نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارتکاری اور سفیر



رسولِ  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سفارتکاری  اور سفیر

خارجہ پالیسی

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

مجھے اپنی قسمت پر رشک آتاہے مجھے اپنی نصیبوں پر بہت مان ہے ۔مجھے اپنی نسبت اور تعلق پر بہت مسرت ہے کیوں کہ میں نبی کریم ﷺ کا امتی ہوں ۔یہ اعزاز بھی کائنات کا عظیم اعزاز ہے یہ شرف بھی کائنات کا عظیم شرف ہے یہ نسبت بھی کائنات کی عظیم شرف ہے ۔میرے نبی ﷺ نے مجھے اس کائنات میں مجھے کبھی لاروارث نہیں چھوڑا۔مجھے جب جب زندگی کے غموں نے گھیرا دکھوں و تکلیفوں نے گھیراتنگ کیا ۔تو اس امید نے میرے سب غم غلط کردئیے کہ جنت میں پیارے آقاﷺ کے دیدار کے جلوے بھی تو نصیب ہوں گے ۔آقاﷺ سے من کی سب باتیں کریں گے ۔میرا موضوع تو میرے آقاﷺ کی عظیم سفارتکاری ہے ۔لیکن بس جب آقاﷺ کی بات کرتاہوں تو میں زمانے وقت اور موضوع کی تمام قیدوں سے آزاد ہوجاتاہے ہو بس من کرتا ہے اپنے پیارے پیاے میٹھے میٹھے سوہنے سوہنے آقاﷺ کی باتیں کرتاچلاجاوں ۔میرے آقاﷺ نے دنیا کی عظیم خارجہ پالیسی کرکے دکھائی ۔



قارئین :

میرے آقاﷺ نے  مدینہ ریاست کےمختصر سے عرصہ میں  دنیا بھر میں اپنی موثر ،مستند اور عظیم سفارتکاری کی بدولت رہتی انسانیت کے لیے عظیم ماڈل پیش کردیا ۔آج دنیا سفارتکاری کی بات کرتی ہے ۔بلکہ خارجہ پالیسی پر ہی ممالک کی ترقی و عروج کا انحصار بن چکا ہے میرے پیارے پیارے پیارے بہت ہی پیارے آقاﷺ نے بہترین سفارتکاری کے بہترین ماڈلز چھوڑے جو آج بھی انسانوں کے لیے بہتری  رہبری ہے ۔

آئیے پیارے آقاﷺ کے سفیرون کے بارے میں جانتے ہیں :

اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف صحابہ کرام کو دیگر اقوام وممالک کی طرف دین اسلام کی اشاعت کے لیے اپنے خطوط دے کر بھیجا۔ ان سفراء صحابہ کے نام اور جن کی طرف ان کو بھیجا گیا ان کا   مختصر ذکر آپ قارئین کی معلومات کے لیے پیش کررہاہوں ۔


نوٹ:خوداعتمادی کے بارے میں مضمون پڑھنے کے لیے کلک کریں 
https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/09/blog-post_27.html

ہم جب تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں سفارتکاری کی دنیا میں  ہمیں بہت پیارے اور بڑے بڑے نام ملتے ہیں ان میںتاریخ اسلام کے سب سے پہلے سفیر حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے جنہیں 5 ہجری میں حبشہ کی طرف سفیر بناکر بھیجا گیا۔ حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اوّل کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا۔ نجاشی اول نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب پڑھ کر اسلام قبول کر لیا۔


سبحان اللہ !!!

حضرت عمرو بن امیہ کنانی رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی ثانی کو 6 ہجری کے اَواخر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط دیا۔ اس نے خط لے کر اپنی آنکھوں پر رکھا، اپنے تخت سے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں اسلام کو قبول کیا۔

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو قیصر روم ہرقل کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ ہرقل نے آپ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے واضح انداز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفات و خصائل ذکر فرمائے۔ ہرقل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کی اور اسلام لانے کا ارادہ کیا مگراس کے حواریوں نے اس کی رائے سے اتفاق نہ کیا ہرقل نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو کہا:

اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوںگا تو ضرور ان کی زیارت کا شرف حاصل کرتا اور اگر میں ان کی بارگاہ میں ہوتا تو ان کے قدموں کو دھونے کی سعادت حاصل کرتا۔


(صحیح بخاری)

پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خط میں لکھا کہ ’’بے شک میں مسلمان ہوں لیکن میں اپنے لوگوں کی وجہ سے مغلوب ہوں اور واضح طور پر اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتا‘‘۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے تحائف بھی بھیجے۔ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ اس کا خط لے کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خط پڑھنے کے بعد فرمایا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا ہے، وہ مسلمان نہیں ہوا بلکہ اپنی نصرانیت پر قائم ہے۔

(، الروض الانف، ج4، ص: 300)

سبحان اللہ !!اتنی موثر سفارتکاری شاید ہی کائنات میں اس کی کوئی نظری ملتی ہو۔

(سفیر:)

حضرت عبد اللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ ابرویز بن ہرمز فارس کے بادشاہ کی طرف 7 ہجری کے اوائل میں دعوت نامہ لے کر گئے۔ اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خط مبارک کو پھاڑ دیا۔نعوذ بااللہ !!یہ اس کی بدبختی تھی  کہ وہ محروم رہا۔بدبختی اس کا مقدر بنی ۔

(سفیر:)

حضرت حاطب بن ابی بَلتعہ رضی اللہ عنہ کو مصر کے بادشاہ مُقَوقَس کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں روانہ کیا گیا۔

(سفیر:)

حضرت شجاع بن وہب رضی اللہ عنہ کو حارث بن شمر الغسانی (جو شام میں غسّانہ کا بادشاہ تھا) کی طرف روانہ کیا گیا لیکن اس نے اسلام قبول نہ کیا۔

(سفیر:)

حضرت سلیط بن عمرو العامری رضی اللہ عنہ کو 6 ہجری کے اواخر میںیمامہ کے بادشاہ ہوذہ بن علی الحنفی کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔

(سفیر:)

حضرت عمرو بن العاصی القُرشی رضی اللہ عنہ کو عُمان کے بادشاہ جُلُندی کے دوبیٹوں جیفر اور عبد کی طرف 8ہجری کے اواخر میں مکتوب دے کر بھیجا گیا۔ یہ دونوں مشرف بااسلام ہوئے۔

(سفیر:)

حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ بحرین کے بادشاہ منذر بن ساوی العبدی کی طرف 6 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا۔ یہ بھی مشرف بااسلام ہوا۔

(سفیر:)

حضرت الحارث بن عُمیر الازدی رضی اللہ عنہ کو 8 ہجری میں شام میں بُصری کے بادشاہ کی طرف بھیجا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس سفیر کو بُصری کے بادشاہ کے پاس پہنچے سے پہلے ہی شرحبیل بن عمر غسانی نے مؤتہ کے مقام پر شہید کر دیا۔ ان کے قتل کی وجہ سے ہی اس مقام پر غزوہ مؤتہ ہوا۔

(سفیر:)

9 ہجری میں حضرت مہاجر بن ابی امیہ رضی اللہ عنہ کو یمن کے بادشاہ حارث بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا۔ اس نے اسلام قبول کر لیا۔

(سفیر:)

حضرت جریر بن عبد اللہ البجلی رضی اللہ عنہ کو یمن کے رؤساء ذو الکلاع اور ذو عمرو کی طرف 11 ہجری کو روانہ کیا گیا۔ یہ دونوں بھی مشرف با اسلام ہوئے۔

(سفیر:)

9 ہجری میں حضرت معاذ بن جبل الانصاری رضی اللہ عنہ کو حارث، شرحبیل، نُعیم بن عبد کلال کی طرف بھیجا گیا اور یہ تینوں مشرف بااسلام ہوئے۔

(سفیر:)

حضرت ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ کو الحارث بن عبد کُلال کے بھائیوں کی طرف 9 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بااسلام ہوئے۔ ۔

(سفیر:)

حضرت عمرو بن حزم الانصاری رضی اللہ عنہ کو نجران کے ابن کعب اور الحارث کے بیٹوں کے طرف 10 ہجری کے اواخر میں بھیجا گیا اور یہ سب مشرف بااسلام ہوئے۔

(سفیر:)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پندرہ سفراء میں سے ایک کو راستے میں شہید کر دیا گیا۔ بادشاہوں میں سے ایک نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکتوب پھاڑ دیا۔ فارس کے بادشاہ ابرویز بن ہرمز اور شام میں غسانہ کا بادشاہ الحارث بن شمر الغسانی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو قبول نہ کیا اور سختی اور دھمکی کے ساتھ اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جن ملوک ورؤساء کی طرف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سفراء کو بھیجا، اُن میں سے چار اپنے اپنے دین پر قائم رہے۔ اس کے علاوہ باقی سب نے اور اُن کے پیروکاروں کی اکثریت نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسی وجہ سے ان علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگئی تھی۔

یعنی آج جس سفارتکاری پر لاکھوں کروڑوں روپے صرف کیے جاتے ہیں انھیں میرے آقاﷺ نے کس بہترین مہارت کے ساتھ    اس کا موثر استعمال کیا۔جو آج کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے ۔

قارئین:آئیے میں آپکو سفارتکاری کی ایک ڈیمو کے طور پر حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی گفتگو و معاملات بتاتاہوں آپ خود دیکھئے گاکہ سفیر اور سفارت کاری کہتے کسے ہیں :

جب حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ قیصر روم کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لے کر گئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اُسے فرمایا:

’’اے قیصر! مجھے اس ذات نے بھیجا ہے جو تم سے بہتر ہے، جسے اس ذات نے پوری کائنات کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے جو تمام لوگوں سے بہتر ہیں۔ سو تم میری بات عاجزی سے سنو، پھر اس کا جواب مخلصانہ مشورے سے دو۔ کیونکہ اگر تم عاجزی نہیں کرو گے، سمجھو گے نہیں اور اگر تم نے مخلصانہ مشورہ نہ لیا تو تم انصاف نہیں کر پاؤ گے‘‘۔

قیصر نے کہا: لاؤ کیا ہے ؟ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’کیا آپ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں اس ذات کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کے لیے مسیح علیہ السلام نماز پڑھتے تھے، اور میں تمہیں اس ذات کی طرف بلاتا ہوں جس نے اس وقت بھی آسمانوں اور زمین کے نظام کی تدبیر فرمائی جب مسیح علیہ السلام ابھی اپنی ماں کے شکم میں تھے اور میں تمہیں اس نبی آخر الزمان کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کی آمد کی بشارت موسی علیہ السلام نے اور ان کے بعد عیسیٰ علیہ السلام نے دی اور تمہارے پاس اس کے متعلق جو علم موجود ہے وہ اس سلسلہ میں کافی ہے اور اس خبر پر یقین کے لیے اطمینان بخش ہے۔ اگر تم نے اس دعوت کو قبول کر لیا تو تمہارے لیے دنیا اور آخرت میں سرفرازی ہے ورنہ آخرت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گی اور دنیا کا حصہ تم پالو گے۔ اور جان لو کہ تمہارا ایک مالک وپروردگار ہے جو ظالموں، جابروں کو تباہ وبرباد کردیتا ہے اور عظیم نعمتوں کو بدل دیتا ہے‘‘۔

قیصر نے مکتوبِ گرامی کو لے کر اپنی آنکھوں اور سر پر رکھا اس کے بعد اسے چوما اور پھر کہا:بخدا! میں ہر خط کو پڑھتا ہوں اور ہر عالم سے سوال کرتا ہوں، میں نے اس مکتوب میں خیر ہی خیر دیکھی ہے۔ آپ مجھے مہلت دو تاکہ میں غور کروں کہ مسیح علیہ السلام کس کے لیے نماز پڑھتے تھے۔ مجھے یہ بات ناپسند ہے کہ میں آج تمہیں ایسا جواب دوں کہ کل اس سے بہتر جواب دے سکوں اور میں اپنے سابقہ جواب کی وجہ سے نقصان پاؤں اور فائدہ نہ پاؤں۔ تم ٹھہرو یہاں تک کہ میں کسی فیصلہ پر پہنچ سکوں‘‘۔وہ اسی حال میں رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاظاہری وصال ہوگیا۔

( الروض الانف، 4: 388)

قارئین:آج ہمارا یہ حال ہے کہ دنیا میں نہ ہماری اور نہ ہمارے موقف کی کوئی پزیرائی ہے اس کی ایک بڑی وجہ ناکام اور کمزور سفارتکاری ہے ۔آپ نے قیصر جیسے طاقتور شخص کے ساتھ  کی جانے والی گفگو پڑھی ۔جس میں غیرت بھی تھی ،اپنے موقف سے دیانت بھی اور احساس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اس وطن اس ملک اس فرد کی نفسیات تہذیب ،تمدن زبان سے واقفیت بھی تھی ۔جبکہ ہمارے ہاں ایک لکھی لکھائی تقریر پر ہماری سفارتکاری کا انحصار ہوتا ہے جس میں نہ جانے کتنی فنی تیکنییکی کمزوریاں ہوتی ہیں ۔

قارئین :اصل مقصد اس مضمون کا یہ تھا کہ آپ پیاروں کو بتاسکوں کہ آپ مسلمان ہونے پر فخر کیا کریں ۔فوراَ دوسروں سے متاثر ہوکر اپنے بارے میں شش و پنج کا شکار نہ ہواکریں ۔مسلمان اس کائنات کی عظیم خلقت ہے ۔آپ اپنے گھر سے اسلام کی سفارتکاری شروع کیجئے ۔جہاں جب اور جیسے کی بنیاد پر اسلام کا پیغام پہنچائیے ۔آپ کی یہ کوشش دنیا میں اسلام کی اشاعت کا ذریعہ اور آخرت میں آپ کے لیے نجات کا باعث ضرور بنے گی ۔اللہ پاک ہم سب کا نگہبان ہو۔

نوٹ:ہماراعزم علم کو عام کریں ۔اس کی ایک کوشش آن لائن کورس بھی ہیں ۔آپ ہم سے مختلف ٹاپک پر آن لائن کورس کے لیے رابطہ کرسکتے ہیں ۔نیز طبی مشوروں کے لیے بھی ہماری خدمات آپ کے لیے حاضر ہیں ۔

رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ نمبر:

03112268353 

...........................

خود اعتمادی سے متعلق پڑھنے کے لیے یہ لنک کلنک کریں :

https://www.blogger.com/blog/post/edit/633175920604818639/2301418827378706399?hl=en

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا