نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دعوتِ اسلامی حقیقت یا افسانہ

 

 


دعوتِ اسلامی حقیقت یاافسانہ

ہم نے ایک جملہ ’’کامیابی وہ جو سرچڑھ کربولے ‘‘سنا اور پڑھا تھالیکن اس کا عملی مظاہر ہ نہ دیکھاتھا۔

پھر ہم نے شعور سنبھالا تو معاشرے میں ایکٹیویٹیز دیکھتے رہے ۔کبھی کلاس میں پوزیشن کو کامیابی کا سہرا دیا۔کبھی کسی گیم میں اچھی کارکردگی کوتو کبھی کسی اور دادتحسین کو کامیابی کے نام سے موسوم کیا۔لیکن اس وقت تک یہ جملے کھٹکتاتھا کہ وہ کیسی کامیابی ہوگی جو سرچڑھ کر بولے گی ۔لیکن پھر ہم نے ایک وقت دیکھا کہ  

ہمارے علاقے ،ہمارے شہر ،ہمارے ملک اور انٹرنیٹ کے آنے کے بعد دنیا بھرمیں   میں نے اسلام کا علم اُٹھائے ایک مخصوص لبادے و وضع کے لوگوں کو تیزی کے ساتھ پھیلتے دیکھا۔اس تیزی سے کے  یوں کہہ لیں کے 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ۔

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟کیرئیر کونسلنگ

خیر بات طویل ہوجائے گی ۔اپنے قرب و جوار میں عمومی فرد سے خصوصی افراد کو بھی اس تحریک اس سسٹم کی جانب مائل و گھائل دیکھا۔تو نقد و نظر ،تنقید کے چشمے  پہن کر میں نے اس جانب تعقب کیا تو  مجھے وہ جملہ ’’کامیابی وہ جو سرچڑھ کر بولے سمجھ آگیا۔آئیے ۔ذراوہ طبقہ جس کی شب ورز کی محنت کی وجہ سے انھیں دنیا میں پزیرائی ملی ان کے بارے میں قلم اُٹھالیاجائے

قارئین:مجھے میرے رفقا میں کہاجاتاہے کہ تم بہت سادہ انسان ہو۔بہت سیدھے ہو۔لیکن کیا کروں مجھے بھولے پن میں مزا آتاہے ۔اس میں منافقت اور بناوٹ سے بندہ کچھ آزاد رہتاہے ۔میں اسی بھولے پن میں یہ سب معلومات آپ کو پیش کررہاہوں ۔مجھ پر رب کا یہ کرم ہے کہ میں حق کو قبول کرنے اور سامنے والی کی کامیابی پر اس کو تحسین و داد دینے میں بڑا سخی ہوں ۔چلتے ہیں ۔آج کی تحریر کے مقصد کی جانب ۔یہ کون لوگ ہیں کیاکیا؟اس میں کس حد تک انسانیت کا بھلاتھا؟

فلسطین کی در بھری داستان 

قارئین:ایک بات عرض کرتاچلوں کہ  جوبیان کیااپنی جانب سے پوری دیانت  سے پیش کرنی کی کوشش کی۔کہیں بشری تقاضا پائیں تو بڑے ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے معافی عطافرمادیجئے گا۔یہ تحریر واللہ بااللہ تااللہ خالصتا اللہ کی رضا کی خاطر تحریر کی ہےاس میں میری کوئی ذاتی منفعت وابستہ نہیں ۔

صرف اس نیت سے کہ جو بھلائی کا کام کرے اگر اس کے ساتھ تعاون نہ تو کم از کم اس کے کام کا اقرار تو کرہی لیاجائے ،

ایجوکیشن سیکٹر

کوئی ملک یا معاشرہ کسی بھی قسم کی ترقی کا تصور ہی نہیں کرسکتا جب تک وہ معاشرے یا قوم علم کی اہمیت کو تسلیم نہیں کرلیتے یہی وجہ ہے ۔اس دنیا میں علم کی بدولت انسان نے سمندر کی تہوں ،فضاوں کی بلندیوں کو چھولیا۔کائنات کے رازوں کو جانا!!



چنانچہ علم  کی ضرورت و اہمیت کوسمجھتے ہوئے ۔دعوتِ اسلامی نے اپنا قدم بڑھایا ۔نسلوں کی تعمیر اور مستقبل کی پیش بندی کے لیے  بچوں  کی تعلیم و تربیت    کو ناگزیر جانااور اس کے لیے مدارس المدینہ جیسے ادارے کی بنیاد رکھی ۔۔جو اپنے معیار تعلیم اور جداگانہ انداز تربیت کی وجہ ملک اور پھر بیرون ملک تک پھیلتاچلاگیا۔

فوڈ سیفٹی سیکھیں زندگیاں بچائیں ۔بہترین مضمون کلک کریں 


Update رہنا اور upgrade کرنے کی کوشش کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔چنانچہ عصرحاضر  کے تقاضوں سے ہم آہنگ رہ کرeducation سیکٹر میں اپنا مثبت کردار اداکرنے کے لیے دعوتِ اسلامی نے  Darul Madina کی بنیاد رکھی ۔

اسلام بہترین ضابطہ حیات ہے ۔چنانچہ  بنیادی ایجوکیشن کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کو عملی میدان میں موثراور ملک و ملت کے لیے  اپنارول اداکرنے کے لیے افرادی قوت کی تیار ی کے لیے’’ جامعات المدینہ‘‘  کا contribution ایک تاریخ ساز اقدام ثابت ہوا۔جس نے معاشرے کو بہترین مبلغ ،اساتذہ ،محقق  اور  اخلاقی تربیت یافتہ شہری فراہم کئیے ۔جن کے کردار اور مثبت اور موثر  کاوشیں ان کے شعبہ جات میں واضح نظرآتی ہیں ۔ایک مدنی جب انجینئیر ،ڈاکٹر،ٹیچنگ ،آئی ٹی ،تجارت وغیر ہ جس بھی فیلڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں اپنے انداز تربیت اور دینی شعور کی بدولت اپنے ایک Soft Image رکھتے ہیں جس کی بنیاد پر ادارے یا شعبے ان پر اعتماد کرتے ہیں  اور ان کے کام و کردار کو سراہتے بھی ہیں ۔جوکہ سائٹی کے لیے بہت بڑاContribution  ہے ۔

انسان مجرم کیوں بنتاہے ۔سائنسی و طبی وجوہات جانیں کلک کریں



  Health

صحت دنیا کی ان بیش قیمت نعمتوں میں شمار ہوتی ہے کہ جب تک یہ قائم ہے ہمیں اس کی قدر نہیں ہوتی،مگر جوں ہی یہ ہمارا ساتھ چھوڑدیتی ہے،ہمیں فوراً احساس ہوتا ہے کہ یہ ہماری دیگر تمام نعمتوں سے کہیں زیادہ قیمتی تھی۔جب ہم مختلف پیچیدہ امراض اور مہلک بیماریوں کو دیکھتے ہیں تواحساس ہوتاہے کہ ہماری صحت اللہ کا خصوصی کرم اوربہت بڑااحسان ہے۔


Health Care کے میدان میں بھی دعوتِ اسلامی  نے اللہ کی رضااور اس کے بندوں کی بھلائی و خیرخواہی کے لیے  شفاخانے ،اور اب اسپتال اور ملک بھر میں ڈسپنریاں بنانے کا بیڑابھی اُٹھارکھاہے۔جوکہ کسی معاشرے و ملک  ایک اہم کردار ہے ۔اس شعبہ کو بھی دعوتِ اسلامی اعلی معیارات کے ساتھ خوب نبھارہی ہے ۔نیزدنیا بھر میں اپنے شعبہ جات سے وابستہ افراد کو میڈیکل کی سہولت فراہم کرنے کا سہرا بھی دعوت اسلامی کو جاتاہے ۔


اسپیشل پرسنز

سننے ،دیکھنے ،بولنے کی قوت سے محروم افراد معاشرے کا قابل رحم طبقہ ہے ۔اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو یہ ملک و ریاست کے لیے بوجھ شمارکئے جاتے ہیں ۔لیکن اس موقع پر بنی دعوتِ اسلامی ایک امید کی کرن ۔اور ان معذاور افراد کو دعوت اسلامی نے سینے سے لگایا اوران کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے نیز ان کی تربیت  کے لیے  پروفیشنل انداز میں نظام تعلیم کو جدید عصری ضرورتوں کے مطابق مرتب کیا۔


جس کی بدولت معاشرے کے یہ افراد اب اس ملک و قوم کے لیے اب اپنا مثبت اور موثر اداکریں گے ۔یہ معاشرے پر بوجھ نہیں بلکہ اللہ کے فضل سے یہ افراد بھی بنیں گے اس سوسائٹی کے لیے ایک بہترین شہری ۔آج معاشرے میں اسپیشل پرسنز ایک تعداد دعوتِ اسلامی کے اس شعبہ سے مسفید ہوکر اپنے  محتاجی سے نکل کر خوداری اور خوداعتمادی کی زندگی بسر کررہی ہے ۔

رسول اللہ کی سفارتکاری

تحقیق کی دنیا میں دعوت اسلامی


انسان سیکھنے اور سمجھنے کا ذوق فطری رکھتاہے ،کیوں اورکیسے جیسے لفظوں کی کھوج شروع کی اور کائنات کے کئی راز اور پوشیدہ پہلو کھول کر رکھ دیے۔

جس کی وجہ سے آج دنیا ایسی شکل میں موجودہے۔اسی لئے خوب سے خوب تر وہ آج بھی سرگرداں ہے۔

 اور ہمیشہ رہے گا۔چنانچہ تحقیق کے اس سفر میں قلمی دیانت کا بھرپور اور خوبصورت استعمال کرتے ہوئے۔


 دعوتِ اسلامی نے بہترین علمی و تحقیقی ورثہ پیش کیا۔یعنی   ہمہ جہت موضوعات پر علمی کام کیا۔ناصرف کام کیا 

بلکہ آج کے افواہوں و غیر ہ تصدیق شدہ معلومات کے شور میں تصدیق شدہ مفید اور بہترین معلومات کا علمی و تحقیق کام کیاجس کی مثال دعوتِ اسلامی کے المدینہ ریسرچ سنٹر کی کوششیں ہیں۔

ان کتب و رسائل کی بدولت لاکھوں لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی وہ تائب ہوکر اچھے اور مہذب معاشرے کی تسشکیل

 میں اپنا کردار اداکررہے ہیں ۔دعوتِ اسلامی کی تحریر و تصنیف  کردہ کتب ریسرچر کے ہاں ایک حجت رکھتی ہیں 

بلکہ لوگ Research Source کے طورپر استعمال کرتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں دین اسلام کے پیغام کو عام کرنے کے لیے دنیا کی کئی زبانوں میں لٹریچر کی فراہمی دعوتِ اسلامی کا طرہ امتیاز ہے ۔

جس کو پڑھ کر دنیا میں ہزاروں کی زندگیوں میں   آئی تبدیلیاں اور انھیں نصیب ہوئی ہدایت کی راہ۔



ٹیکنالوجی


انسانی زندگی ترقی کی منزلیں   طے کرتی ہوئی آج جس دور سے گزر رہی ہے اسے ہم سائبر ایج   (Cyber Age)   کا نام دے سکتے ہیں  ۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے انسانی معاشرے میں   ترسیل و ابلاغ   کے ایک بالکل نئے باب کا اضافہ ہوا۔


چنانچہ عصر حاضر کی سہولیات سے مستفید ہونے اور مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دعوتِ اسلامی نے آئی ٹی کے شعبہ میں کمال مہارت اور اللہ کے بندوں تک آسان ذرائع سے علم دین پہنچانے اور انھیں آسانیاں پیداکیں۔

دعوتِ اسلامی کے شعبہ آئی ٹی اور اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ نے مل کر اسپیشل پرسنز موبائل ایپ بنائی ہےجس میں نابینا افراد کے لئے آڈیو لائبریری کا آپشن،گونگے بہروں کے لئےمدنی قاعدہ ،قرآن پاک، حج و عمرہ، نماز، وضو اور غسل کا طریقہ اشاروں کی زبان میں،عمومی(نارمل) اسلامی بھائیوں کے لئے اشاروں کی زبان کا کورس ا ور اینی میٹیڈسائن لینگوئج کورس (Animated Sign Language Course) کاآپشن موجودہے۔


بہترین فیچرپر مشتمل مقبول عام دعوتِ اسلامی کی ویب ،اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کی آفیشل ویب سائیٹ ،حج و عمرہ کی ایپس ،سمت قبلہ کے لیےapp ،بچوں  کی تعلیم و تربیت کے لیے عمدہ موبائل ایپس ،بہترین کتب  کے علمی ذخیرہ پر مشتمل المدینہ لائیبریری کے علاوہ  شعبہ آئی ٹی کی  انسان دوست کوششیں قابل تعریف ہیں ۔یعنی اب دین سیکھنے کے ذرائع کو بہت ہی آسان بنادیاگیاہے جس سے کروڑوں لوگ مستفید ہورہے ہیں ۔اس قابل تعریف اور بھلائی کے کام کا credit دعوتِ اسلامی  کو جاتاہے ۔ جس کی بدولت کروڑوں انسان علم دین سے مستفیدہورہے ہیں ۔

قیام امن میں دعوت اسلامی کا کردار

امن و امان کے قیام اور قانون کی بالادستی  کے لیے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں  تعاون اگر ایسا نہ ہوتو معاشرہ فتنہ و فساد، شر اور ظلم کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔



چنانچہ دنیا بھر میں دینی کاموں میں مصروف عمل دعوت ِ اسلامی نے اسلام کا ڈھنکا بجایا۔بنی نوع اِنسان کے لیے باہمی اُخوت و محبت، تعظیم و تکریم اور باہمی عدل و اِنصاف کے مزاج کو عام کیا۔جس کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے ایک بہترین رائے عامہ قائم ہوئی ۔

https://dawateislami.net/

جس کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک کی جانب سے دعوتِ اسلامی کے امنعامہ کے لیے کردار کو سراہاگیا۔جس سے مسلمانوں کا ایک خوبصورت امیج دوسروں کی نظروں پیداہوااور یوں دنیا بھر میں اللہ اور اللہ کے رسول کے دین کا پیغام پھیلتاچلاجارہاہے ۔


اسلامک کلچر کی پروموشن

انسان کی شہری اور اجتماعی زندگی کے لیے تہذیب ایک لازمی چیز ہے کیونکہ پیدا ہونے والے بچے کو پروان چڑھنے کے لیے ماں کی گود ضروری ہے، نیز اس کی نشونما کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ بھی ضروری ہے،اجتماعی زندگی انسان کی فطرت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے ۔

دعوتِ اسلامی نے اسلامی وضع قطع اور طرز زندگی اور تہذیب اسلام کو بہت عمدہ انداز میں دنیابھر میں پھیلانے کا بیڑااُٹھایا۔سنت رسول ﷺ کے ذریعے  عمامہ  شریف ،سنت کے مطابق لباس اور اسلامی وضع داری کو بہترین انداز میں دنیا میں عام کیا۔جس کی بہترین مثال دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی کے مبلغین اور عاشقانِ رسول کے لباس  و وضع  اور طرز زندگی سے اظہار ہوتاہے ۔


یوں نیکی دعوت کرتے ہوئے اسلامی کلچر کی پروموشن کا کریڈٹ بھی دعوت اسلامی کو جاتاہے ۔جس کلچر کو سینکڑوں نہیں لاکھوں نے اپنالیا۔

انسان کی شہری اور اجتماعی زندگی کے لیے تہذیب ایک لازمی چیز ہے کیونکہ پیدا ہونے والے بچے کو پروان چڑھنے کے لیے ماں کی گود ضروری ہے، نیز اس کی نشونما کے لیے خاندان، معاشرہ اور تعلیم گاہ بھی ضروری ہے،اجتماعی زندگی انسان کی فطرت ہے اور تہذیب اس کی اساس ہے ۔

دعوتِ اسلامی نے اسلامی وضع قطع اور طرز زندگی اور تہذیب اسلام کو بہت عمدہ انداز میں دنیابھر میں پھیلانے کا بیڑااُٹھایا۔سنت رسول ﷺ کے ذریعے  عمامہ  شریف ،سنت کے مطابق لباس اور اسلامی وضع داری کو بہترین انداز میں دنیا میں عام کیا۔جس کی بہترین مثال دنیا بھر میں دعوتِ اسلامی کے مبلغین اور عاشقانِ رسول کے لباس  و وضع  اور طرز زندگی سے اظہار ہوتاہے ۔یوں نیکی دعوت کرتے ہوئے اسلامی کلچر کی پروموشن کا کریڈٹ بھی دعوت اسلامی کو جاتاہے ۔جس کلچر کو سینکڑوں نہیں لاکھوں نے اپنالیا۔اس دور میں جہاں اسلام فوبیا کی باتیں چل رہی ہیں ایسے میں گھر گھر سنتوں کا پرچار کسی انقلابی اقدام سے کم نہیں ۔میں نے  تو دعوت اسلامی کو ہر نظریہ سے جانچ پرکھ کی  مجھے اس تحریک  کو اپنے عزائم اور مشن میں بہت پختہ پایا۔

فلاح و بہبود


ایف جی آر ایف دور کی ضرورت ہے۔اس کا وسیع نیٹ ورک تیرہ سے زائد ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور انسانی وسائل کی وسیع دستیابی اسے دیگر تنظیموں میں ممتاز بناتی ہے۔

ڈیزاسٹر مینجمنٹ اور خوراک!!وبائی امراض  میں پیش بندی !! ماحولیات   کی بہتری کے لیے کاوش!!معذور بچوں کا علاج!! تعلیم اور ہنر!!FGRFکے کاموں کا منہ بولتاثبوت ہے ۔جب بھی اس ملک پر مشکل گھڑی آئی دعوتِ اسلامی کے ویلفئیر کے  Departنے بھرپور انداز میں اللہ کے بندوں کی خدمت کےلیے اپنا کردار اداکیا۔

  سفارتکاری

دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے ممالک کے درمیان تعلقات عامہ کے لیے سفارتکاری ایک اہم کردار ہے ۔چنانچہ مملکت خداداد پاکستان کے متعلق بہتر رائے عامہ اور دنیا بھر میں اپنے وطن کے لیے اپنے کردار گفتار اور عملی اقدامات کی وجہ سے دعوتِ اسلامی نے اپنا عمدہ کردار اداکیا۔

دنیا بھر میں سفر کرنے والے مبلغین دعوت اسلامی نے اسلام اور پیغام اسلام کو اس حکمت اور دانائی کے ساتھ پیش کیا کہ جس سے مسلمانوں کے متعلق ایک بہتر رائے اور ان کے کردار کو دنیا نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔

گویادعوت اسلامی نے اسلام کے بہترین سفیر ہونے کا حق بھی اداکیا اور یوں دنیا کے کونے کونے تک تعلیمات دین کو عام کیا۔

جس سے عالمی سطح پر مسملمانوں کا soft imageاجاگر ہوا۔


:قارئین
ہم نے جو دیکھا سمجھا اور محسوس کیا آپ پیاروں کے لیے  اس معلومات کو پیش کیا۔ہماری پیش کردہ معلومات آپ کے لیے فائدہ مند ثابت ہواور اپنی زندگی میں اس سے بہتری پائیں توہماری مغفرت کی دعا کردیجئے گا۔ 

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

نورہومیو کلینک یونیورسٹی روڈ  پرانی سبزی کراچی

03462914283

دوٹھللہ نکیال آزادکشمیر 

تبصرے

  1. السلام علیکم ورحمةالله وبركاته
    ماشاءاللہ ڈاکٹر صاحب دعوت اسلامی اور اس کے شعبہ جات اور اس کی خدمات کا جس بہترین انداز میں آپ نے تعارف پیش کیا ہے، یہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔
    اللہ کریم آپ کے علم وعمل وقلم میں مزید برکتیں عطا فرمائے، دعوت اسلامی کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، آپ جیسے نیک لوگوں کے صدقے میری مغفرت فرمائے۔ آمین

    جواب دیںحذف کریں
  2. وعلیکم السلام
    قابل قدر لائق صد تکریم برادرم مکرم
    میں آپکی تحسین پر ممنون و مشکور ہوں۔مزید آپ میرے اصلاح فرماتے رہاکریں تاکہ طفل مکتبہ کو سلیقہ آجائے

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا