نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

والدین کے کام



والدین کے کام  

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

والدین اور بچوں ایک عظیم تعلق ہے ۔بچوں کے حوالے سے والدین کی کیا بنیادی ذمہ داریاں ہیں ۔ایک اہم بات ہے۔ ۔ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو بنیادی اور اہم باتیں آپ کو بتاسکیں ۔جو بحیثیت والدیاوالدہ آپکو آپ کی ذمہ داری کا احساس بھی دلاسکے اور آپکو اپنی ذمہ داری سے آگہی بھی مل سکے ۔

پرورش: Nurturing:

والدین کی اہم ذمہ داری بچوں کی جسمانی اور جذباتی پرورش فراہم کرناہے۔ اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات جیسے خوراک، رہائش اور پیار کو پورا کرناہے۔تاکہ وہ  ایک محفوظ اور معاون ماحول  میں پرورش پاکر پروان چڑھ سکیں ۔

رہنمائی: Guidance:

والدین اپنے بچوں کی زندگی کے مختلف مراحل میں رہنمائی ، مشورے دینے، حدود طے کرنے اور اقدار و اخلاق کی تعلیم دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ رہنمائی بچوں کو غلط سے صحیح سیکھنے اور ذمہ دار بالغ بننے میں مدد دیتی ہے۔

نظم و ضبط: Discipline:

والدین کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کو نظم و ضبط سیکھائیں ۔انھیں دوسروں سے پیش آنے ،معاشرے میں جینے وغیرہ کے اصول سے آگاہ کریں ۔

تعلیم: Education:

والدین کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں ۔ان کی فکری نشوونما اور مستقبل کے تعین اور ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے ایجوکیشن  کے حصول کے لیے وسائل ،ذرائع اور ماحول فراہم کریں ۔ بچوں کی اسکولنگ، ہوم ورک میں مدد کرنے اور اساتذہ کے ساتھ بات چیت  کرنا ان کے لیے شعبہ تعلیم کا تعین والدین کی ڈیوٹی میں شامل ہے ۔

جذباتی مدد: Emotional support:

والدین سے زیادہ بچوں کے جذبات کوئی بھی نہیں جانچ سکتا۔چنانچہ والدین بچوں کے جذبات کو سمجھ کر انھیں  اپنے خونی رشتوں ،مذہتی وابستگی ،معاشرتی تعلق داری کے بارے میں  ضرور آگہی دیں ۔بچوں کے احساسات اور جذبات کوبھرپوراور بغور اسٹڈی کرتے رہیں ۔

حوصلہ افزائی: Encouragement:

والدین اپنے بچوں کو ان کی دلچسپیوں کو تلاش کرنے، اپنے اہداف کو حاصل کرنے اور خود پر یقین کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ حوصلہ افزائی بچوں کے اعتماد اور خود اعتمادی کو بڑھاتی ہے، انہیں رکاوٹوں پر قابو پانے اور اپنی صلاحیتوں تک پہنچنے کے لیے بااختیار بناتی ہے۔

مثالیں قائم کرنا: Setting examples:

 والدین اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر کام کرتے ہیں، اپنے اعمال کے ذریعے رویوں، رویوں اور اقدار کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر رہنمائی کرنا بچوں کو زندگی کے اہم اسباق سکھانے اور مثبت خصلتوں کو جنم دینے کا ایک طاقتور طریقہ ہے۔

یہ کچھ اہم باتیں تھی ۔جو ہمیں امید ہے کہ والدین اور بچوں کے تعلق سے بنیادی باتیں ہیں جن کا جانناہمارے لیے اور ہماری نسلوں کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتاہے ۔اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر اپنی اولادوں  کی تعمیر کریں ۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا