نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں؟

daily jang


جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

جب جب ٹیکنالوجی کی بات ہوتی ہے ۔انسان کے ذہن کے بند کواڑ کھُل جاتے ہیں سوچوں  کے دھارے وسیع ہوجاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے انسان کو  بظاہر کئی ناممکنات کو ممکن کرتے دکھادیا۔جس سے انسان ٹیکنالوجی سے مانوس ہوگیا۔اور جدید سے جدید تر کی تلاش میں سرگرداں ہے ۔آئیے ہم کچھ ٹیکنالوجی کی ضرورت اور اہمیت پر بات کرلیتے ہیں ۔

امام مسجد کی پکار

ٹیکنالوجی دنیا میں آئی اور اس نے انسان کو اپنا عادی بنا لیا، اب انسان ٹیکنالوجی کا عادی ہو چکا ہے اور اس کے بنا نہیں رہ سکتا۔ انسان ہمیشہ سے اپنے لئے آسانی ڈھونڈتا رہا ہے اور اس مقصد کے لئے طرح طرح کی نئی ٹیکنالوجی تیار کر لی۔ہماری زندگی میں ایجادات کا سلسلہ جاری ہے روزانہ بیسیوں چیزیں ایسی دیکھنے میں آتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ زندگی کے مختلف شعبہ جات مثلاً زراعت، توانائی، تجارت، سفر اور رابطوں کے لئے ٹیکنالوجی نہایت اہم کردار ادا کر رہی ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر زرعی پیداوار کے لئے زرعی مشینری، توانائی کے حصول کےلئے جدید نیوکلر، شمسی اور ہوا کی توانائی کا استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔انسان نے زمین سے اپنے سفر کا سلسلہ گھوڑے اور خچر سے شروع کیا اور اب جدید دور میں گاڑی، ریل گاڑی اور ہوائی جہاز پر سفر کر رہا ہے۔جدید دور کے انٹرنیٹ نے برقی پیغامات یعنی ای میل اور چیٹ کے ذریعے پیغام رسانی کو آسان بنا دیا ہے اور اس طرح انسانوں کے درمیان دوریاں ختم ہو گئی ہیں۔ انسان دنیا میں کہیں بھی بیٹھا ہو، اپنے کسی بھی عزیز سے ای میل اور چیٹنگ اور وائس چیٹ کے ذریعے بات چیت کر سکتا ہے۔

ٹیکنالوجی نے دوریوں اور فاصلوں کوختم کر دیا ہے۔ موبائل فون جدید دور کی اہم ٹیکنالوجی ہے۔ دور حاضر کی اس جدیدٹیکنالوجی نے انسانی رابطوں کے سلسلے کو آسان بنا دیا ہے اور مسلمان کے لئے   صلہ رحمی اور رشتہ داری نبھانا ، دور دراز کے رشتہ داروں کے حالات سے باخبر رہنا آسان ہوگیا ہے۔

حکمت کی باتیں :

https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/09/blog-post_60.html

انسان نے کمپیوٹرٹیکنالوجی کو ایجاد کر کے اپنے بیشتر مسائل کوحل کر لیا ہے اور زندگی کے ہر شعبے میں کمپیوٹر اہم جز بن گیا ہے۔اکیسویں صدی کی زندگی میں کمپیوٹر بہت اہمیت رکھتاہے۔ حساب کتاب، ڈیزائننگ، اردو اور انگلش ٹائپنگ، موبائل، ویب اور دیگرسوفٹ ویئرز نے متعدد معاملات کو آسان بنا دیا ہے، سوفٹ ویئرز کے آنے سے پہلے ان معاملات کوحل کرنے میں بہت مشکلات پیدا ہوتی تھیں۔

اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی بدولت گھر بیٹھے کاروباری لین دین بھی آسان ہو گئی ہے۔ یونیورسٹیز میں ٹیکنالوجی کے ذریعے آن لائن تعلیم کا نظام متعارف کرا دیا گیا ہے، اب جو لوگ کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ آن لائن تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ دینی تعلیم کے میدان میں بھی ٹیکنالوجی نے بہت سہولیات فراہم کی ہیں، بہت سی کتب ڈیجیٹل موڈ میں انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں جن تک رسائی پہلے عام طالب علم کے لئے نہایت مشکل تھی، بہت سی قیمتی کتب کا ذخیرہ ، احادیث کی تخریج،اور اہم علماء کے آڈیو ، ویڈیو دروس بآسانی انٹرنیٹ سے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔

قارئین:

ہر چیز کے دوپہلو ہوتے ہیں ۔ایک مثبت اور دوسرا اس کا منفی پہلو بھی ۔ہم نے ٹیکنالوجی کی ضرورت بیان کی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے نقصانات کا خمیازہ انسان کو بھگتنا نہیں پڑابلکہ اس کا انسان نے سامناکیا لیکن دونوں ہی پہلووں کی اپنی اہمیت ہے ۔آپ بھی اس دور میں جینا چاہتے ہیں تو آپ کو جدید ٹیکنالوجی سے شناسا ہونا پڑے گا ورنہ دنیا آپ کو بہت پیچھے چھوڑ کر بہت آگے نکل جائے گی ۔درست سمٹ میں مفید چیزوں کو لے کر اچھے عزائم کے ساتھ آپ ٹیکنالوجی کو قبول کریں استعمال کریں ۔آپ اس کے فوائد پائیں گے ۔ابھی تو سائنس ہولوگرافی ،آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی جانب تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔بجائے کسی بات کسی کام کسی تبدیلی کو کوسنے کے آپ اس میں اپنی سوچ اور نذریعے کے مطابق چیزوں کو تیارکرنا شروع کردیں ۔کوسنے سے نہ پہلے کچھ ہوااور اب کچھ ہوگا۔آپ تیار ہوجائیں ۔ٹیکنالوجی کی دنیا میں انسانوں کے لیے کچھ مثبت اور مفید کارہائے نمایاں سرانجام دے دیں صدیوں انسان آپ کی کاوش کو یاد رکھیں گے ۔

نوٹ:آپ کیرئیر کونسلنگ ،طبی مشوروں اور آن لائن کورسسز کے لیے ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ :03112268353 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا