نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

صابن مینیوفیکچر کمپنیز کا طریقہ کار


صابن مینیوفیکچر کمپنیز کا طریقہ کار

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(ایم اے ماس کمیونیکیشن)

ہم اپنی زندگی میں بہت سی پروڈکٹس کو استعمال کرتے ہیں اسی میں ایک پروڈکٹ صابن ہے ۔اسی صابن کو ہم کپڑے دھونے ،غسل کرنے وغیرہ کے حوالے سے استعمال کرتے ہیں ۔ہم آپ کو صابن کے حوالے سے کچھ شعور فراہم کرتے ہیں تاکہ آپ جان سکیں کہ یہ کیسا تیار ہوتاہے نیز اصل مدعا آپ کو حلال و حرام کے حوالے سے شعور فراہم کرناہے ۔آپ پوری توجہ سے یہ مضامین پڑھتے رہیں ۔کمپنیز صابن کیسے بناتی ہیں ۔ابتدائی  اور مفید معلومات سیکھنے کو ملے گی ۔آئیے کچھ بنیادی باتیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

صابن مینیوفیکچرنگ کمپنیز کا طریقہ کار عام طور پر درج ذیل مراحل پر مشتمل ہوتا ہے:

نئے صابن کی ترکیبیں تیار کرنا۔مختلف اجزاء کی خصوصیات کا جائزہ لینا۔خام مال کی فراہمی یقینی بنانا جیسے تیل، چربی، سرفییکٹس، خوشبو، اور رنگ۔اجزاء کو مخصوص تناسب میں ملا کر مرکب تیار کرنا۔مواد کو گرم کرنا، ایملسیفائی کرنا، اور کیمیکلز کے ردعمل کے لیے مناسب درجہ حرارت اور وقت فراہم کرنا۔مرکب کو مختلف مراحل سے گزار کر صابن کی شکل دینا، جیسے مولڈنگ اور کٹنگ۔تیار شدہ صابن کے ٹکڑوں کو خشک کرنا تاکہ ان کی نمی ختم ہو جائے۔صابن کو مناسب پیکجنگ میں ڈالنا تاکہ وہ محفوظ رہیں اور مارکیٹ میں پیش کیے جا سکیں۔تیار شدہ صابن کی خصوصیات جیسے خوشبو، رنگ، اور مائیکروبیولوجیکل معیار کو جانچنا۔صابن کی مارکیٹنگ کے لیے حکمت عملی تیار کرنا اور اسے مختلف مارکیٹوں میں تقسیم کرنا۔یہ مراحل مختلف کمپنیوں میں مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن عمومی طور پر یہ عمل ایک ہی طرح کا ہوتا ہے۔صابن جو  ہمارے روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی مصنوعات میں سے ہے ۔آپ نے کچھ بنیادی معلومات سیکھ لی ہوگی ۔یہ انفارمیشن اپنے پیاروں سے بھی شئیر کیجئے گا۔قارئین:ہماری کوشش آپ تک مستند اور مفید معلومات پیش کرناہے ۔آپ ہمارے لیے دعاکردیجئے گا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا