نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کو بہادر بنائیں

بچوں کو بہادر بنائیں

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش

مجھے اپنی اولاد بہت پیاری ہے یقینا آپ کا بھی یہی جواب ہوگا کہ ہمیں بھی ااپنی اولاد بہت پیاری ہے ۔یہ کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ فطرت نے یہ جذبہ رکھے ہیں ۔لیکن میں اس بات کو شدت سے محسوس کررہاہوں کہ ہم اپنی اولاد سے محبت کا دعوی بھی کرتے ہیں اپنے کردار سے اپنے اپنے انداز میں اس محبت کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ جس اولاد کو ٹھنڈی اور گرم ہوانہ لگنے کے جذبات رکھنے والے والدین  نے کبھی ان کی فکری ،نظریاتی اورنفسیاتی تربیت پر اچھے انداز میں تربیت کی کوشش کی ؟تو ہمیں جواب مایوس کُن ملے گا۔ہمارے بچے اس قدر حُساس ہوگے ہیں کہ بچے کو کہیں کہ بیٹا جاو دوسرے کمرے میں بلب بند کرکے آجاو تو بچہ کہتاہے بابا اکیلاکیسے جاوں ؟۔۔اس جملے میں بچے کی شخصی تعمیر کا پوراٹیسٹ ہوجاتاہے ۔وہ کس قدر خوف و بے اعتمادی کا شکار ہے ۔جرات اور بہادری  اور قوت ارادی سے کتنا محروم ہے ۔ایسی ہی اور بہت سی مثالیں آپ کو اپنی بچوں میں مل جائیں گیں ۔


سوچیں  ذرا


ف لس طین کے بارے میں پڑھیں 

ایک لمحے کے لیے سوچیں !!موت تو آنی ہے ۔ہم والدین دنیا سے چلیں جائیں ۔تو کیا یہ بے جرت اور بے اعتماد اولاد لوگوں کے رحم و کرم پر رہے گی ۔یہ ساری زندگی خوف و ہیبت میں گزار دے گی ۔یایہ اچھا ہے کہ انکی ایسی شخصی تعمیر کردیں کہ ہم انھیں بہادر و باجرات بنادیں ۔ انھیں غیرت مند اور حوصلہ مند بنادیں ۔فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے ۔میں چونکہ ابلاغ سے  وابستہ ہوں ۔دنیا کا کلائمنٹ دنیا کے حالات کو دیکھنا سمجھنا اور آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے پیش بندی گویا میرا شوق بھی ہے اور قدرت نے اِسے میراپروفیشن بھی بنادیا۔چنانچہ اسی درد اور تکلیف اور کرب کے ملے جُلے جذبات کے ساتھ یہ تحریر لکھ رہاہوں ۔جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہاہوں اُس وقت دنیا میں ایک گھمسان کی فضاہے ۔ایک جانب  بدترین دشمن اور دوسری جانب حمیت و غیرت کے متوالے ۔آہ !!دل بہت اداس ہے ۔چنانچہ میں نے عزم کیا کہ میں  اپنے قلم کے ذریعے اتنا شعور تو بیدار کرسکتاہوں کہ ہم اپنی اولاد وں کو دلیر اور بہادر بنائیں تاکہ وہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں ۔بات طویل نہ ہوجائے ۔آئیے ہم اپنے موضوع پر ہی فوکس کرتے ہیں ۔

زبردست مضمون پڑھنے کے لیے کلک کریں 



فکر انگیز بات 

ایک بچے میں بہادری اور لچک کو فروغ دینے میں ان کے اعتماد کو پروان چڑھانا، مقابلہ کرنے کی مہارت اور چیلنجوں کا سامنا کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ بچے میں بہادری کی حوصلہ افزائی میں مدد کے لیے  ہم نفسیاتی اور طبی مشوروں اور مشاہدہ و تجربہ کی روشنی میں آپ کو اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتےہیں :

غیر مشروط محبت اور مدد فراہم کریں:

اپنے بچے کو دکھائیں کہ آپ ان سے پیار کرتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں چاہے کچھ بھی ہو۔ یہ ایک محفوظ بنیاد بناتا ہے جہاں سے وہ اعتماد کے ساتھ دنیا میں قدم رکھ سکتے ہیں۔اُسے معلوم ہوتا ہے کہ میرے پیچھے ایک مضبوط طاقت ہے ۔

مہم جوئی  کرنے کا حوصلہ  دیں

اپنے بچے کو ان کی عمر اور پختگی کے لیے انھیں مہم جو بنائیں کوئی قدرے مشکل ٹاسک دے دیں

مدارس کے طلبا کے لیے زبردست مضمون کلک کریں  

مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں سکھائیں:

اپنے بچے کو درپیش چیلنجوں پر بحث کرکے اور ممکنہ حل کے بارے میں سوچ بچار کرکے مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں تیار کرنے میں مدد کریں۔ انہیں  مثبت تنقیدی سوچ اور فیصلے کرنے کی ترغیب

بہادری و شجاعت کا ماڈل

بچے کو دکھائیں کہ کس طرح اپنی زندگی میں بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ خوف پر قابو پانے یا 


خطرات مول لینے کے اپنے تجربات کے بارے میں کھل کر بات کریں

کلک کریں :

لچک پیداکریں  

کی تعلیم دے کر اپنے بچے کو ناکامیوں سے واپس آنے میں مدد کریں۔ انہیں ناکامیوں اور غلطیوں سے سیکھنا سکھائیں، اور اس بات پر زور دیں کہ ناکامیاں سیکھنے کے عمل کا حصہ  ہیں ۔

کوشش کی بھی تعریف کریں : 

 اپنے بچے کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی پوری کوشش کرے اور اس کی کوششوں کی تعریف کرے، چاہے نتیجہ کچھ بھی    

ہو۔ عمل اور محنت پر توجہ مرکوز کریں 

جذباتی ضابطہ سکھائیں:

اپنے بچے کو ان کے جذبات کو مؤثر طریقے سے سمجھنے اور انھیں  بہتر انداز میں  پیش کرنے میں مدد کریں۔ انہیں تکنیک سکھائیں جیسے گہری سانس لینے، ذہن سازی، یا خوف یا اضطراب سے نمٹنے کے لیے  ایکسرسائز یا ذہنی آسودگی پانے کے طریقے بتائیں ۔

بچوں کو تجربات سے روشناس کروائیں:

اپنے بچے کو نئے سے نئے تجربات اور طریقے متعارف کروائیں ۔انھیں مزید ممکنہ صورتوں و مشکل حالات سے تجربہ شدہ مثالوں سے اطمینان دیں ۔

فاضل درس نظامی کی داستان 

بہادری پر کتابیں پڑھیں:

ایسی کتابیں پڑھیں جو بہادری، چیلنجوں پر قابو پانے اور خوف کا سامنا کرنے پر زور دیتی ہیں۔ ہمت اور لچک کی اقدار کو تقویت دینے کے لیے اپنے بچے کے ساتھ کہانیوں اور کرداروں پر تبادلہ خیال کریں۔

کامیابیوں کا جشن منائیں:

اپنے بچے کی کامیابیوں کا جشن منائیں، چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں۔ 

نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے ان کے اعتماد اور حوصلہ افزائی کے لیے ان کی پیشرفت اور کوششوں کو تسلیم کریں۔

قارئین :یہ جتنی بھی باتیں میں آپ سے شئیر کررہاہوں اس کے پیچھے مجھ ناچیز ڈاکٹرظہوراحمددانش کی  اسٹڈی اور  تجربات و مشاہدات بھی ہیں ۔اس میں آپ کو کوئی فرضی باتیں نہیں لگے گی ۔

غم اور ڈر 

آزادی کی حوصلہ افزائی کریں

اپنے بچے کو عمر کے مطابق فیصلے کرنے اور ان کے اعمال کی ذمہ داری لینے دیں۔

اس سے خوداعتمادی اور خود مختاری کا احساس پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔

جسمانی سرگرمیوں کو فروغ دیں:

اپنے بچے کو جسمانی سرگرمیوں اور کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔ جسمانی چیلنجز

ذہنی لچک اور بہادری پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

مثبت ماحول کو برقرار رکھیں:

ایک مثبت اور معاون گھریلو ماحول بنائیں جہاں آپ کا بچہ اپنے آپ کو اظہار خیال کرنے اور فیصلے کے خوف کے بغیر خطرات مول لینے میں محفوظ محسوس کرے۔

قارئین:ہم  دنیا میں زندگی گزاررہے ہوتے ہیں زندگی بسر نہیں کررہے ہوتے ۔میرامطلب یہ ہے کہ میں آپ اور ہم ایک ہجوم میں چل رہے ہیں جس جانب ہجوم بڑھاہم نے بھی اسی جانب اپنا رُخ کرلیا۔میں بچوں کے معاملے میں بہت حُساس ہوں ۔آپ اس سے اندازہ لگالیں کہ میں 15سال سے پڑھارہاہوں ۔میں بچوں کے کالجز اسکول کے نصاب کے ساتھ ساتھ اس کی شخصی تعمیر کے لیے بہت  زور دیتاہوں ۔ ہمارامسئلہ یہ ہے کہ اب کمپیوٹر کی دنیا میں انقلاب آچکا ہے ۔سب والدین کی خواہش ہے بچہ آن لائن ڈالر ،یورو کی برسات کردے ۔زبردست کمائے ۔یا پھر ایسی تعلیم جس میں پیسہ زیاد ہ ہے وہ اختیار کرے ۔اس پورے نظام میں بچہ سوائے ایک ریبورٹ کے کچھ نہیں ۔

لیکن میں کہتاہوں آپ نظام بدلیں ۔اپنے بچوں کو فیصلہ ساز ،باجرت اور دلیر بنائیں یہی اُٹھیں گے

 تو نظام بدلے گا۔اس مضمون میں ہم نے کوشش کی ہے

کہ آسان اور عام فہم انداز میں آپ کو اہم ترین بات سمجھا سکیں

 ۔ہماری کوشش آپ کی زندگی میں راحت کا ذریعہ بنے

تو ہماری مغفرت کی دعاضرورکردیجئے گا۔دوسروں کی خیرخواہی کی نیت سے یہ مضمون دوسروں کو بھی share کردیجئے گا۔

نوٹ:آپ ہم سے پرسنل رابطہ بھی کرسکتے ہیں ۔نیز آپ آن لائن کورسسز اور کونسلنگ کے لیے ہم سے رابطہ کیجئے ۔

رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ:03112268353

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا