن مستقبل کی بنیاد آج کے مضبوط عمل سے رکھی جاتی ہے۔""جو خود پر ایمان رکھتا
ہے، اُس کا مستقبل خود اُس پر فخر کرتا ہے۔""نقصان
صرف وہی کرتا ہے جو کوشش سے پہلے ہار مان لیتا ہے۔""تقدیر
کا فیصلہ محنت کے بغیر نہیں ہوتا، دعا اور کوشش ہی قسمت کا دروازہ کھولتی ہے۔""اللہ پر توکل کر کے جو
چلتا ہے، راستے خود اُس کے قدم چومنے لگتے ہیں۔"
مستقبل کا خوف ایک عام، مگر قابلِ علاج مسئلہ ہے۔ عقل
یہ کہتی ہے کہ خوف کو حقیقت سے الگ کریں، جس پر آپ قابو رکھتے ہیں اس پر کام کریں،
اور جس پر آپ کا اختیار نہیں اس کو اللہ کے سپرد کر دیں۔ قرآنی پیغام، دینی تعلیم
اور عملی محنت — یہ تینوں مل کر نوجوان کو نہ صرف خوف سے آزاد کرتے ہیں بلکہ ایک
بامقصد اور روشن مستقبل کی طرف لے جاتے ہیں۔یہ یاد رکھیں: ہر صبح ایک نیا موقع ہے
— ایک چھوٹا قدم، مستقل کوشش، اور دعا آپ کو بڑے راستوں پر لے جا سکتی ہے۔اللہ پاک
ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں