نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انسان مجرم کیوں بنتا ہے ؟

انسان مجرم کیوں بنتا ہے ؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش

(نکیال آزادکشمیر)

ہم آئے دن اپنے اردگرد یہ خبریں سنتے ہیں فلاں نے فلاں کو قتل کردیا۔فلاں نے فلاں کو مالی نقصان پہنچایا۔فلاں کی زمین پر قبضہ کرلیا۔فلاں کا مال غصب کرلیا۔یہ سب آوازیں ہمیں بہت بے چین کرتی ہیں ۔دل و دماغ کا سکون اُٹھ جاتاہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ کبھی ہم نے غور کیا کہ آخر کیاہواایک ہنستامسکراتا ایک روٹین کی زندگی گزارنے والا شخص اتنا بڑامجرم کیوں بن جاتاہے ؟مجرمانہ سرگرمیوں کی وجوہات انفرادی حالات، سماجی عوامل، نفسیاتی عوامل اور معاشی حالات کے لحاظ سے وسیع پیمانے پر مختلف ہو سکتی ہیں۔ یہاں کچھ عام عوامل اور نظریات ہیں جو یہ بتانے میں مدد کرتے ہیں کہ لوگ جرم کیوں کرتے ہیں ہم اس معاشرہ کُش مزاج کے کو سمجھ سکیں گے ۔یوں تو مجرم بننے یا جرم کو اختیار کرنے کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ہم اپنے مضمون میں آپ کو چند اہم اور کامن وجوہات آپ کے مطالعہ کی نظر کرتے ہیں ۔پوری توجہ سے پڑھئے گاتاکہ آپ سمجھ کر کسی کو مجرم بننے سے بچاسکیں ۔

شور آلوگی ہے مضمون پڑھیں 

اقتصادی عوامل: Economic Factors

 غربت اور معاشی عدم مساوات افراد کو جرائم کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ لوگ غیر قانونی سرگرمیوں جیسے چوری، منشیات کی اسمگلنگ، یا دھوکہ دہی کی طرف مائل ہوسکتے ہیں جب ان کے پاس جائز معاشی مواقع نہ ہوں۔


نفسیاتی عوامل: Psychological Factors:
کچھ افراد کو نفسیاتی مسائل یا شخصیت کی خرابی ہوسکتی ہے جو مجرمانہ رویے میں حصہ لیتے  ہیں۔
 بے حسی، ہمدردی کی کمی، یا صدمے کی تاریخ جیسے عوامل مجرمانہ سرگرمیوں کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں۔
انسان اس قبیح فعل کی جانب بڑھ سکتاہے ۔

سماجی ماحول: Social Environment
وہ ماحول جس میں ایک شخص کی پرورش ہوتی ہے اور وہ زندگی گزارتا ہے 
اس کے مجرمانہ رویے میں ملوث ہونے کے امکان پر اہم اثر ڈال سکتا ہے۔ 
جرائم کی نمائش، ساتھیوں کا دباؤ، اور مثبت رول ماڈل کی کمی مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ ڈال سکتی ہے۔
شور کتنا نقصان دہ ہے :کلک کریں پڑھیں :
https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/09/noise.html


کچھ جرم نئے اور مرے نام لگا دو
باقی ہے اگر کوئی تو الزام لگا دو
منشیا ت کا استعمال: Substance Abuse
 منشیات اور الکحل کی لت مجرمانہ رویے کا باعث بن سکتی ہے
 کیونکہ افراد اپنی لت کو پورا کرنے   کے لیے کسی بھی حد سے گزرسکتاہے۔
 

موقع: Opportunity
 بعض اوقات، جرائم کا ارتکاب صرف اس لیے کیا جاتا ہے کہ موقع خود کو پیش کرتا ہے۔
 مثال کے طور پر، کوئی فرد کسی چیز کو چوری کر سکتا ہے
 اگر وہ اسے دیکھے کہ اسے بغیر توجہ کے چھوڑ دیا گیا ہے۔اور وہ اسے آسانی سے چوری کرلے گا
تو اس موقع کو وہ چانس سمجھ کر مجرم بننے کی پہلی سیڑھی چڑھ جاتاہے 
یوں وقت کے ساتھ ساتھ بڑامجرم بھی بن جاتاہے ۔
 

ثقافتی اور معاشرتی اصول: Cultural and Societal Norms:
 ثقافتی اور معاشرتی عوامل اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔جواِسے مجرم بناسکتے ہیں ۔
مثلاکسی علاقے میں رائفل سے فائر کلچر ہے
 اب اس حوصلہ افزائی کی وجہ سے وہ شخص طاقت و زور گھمنڈ میں اس کا منفی استعمال بھی کرسکتاہے 


تعلیم کی کمی: Lack of Education:
 مجرمانہ رویے کے نتائج کے بارے میں تعلیم اور بیداری کی کمی مجرمانہ کارروائیوں میں حصہ ڈال سکتی ہے۔ 
تعلیم اور آگاہی کے پروگرام جرائم کی شرح کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔
 

دماغی صحت کے مسائل: Mental Health Issues
 ایسے افراد جن کا علاج نہیں کیا جاتا ذہنی صحت کے مسائل مجرمانہ رویے کا زیادہ شکار ہو سکتے ہیں۔
 مثال کے طور پر، شدید ڈپریشن کا سامنا کرنے والا مایوسی میں جاکر کسی بھی جرم کا ارتکاب کرسکتاہے 
سیاسی اور نظریاتی محرکات: Political and Ideological Motivations:
 کچھ افراد سیاسی یا نظریاتی وجوہات کی بنا پر جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں، جیسے دہشت گردی یا سول نافرمانی۔


مایوسی: Desperation
انتہائی صورتوں میں، لوگ سراسر مایوسی سے جرائم کا ارتکاب کر سکتے ہیں
، جیسے کہ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کھانا چوری کرنا یا اپنے دفاع میں تشدد کا سہارا لینا۔وغیرہ


قارئین :
یہ چند اہم اور کامن وجوہات آپ کے سامنے پیش کیں ۔
اس کے علاوہ اور بہت سے پہلو ہیں جن کی بناپر کوئی شخص منفی رویے اور مجرمانہ حرکتوں کا مرتکب ہوجاتاہے ۔
لیکن ہم نے یہ جو معلومات آپ کے سامنے پیش کی اپنے اردگرد ان علامات کو دیکھیں
 تومثبت انداز میں جرم کو کم کرنے اور لوگوں کو مجرم بننے سے بچانے کے لیے اپنے حصے کی کوشش ضرورکریں ۔
یہ سب لوگ بہت قیمتی ہیں ۔یہ دنیا بہت پیاری ہے ۔
اس میں امن و سکون اور محبت کے لیے اپنے حصے کی کوشش ضرور کریں ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ:ویڈیوز کی صورت میں بہترین معلومات کے لیے یوٹیوب پر Dr Zahoor Danishچینل وزٹ کیجئے ۔

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا