نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام مسجد کی پکار

ہم سب


امام مسجد کی پکار

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش

    ”مسجد“خانہٴ خدا، مرکزاسلام اور روئے زمین کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے، اللہ تعالی نے اسے اپنی جانب سے خصوصی عزت و شرف سے نوازا ہے،اور قرآن مجید میں جگہ جگہ مسجد اور اس سے منسوب افراد کا تذکرہ کیا ہے۔جس میں شرف بھی ہے اور مسجد سے جُڑے افراد کے لیے اعزاز بھی ہے ۔

لیکن افسوس صد افسوس !آج ہم جس معاشرے کی بات کرنے جارہے ہیں اس میں امام مسجد کے ساتھ جو مسجد کمیٹی اور نمازیوں کا رویہ ہوتاہے وہ قابل تشویش رویہ ہے ۔جس میں شاید ہی کوئی خیر کاپہلو نکلتاہو۔امام ایک منٹ تاخیر سے آگیاتو نمازی پلٹ پلٹ کے امام کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔امام مغرب کے بعد تاریخ بدلنا بھول گیا تو اس پر کمیٹی والوں کی باتیں ۔امام نے قرات طویل کردی تو اس پر نمازویں کی چہ مگویاں ۔خادمین مسجد نے صفائی کی مگر زیادہ ٹھیک نہ تھی تو بیچ افراد کے اس کی عزت نفس مجروح کرنا تو شاید لوگوں کا محبوب مشغلہ بن چکاہے ۔امام اچھے کپڑے پہن لے تو باتیں شروع ہوجاتی ہیں لگتا ہے امام صاحب کوئی اور دھندہ بھی کررہے ہیں خادمین نے اینڈرائڈ موبائل کیا لے لیا کمیٹی نے مژدہ جان لیواسنا دیا آپ کی تنخواہ کیوں بڑھائیں آپ کے پاس پیسے ہیں تو موبائل خریداہے ۔امام نے اچھی گاڑی لے لی تو اس پر نظر۔

جب تنخواہ بڑھانے کی امام ،موذن یا خادم  بات کریں تو کمیٹی  کے تیور ہی بدل جاتے ہیں ۔40سال سے امام و موذن رہنے والے شخص کی طویل محنت کو ایک کی جھٹکے میں اتاردیتے ہیں ۔کمیٹی کے پاس پیسے نہیں ۔یاپھر اب ایک نیا طریقہ آگیا ہے کہ امام صاحب ،موذن صاحب  آپ بھی مارکیٹ میں جاکر دوکان والوں سے مسجد کے لیے فنڈ کیاکریں ۔ان سے ماہانہ باندھ لیں ۔سیٹھ صاحب مسجد میں تشریف لائیں تو امام و موذن پروٹوکول نہ دے سکے تو اس پر ناراضگی ۔پھر گاہے گاہے یہ احسان بھی جتایا جاتا ہے کہ ہم نے رہنے کو گھر دیا وغیرہ ۔

قارئین :

ایمان داری سے فیصلہ آپ کیجئے گا۔اس مہنگائی اور مشکل ترین دور  ذرا کسی مسجد کے امام اور موذن کی تنخواہ تو پوچھ لیں ۔آپ کو لگ پتاجائے گا۔بعض امام کو 25 سال ہوگے ان کی تنخواہ آج کے دور میں بھی 18ہزار ہے ۔موذان و خادمین کی تو پوچھیں ہی نہ ۔

میں شاید اس موضوع پر پھر کبھی لکھتا لیکن اس فیلڈ سے جُڑے افراد کی دکھ کی داستانیں سن سن کر ضمیر پر ایک بوجھ تھا ۔سوچا لکھوں ۔

اللہ کے بندو!یہ امام آپ کا مقتداہے ۔ سلام میں منصب امامت کی بڑی اہمیت ہے، یہ ایک باعزت،باوقار اور قابل قدر دینی شعبہ ہے، یہ مصلّٰی درحقیقت رسول اللہ…کا مصلّٰی ہے،امام نائبِ رسول ہے نیز اللہ رب العزت اور مقتدیوں کے درمیان قاصد اور ایلچی کی حیثیت رکھتاہے؛

امام غزالیلکھتے ہیں:”بعض سلف کا قول ہے: انبیاء علیہم السلام کے بعد علماء سے افضل کوئی نہیں اور ان کے بعد نماز کے امام سے افضل کوئی نہیں؛ کیونکہ یہ تینوں فریق(انبیاء،علماء اور ائمہ) اللہ تعالی اور اس کی مخلوق مابین رابطے کا ذریعہ ہیں۔ انبیاء علیہم السلام تو اپنی نبوت کے باعث، علماء علم کی وجہ سے، اور ائمہ کرام دین کے سب سے زیادہ اہم رکن کے سبب“۔(احیاء العلوم)

ضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ… نے فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اذان دینے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کی کتنی فضیلت ہے پھر وہ اس پر قرعہ اندازی کئے بغیر کوئی چارہ نہ پائیں تو وہ اس پر ضرور قرعہ اندازی کریں اور اگر وہ جان لیں کہ (نماز کے لیے) اول وقت آنے میں کیا فضیلت ہے تو وہ ضرور اس کی طرف دوڑ کر آئیں، اور اگر وہ جان لیں کہ نماز عشا اور نماز فجر کی کتنی فضیلت ہے تو وہ ضرور ان میں شریک ہوں،اگر چہ انھیں سرین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے۔(صحیح بخاری)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ … سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: تین قسم کے لوگ قیامت کے دن مشک کے ٹیلے پر ہوں گے، جنہیں دیکھ کر تمام اولین وآخرین رشک کریں گے، ایک ایسا غلام جو اللہ اور اپنے آقا کے حقوق ادا کرتا ہو، دوسرے وہ امام جس سے اس کے مقتدی راضی ہوں، تیسرے وہ موٴذن جو پانچوں وقت کی اذان دیتا ہو۔(مسنداحمد)

اس سے امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ اسی کے پیشِ نظر امام کے چند حقوق پیشِ خدمت ہیں تاکہ ہم ان پر عمل کرکے ‏بہتری لا سکیں ‏۔

قارئین:میں نہ تو امام ہوں نہ موذان اور نہ ہی اس پیشہ سے میری روزی جُڑی ہے یہ تحریر خالصتا اللہ پاک کی رضا اور آپ کی خیر خواہی کی نیت سے تحریر کررہاہوں ۔امامِ مسجد کی اہمیت و مقام و مرتبہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن فی زمانہ ائمہ و علما کی تعظیم و توقیر کے بجائے ایک ملازم کی ‏حیثیت سے دیکھا جاتا ہے کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔

یہاں کچھ اہم باتیں جن میں آپ کے لیے خیر ہی خیر ہے نکات کی صورت میں پیش کررہاہوں ۔آپ بھی مصروف ہیں تاکہ مختصر اور جامع بات ہواور آپ حق بات کو سمجھ بھی سکیں ۔

()بلاتحقیق بات نہ کریں ()امام و موذن پر بلاوجہ قیودات نہ لگائیں ()ان کی عزت نفس کا پوراخیال رکھیں()ان کے عیبوں کی ٹوہ میں ہر گز نہ لگیں ()امام و موذن و خادمین کو اجرت دور کے تقاضوں کے مطابق دیں ()آپ امام موذن خادم سے کوئی اختلاف رکھتے ہیں تو اُسے تحمل سے حل کریں ()عزت دیں اور عزت پائیں ()کوشش کریں کہ ان اللہ کے دین کے خدمتگاروں کو اچھی رہائش پیش کریں ()انھیں اتنا معاشی مستحکم کردیں کے انھیں مسجد کی خدمت کے علاوہ اور معاش کے راستے تلاش نہ کرنے پڑیں ۔()انھیں اپنی خوشی و غمی میں ضرور شامل کریں ()احسان کرکے انھیں جتائیں مت ()ان کی عزت و وقار کو قائم رکھتے ہوئے حکمت اور دانائی کے ساتھ امام مسجد وموذن و خادمین کو ان کی ذمہ داری گاہے گاہے سمجھاتے رہیں ۔()اپنی اولادوں و رشتہ داروں کو مسجد سے مانوس کرنے کے لیے اپنے امام و مسجد سے جُڑے افراد کی محبت اور ان کی اچھی باتیں ان سے ذکر کریں

قارئین :بہت سی باتیں ہیں جنھیں لکھنا تھا لیکن آپ مصروف ہیں سوچا بس اختتام کرلوں ۔بس یہ بات سمجھ لیں کہ امام ،موذن ،خادمین ہمارے سیارے ہی کی مخلوق ہے ۔انھیں بھی وہی مسائل درپیش ہیں جو ہمیں ہیں ۔یہ بھی وہی محسوس کرتے ہیں جو ہم کرتے ہیں ۔ان کی بھی وہی خواہشات ہیں جو ہماری ہیں ۔ان کی اولاد بھی ویسی ہی  خودداری سے جینا چاہتی ہیں جیسی ہماری اولادیں ،انھیں بھی اتنی  مہنگائی کا سامنا ہے جتنا ہمیں ،انھیں بھی فرصت کا وقت چاہیے ،انھیں بھی خوشیاں اچھی لگتی ہیں انھیں بھی اپنے بچوں کے ساتھ گھومنے کا من کرتاہے ،انھیں بھی اچھا پہننے اور کھانے کو جی کرتاہے ۔

اللہ کا واسطہ ہے یہ کوئی احساس سے آزاد مخلوق نہیں ان کے بھی احساسات ہیں۔ہاتھ جوڑ کے عرض ہے کہ اپنی نسلوں میں ایمان کی رمق دیکھنا چاہتے ہو۔اپنے گھر میں حیاکی چادر  چاہتے ہو۔اپنی دنیا میں خیر اور اپنی آخرت میں بخشش کا پروانہ چاہتے ہو۔تو پلیز ان دین کے سفیروں کی خدمت کریں انھیں تنگ نہ کریں ۔مت تنگ کریں ۔یہ میرے اور آپ کی خوش بختی ہوگی کہ ہم ان کی خدمت کریں ہماری روزی ہمارا مال اس قابل ہو کہ ان کے لیے ہم پیش ہوکر اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوجائے ۔دین کو تخت پر دیکھنے کے خواب تب پورے ہوں گے جب دین کی بات کرنے والوں کو عزت ملے گی ۔

فتنے کا دور ہے لوگ دین سے  ویسے ہی بہت تیزی سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں ۔یہ عظیم لوگ ہیں جو ابھی تک ہماری بہتری ،ہماری بقا اور ایمان کی سلامتی کے لیے سب مفادات ایک طرف رکھ کر دین  ،منبر محراب سے جُڑے ہوئے ہیں ۔ہے کوئی امام  موذن اور خادم کی پکار سننے والا۔ان کا رب ضرور انکی سنتاہے ۔مگر کہیں ان کے معاملے میں ہماری غفلت ہمارے رب کو جلال میں نہ لے آئے ۔

آخر میں آئمہ سے بھی التماس ہے کہ خداراہ آپ بھی مختلف اسکلز سیکھ کر اپنی معاش کو بہتر بنائیں اور مسجد منبر محراب کی خدمت فقط اللہ کی رضائے کے لیے کرنے کے قابل ہوجائیں ۔آپ اللہ کی رضا کے لیے ہی خدمت کرتے ہیں میری مراد یہ ہے کہ اپنی معاش کہیں اور سے جوڑ لیں ۔کوئی ہنر کوئی فن اس کے علاوہ سیکھ لیں ۔تاکہ آئندہ آنے والے شرو فساد کے دور میں آپ کے کسی کے محتاج نہ ہوں اور خودداری و حمیت کے ساتھ خدمت دین کرسکیں ۔کمیٹی والے بھی ناراض نہ ہوں ۔بعض کمیٹی والے تو اتنے قابل تعریف ہیں کہ ان کے لیے بے اختیار دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔جنرل ٹاپک تھا ۔لکھنا قلمی ذمہ داری تھی ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ:

آپ اسکلز کے حوالے سے ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔انگلش لینگویج ،حلال فوڈ اینڈ سیفٹی ،سافٹ سکلز۔آن لائن دیگر کورسسز بھی !!

ہمارا نمبر:03462914283/وٹس ایپ :03112268353 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا