نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خود اعتمادی کا جادو

roznama dunya

خود اعتمادی کا جادو

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

زندگی آپ کو مختلف راستوں سے گزارتی ہے ۔آپ مختلف شاہراہوں سے گزرتے ہوئے مختلف چوراہوں سے ہوتے ہوئے  زندگی کے سفر پر رواں ہوتے ہیں ۔ اس میں  آپ  کبھی نروس اور کبھی بہت ہی پراعتماد ہوتے ہیں ۔لیکن کبھی غور کیا کہ اس اعتماد ہونے اور اعتماد کے نہ ہونے کی وجوہات کیا ہیں ؟نہیں تو ہم آپ  سے اس مضمون میں اپنے تجربہ و مشاہدہ اور مطالعہ کی روشنی میں ممکنہ باتیں ضرور کریں گے جس سے آپ کی زندگی میں مثبت تبدیلی واقع ہوگی ۔لیکن اس سے پہلے کچھ تمہیدی باتیں کرلوں تاکہ میری پیش کی ہوئی باتیں آپ کو فقط کتابی باتیں نہ لگیں ۔میں ڈاکٹرظہوراحمددانش بہت اچھے سے بتاسکتاہوں کہ جب انسان کا اعتماد کم ہوتا ہے تو وہ کسی اندھی کھائی میں جاگرتاہے ۔شاید میں اس کی ایک بڑی مثال ہوں ۔

ایم فل کے بارے میں جاننے کے لیے کلک کریں

میں نے اپنی زندگی کا وہ دور بھی دیکھا جب میں اتنا پراعتماد تھا کہ میں  انسانوں کے ہجوم میں بات کہنا ،اپنا موقف پیش کرنا ،اپنی دلیل پیش کرنا،اپنے رائے دینا ،تقریر کرنا ،خطاب کرنا ،جمعہ کا وعظ کرنا ،ٹریننگ کورسسز کروانا وغیرہ سب  سے میرا پراعتماد ہونا جھلکتاتھا۔لیکن پھر زندگی کی گاڑی نے شاہراہ بدلی راستہ بدلہ تو یہی ڈاکٹرظہوراحمددانش  خود اعتمادی کھو کر ایک ایسی اندھیرنگری کا مسافر بن گیا کہ جو میرے کیرئیر اور کوشش اور اسکلز سے وابستہ طبقہ تھا وہ کہتا رہا، پیٹتارہا چیختا رہا ،سمجھاتا رہا،میری قابلیت کی مثالیں پیش کرتا رہا۔کہ آپ وہی ہو جن کو دیکھ کر ہم نے بولنا سیکھنا لکھنا سیکھنا۔آپ کی تحریر پڑھ کر وژن وسیع ہوا۔کمال کے آدمی ہو ۔بہت سافٹ بولتے ہو۔کیا نہیں کرسکتے ۔اچھا لکھنے اور بولنے والے ظہوردانش کیاہوا۔لیکن ایک میں تھا کہ میرا اعتماد اس قدر زوال پزیر ہوچکا تھا کہ ان سب ہمدردوں ،محسنوں میرے پیاروں کی باتوں کا وقتی شعور پر اثر رہتا لیکن پھر میراٹوٹاہوا فکروں کا محل  اس  ویرانے سے مجھے نکلنے نہیں دیتا۔پتا نہیں کیا ہوجائے گا۔پتا نہیں میں پھر کیسے لوگوں کو اسپیچ ڈلیور کروں گا۔یار مجھے کیا ہوگیاہے ۔مجھے تو لوگوں سے خوف آنے لگاہے ۔پتا نہیں یہ بولا تو مزاح بن جائے گا۔وغیرہ وغیرہ

قارئین :

خداکی قسم میں بہت اذیت ناک تجربے سے گزرا ۔میں گمنام ہوگیا۔اعتماد کے زوال نے میرے رابطے واسطے ناطے سب ختم کردیے ۔میں ہارٹ پیشنٹ ہوگیا۔۹سال سے سویانہیں ۔آپ اس بات سے اندازہ لگائیں کہ میرے بارے میں عمومی رائے یہ تھی کہ یہ شخص جس میدان میں جائے گا کمال کرے گا۔میں ماضی کے جھروکوں میں امید کی ادھار کندیل مانگ کر مستقبل کی راہوں پر امید کی شمع روشن کرنے کی کوشش کرتا لیکن اعتماد تھا کہ بحال ہونے کو نام نہ لے ۔میں بتانہیں سکتا کہ اگر میرے پاس قلم کی طاقت نہ ہوتی اور علامہ عبدالرشید ،علامہ ازہار ،مولانا فقیر محمد ،مولانا آصف اقبال،مولانا ندیم صاحب،عامر پٹنی ،امجد قریشی صاحب ،صدیقی علی انصاری ،عمران صادق ، مولانا عثمان شاہ ،مولانا عبدالغفور،اویس جہانزیب،مولانا راشد  مدنی (ھادی انسٹیٹیوٹ) اور ایسے ہی دیگر دوست نہ ہوتے تو شاید میں بہت جلد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہترین مضمون پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں :

https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/09/blog-post_51.html

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان افراد میں میرے لیے عامر پٹنی بھائی نے دامے درمے سخنے ہراعتبار سے کوشش کی ۔مجھے بہت حوصلہ دیا۔بلکہ روزانہ کی بنیاد پر مجھ سے جانچ پڑتال بھی شروع کی ۔میں اپنے اس عظیم محسن کو کیسے بھول سکتاہوں ۔ان کے ساتھ ساتھ علامہ عبدالرشید خطاب پاکستان نیوی ۔وہ بہت محبت کرنے والے ہمدرد انسان ہیں ۔ہرقدم پر انکی شفقت رہی ۔مجھے نئے آئیڈیاز نئی جہات متعارف کروانا اپنی ذمہ داری سمجھ لی تھی ۔میں اس تحریر کے ذریعے سب پیاروں کو بہت سی دعائیں بہت ساپیار۔

خیر وقت اپنی رفتار سے گزرتاچلا گیا۔مگر مجھے یہ معلوم ہوگیا کہ جینا ہے تو اعتماد کی نعمت  کی دعاکرو۔اسی درد اور کرب کو لیکر ایک تحریر لے کر حاضر ہواہوں ۔اس امید پر کہ کیا معلوم میری تحریر کسی ناامید کو امید دے دے ۔چھوڑیں اس سے پہلے کے میں روجاوں ۔اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں ۔میں چونکہ اعتماد کی نعمت سے محروم رہا۔اس کے پیچھے کئی  مسائل اور ذمہ داریاں اور انسان کش لوگوں کا رویہ بھی تھا اس پر پھر کبھی بات ہوگی ۔ابھی موضوع پر بات کرتے ہیں ۔

اویس جہانزیب وہ شخص ہیں جو قدم بہ قدم میرے ساتھ رہے ۔یہ میرے شاگرد ہیں لیکن بہترین اور مخلص دوست بھی ۔انھوں نے کمال محبت دی ۔رب سلامت رکھے۔

قارئین:

خود اعتمادی مختلف وجوہات کی بنا پر کم ہو سکتی ہے، اور یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ اندرونی اور بیرونی دونوں عوامل سے متاثر ہو سکتا ہے۔ یہاں کچھ عام وجوہات ہیں جن کی وجہ سے خود اعتمادی کم ہو سکتی ہے:

منفی تجربات یا تاثرات: Negative Experiences or Feedback

مسلسل تنقید، دھونس، رد، یا ناکامی خود اعتمادی کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ منفی تجربات شکوک و شبہات اور عدم تحفظات پیدا کر سکتے ہیں، جس سے خود کی قدر میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔خوداعتمادی ختم ہوتی ہے ۔

دوسروں سے خود کا موازنہ کرنا: Comparing Oneself to Others

دوسروں سے مسلسل خود کا موازنہ کرنا، خاص طور پر جب دوسروں کو زیادہ کامیاب، پرکشش، یا کامیاب سمجھنا، خود اعتمادی کو کم کر سکتا ہے۔ یہ اکثر سوشل میڈیا کے دور میں ہوتا ہے، جہاں لوگ اپنی نمائش   کی دوڑ میں سرگرداں ہیں ۔

کمال پسندی: Perfectionism

ہم جب زندگی کے سفر میں گامزن ہوتے ہیں تو یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہم انسان بھی ہیں ہمارے کام میں کمی اور جھول رہ سکتاہے ۔لیکن ہم ہر کام کو پرفیکٹ کرنے چاہتے ہیں جس کی وجہ سے ہم خود اعتمادی کھوجاتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ  ہم مایوسیوں اور محرومیوں کی اندھی غار میں جاپہنچتے ہیں ۔میرے ساتھ ہواہے اسلیے بتارہاہوں ۔میں سوچتاتھا کہ بولوں تو کمال بولوں ،کروں تو کمال کروں ،لکھوں تو کمال لکھوں ،کوئی غلطی نہ ہو۔غلطی ہوئی تو لوگ کیا کہیں گے وغیرہ ۔ہاتھ جوڑ کے عرض ہے آپ اپنی طرف سے اچھا کرنے کی کوشش کریں ۔مگر یاد رکھیں سب اچھا ہو ضروری نہیں ۔مت خون جلائیں ۔

جسمانی ظاہری شکل اور جسمانی تصویر: Physical Appearance and Body Image:

دوستوں کی باڈی بلڈنگ اور کٹس دیکھ کر پریشان نہ ہواکریں خود کو انڈاسٹیمیٹ مت کریں آپ تخلیق کائنات کاعظیم شاہکار ہیں ۔خود کو بتائیں اس کائنات میں بسنے والے کتنوں سے آپ خدوخال میں پیارے ہیں ۔دوسروں کی وضع قطع ،خوبصورتی سے فوراَ متاثر ہوکر اپنا اعتماد مت برباد کریں ۔

غیر صحت مند تعلقات: Unhealthy Relationships

بدسلوکی یا زہریلے تعلقات، چاہے رومانوی، خاندانی، یا دوستی، زبانی، جذباتی، یا جسمانی زیادتی کے ذریعے خود اعتمادی کو ختم کر سکتے ہیں۔

صدمہ یا بدسلوکی: Trauma or Abuse

ماضی کا صدمہ، بدسلوکی، یا نظر اندازی خود اعتمادی اور خود ادراک کو نمایاں طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ ان تجربات کے نتیجے میں افراد اپنے بارے  عجب وسوسوں کاشکار ہوکر اعتماد کھوجاتاہے ۔

 

حمایت اور حوصلہ افزائی کا فقدان: Lack of Support or Validation

 کسی کی زندگی میں اہم افراد، جیسے والدین یا سرپرستوں سے مثبت  دیکھ بحال، حوصلہ افزائی،ہمت بڑھانے  کی بجائے  تنقید ،بے جا تنقید ،بھی اعتماد کو کم کردیتی ہے

 

ملازمت میں کمی یا مالی جدوجہد: Job Loss or Financial Struggles:

ملازمت سے محروم ہونا، مالی مشکلات، یا کیریئر کی ناکامیاں خود اعتمادی میں کمی کا باعث بن سکتی ہیں، خاص طور پر اگر کسی کی خود اعتمادی اس کی پیشہ ورانہ کامیابی سے مضبوطی سے منسلک ہو۔

 

صحت کے مسائل: Health Issues

دائمی بیماریاں، معذوری، یا صحت کے حالات خود اعتمادی کو متاثر کر سکتے ہیں۔

 

قصور یا شرم: Guilt or Shame

ماضی کے اعمال، سمجھی گئی غلطیوں کا احساس خود اعتمادی کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔خود کو بات بات پر مجرم سمجھنا ،کوسنا یہ سب خود اعتمادی کو دیمک کی طرح کھاجاتے ہیں ۔

 

اندرونی تنقید اور منفی خود گفتگو: Internal Criticism and Negative Self-Talk

عادتاً منفی خود گفتگو اور تنقیدی اندرونی مکالمہ آہستہ آہستہ خود اعتمادی کو کم کر سکتا ہے۔

 زندگی کی تبدیلیاں :Life Transitions or Changes

 زندگی کی اہم تبدیلیاں، جیسے طلاق، نقل مکانی، ریٹائرمنٹ،یاپھر کوئی اور ایسا احساس جو معمول کی زندگی کا حصہ تھا مگر ہم نے طاری کرلیاتو یہ سب بھی اعتماد کی دیوار کو دھیرے دھیرے سوراخ کرتے چلے جاتے ہیں ۔

 میں نے جتنی بھی آپ سے باتیں کیں ۔یقین کریں یہ فقط کتابی باتیں نہیں تھیں بلکہ ان کا خارج میں وجود بھی ہے جس کے پاس اعتماد نہیں وہ بھلاکا ذہن ،کمال کا علم ،کمال کا ہنر رکھنے کے باوجود قید تنہائی کاٹ رہاہوتاہے ۔ابھی اُٹھیں اور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بلند نعرہ لگائیں کہ میں اس کائنات کا اہم ترین انسان ہوں ۔مجھ سے بڑے بڑے کام وابستہ ہیں ۔اور مجھے قدرت نے کمال مہارتوں سے نوازہے ۔امید ہے کہ ہماری یہ کوشش آپ کی زندگی میں اللہ کے فضل سے ضرور بارش کا پہلاقطرہ ثابت ہوگی ۔ہمیں اپنے لیے مفید پائیں تو ہماری مغفرت کی دعاکردیجئے گا ۔اللہ ہم سب کا حامی ہو۔

قارئین:آخر میں کچھ خود اعتمادی کے حوالے سے بڑوں اور پراعتماد لوگوں سے سے سنی پڑھی باتیں بھی پیش کررہاہوں کیا 

معلوم اس سے آپ کو فائدہ ہوجائے ۔خود اعتمادی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان  تجاویز پر عمل کریں

جب بھی ہم اپنے خوف کا سامنا کرتے ہیں، ہماری طاقت، ہمت اور اعتماد بڑھتا ہے۔جب آپ خود پر یقین رکھتے ہیں، تو آپ کو دوسروں کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔مہارت اور اعتماد ایک ناقابل تردید فوج ہے۔

ایسا جنگجو جس کے پاس خود اعتمادی کی ڈھال ہو، وہ بغیر ہتھیار کے بھی جنگ جیت سکتا ہے۔سب سے خوبصورت چیز جو آپ پہن سکتے ہیں وہ اعتماد ہے۔خود اعتمادی کی گردش پیسے کی گردش سے بہتر ہے۔

خود اعتمادی کا عمر سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کی نشوونما تجربے کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اور خود اعتمادی دو ایسی خوبیاں ہیں، جو ہر کامیاب انسان میں پائی جاتی ہیں۔خود اعتمادی کا راستہ براہ راست کامیابی کی منزل تک لے جاتا ہے۔

خود اعتمادی وہ طاقت ہے جو ناممکن کو ممکن بناتی ہے۔جو شخص بہادری اور حماقت کے درمیان کی پتلی لکیر کو جانچتا ہے وہ خود اعتمادی حاصل کر لیتا ہے۔

اگر آپ کی خود اعتمادی آپ کے ساتھ ہے تو آپ کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے کسی کے ساتھ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔مہارت اور خود اعتمادی سے بھرپور شخص ایک ناقابل شکست جنگجو کی طرح ہوتا ہے۔

 رکھنے والے شخص کے لیے پہلا انعام خود اعتمادی ہے اور دوسرا انعام اسے کامیابی کی صورت میں ملتا ہے۔آپ کی خود اعتمادی اس وقت عروج پر پہنچ جاتی ہے جب آپ خود کو زبان سے نہیں بلکہ کام سے ثابت کرتے ہیں۔

نوٹ:جدید آن لائن کورسسز کے لیے آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ہمیں اپنے لیے ہمیشہ نفع بخش اور ہمدرد پائیں گے ۔

رابطہ نمبر:03462914283

وٹس ایپ:03112268353

 

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا