نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غم اور ڈر خوف اور مالی تنگی سے بچنے کے وظائف

facebook


غم اور ڈر  خوف اور مالی تنگی سے بچنے کے وظائف

سورۂ قریش زیادہ صحیح قول کے مطابق مکیہ ہے اس سورت میں  1رکوع  اور4آیتیں  ہیں ۔قریش ایک قبیلے کانام ہے اور اس سورت کی پہلی آیت میں  یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ قریش‘‘ کہا جاتا ہے۔

سورۃ قریش کے بہت سے فضائل و برکات ہیں ۔جن سے ہم مستفید ہوسکتے ہیں ۔

آئیے جانتے ہیں ۔آپ کسی انہونے خوف کا شکار ہیں ،دشمن کا ڈر ہے ۔سفر پر جارہے ہیں دل میں راستے میں حادثے کا ڈر ہے توآپ پریشان نہ ہوں ۔اس کا بہترین اور زبردست وظیفہ ہم آپ کو بتانے جارہے ہیں لیکن اس کے لیے آپ ہم سے جڑے رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ 101مرتبہ سورۃ قریش درست مخارج کے ساتھ پڑھیں اور 11مرتبہ درود شریف بھی پڑھ لیں ۔اب آپ پانی پر دم کرلیں ۔اور اس پانی کو روزانہ پیتے رہیں۔اللہ پاک نے چاہا تو آپ ان خدشات ،خوف و ڈر،اور دشمن سے شر سے محفوظ رہیں گے ۔۔

آج ہی یہ وظیفہ شروع کرلیں ۔آپ اس کی برکت خودمحسوس کریں گے اور پھر ہمیں کامنٹ میں ضرور بتائیے گا کہ آپ نے کیسا محسوس کیا۔

 

قارئین:

آپ مالی مشکلات کا شکار ہیں ۔تنگی ہوگئی ہے تو آپ سورۃ قریش لکھ کر اپنے پاس رکھ لیں اللہ پاک غائب خزانوں سے آپ کے لیے رزق کے راستے آسان فرمادے گا۔

آپ رزق کی تلاش میں ہیں ،جاب نہیں مل رہی ،کوئی کام نہیں مل رہا۔بالکل ریلکس ہوجائیں ۔طلوع آفتاب سے پہلے  سورۃ قریش کم از کم 11 مرتبہ پڑھ لیں اور اپنے پیارے اللہ پاک سے دعاکردیں ۔آپ خود حیران ہوجائیں گے ۔

آپ یا آپ کا کوئی عزیز دل کی بیماری کا شکار ہے ۔تواب پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ابھی اُٹھیں وضوکریں اور پانی پر 111مرتبہ سورۃ قریش پڑھ لیجئے ۔اول آخر تین تین  مرتبہ درود شریف  پڑھ لیجئے ۔یہ دم کیا ہواپانی مریض کو پلائیں اور مریض کے سینے پر چھِڑک دیں ۔کائنات کے خالق و مالک نے چاہاتو مریض خود بہتری محسوس کرے گا۔

ایسے ہی مزید تحریریں پڑھنے کے لیے آپ ہمارے ساتھ جُڑے رہیں ۔کامنٹ باکس میں اپنی قیمتی رائے ،مشورہ یا فیڈ بیک ضرور دے دیاکریں ۔اللہ نگہبان

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا