نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شور کی آلودگی

roznama dunya


شور کی آلودگی

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش
(
DHMS,RHMP)

جب ہم چھوٹے تھے تو گھر میں بہن بھائی کھیل رہے ہوتے تھے تو بڑھے اس شور شرابے پر ڈانٹتے تھے کہ شور مت کرو۔لیکن بڑھے ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ واقعی شور کوئی اچھی چیز تو نہیں ۔

شور میں تو نہ جانے کیسے کیسے مسائل چھپے ہوئے ہیں ۔ہم نے سوچا جہاں اتنے موضوعات پر قارئین کے لیے تحریر کرتے ہیں وہاں اس اہم اور قابل توجہ موضوع جس کو ہم خاطر میں نہیں لاتے اس پر بات کی جائے اور اس شور کے ضمن میں بیماریوں اور مسائل کے خطرے سے بھی آگاہ کیاجائے۔کان اللہ پاک کی کتنی بڑی نعمت ہیں جن کے ذریعے ہم اذان ،نعت بیانات اور وعظ و نصیحت کی باتیں سنتے ہیں کائنات کے رازوں کی سریلی آوازیں بھی سنتے ہیں ۔مگر جب کوئی جب کوئی آواز ناگوار گزرے یا اتنی زیادہ ہو کہ زندگی کو متاثر کرنے لگے تو ہم اسے شور کا نام دیتے ہیں۔ شور کی آلودگی ہمارے کس حد تک نقصان دہ ہے؟

شور کے خلاف عالمی دن منایا جاتاہے نیز شور کیا ہے اور ہمیں کیسے متاثر کرتاہے اس پر بھی عالمی سطح پر بات کی جاتی ہے تاکہ شورکی آلودگی سے بچاجاسکے

قارئین :پہلے یہ تو تعین کرلیتے ہیں کہ شور کہتے کسے ہیں ؟

ائیرپورٹ اس کے ملحقہ علاقوں میں پایا جاتا ہے اور تیسرا صنعتی شور“-
“ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو سماعت دی ہے یا سننے کی طاقت عطا کی ہے 

وہ 86 decibel تک کا شور برداشت کر سکتی ہے- لیکن جب شور اس حد سے بڑھنا شروع ہوتا ہے تو سماعت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آواز دماغ تک پہنچ جاتی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے مضر اثرات بھی پڑنا شروع ہوجاتے ہیں“-

“ 86 decibel میں تمام اقسام کے شور شامل ہوتے ہیں٬ چاہے 

وہ ٹریفک کا شور ہو٬ جہازوں کا شور ہو یا پھر کارخانوں میں چلنے والی مشینوں کا“-شور کی آلودگی اسباب ، نتائج ، حل یہ سب جاننا ہماری ذمہ داری ہے ۔

قارئین:
“ جو بھی شخص روزانہ 8 گھنٹے تک اور مسلسل کم سے کم 6 ماہ تک اس شور میں موجود رہے گا اس کی سماعت میں آہستہ آہستہ کمی واقع ہونا شروع ہوجائے گی- اور اس کمی کا احساس بھی اسے بالکل نہیں ہوگا“-
ہمیں ڈاکٹرامتیاز صاحت کا ایک مضمون بہت اچھا لگاجس میں انھوں نے لکھاکہ: 

“ اس کے علاوہ شور کے مضر اثرات ہمارے جسم پر بھی مرتب ہوتے ہیں-

 تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ شور کی وجہ سے ہماری نیند میں خلل واقع ہوتا ہے 

اور ہم صحیح طرح سو نہیں پاتے“-“ شور ہمارے خون پر بھی اثر انداز ہوتا ہے

جس کا نتیجہ بعض اوقات ہارٹ اٹیک کی صورت میں نکلتا ہے“-“

اسی طرح جب انسان رات کو شور کے باعث اپنی نیند مکمل نہیں کرپائے گا

تو صبح اپنی ملازمت بھی درست انداز میں نہیں کر پائے گا اور اس کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی“-“ جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں اس کی علامت یہ ہے کہ ایسے انسان کو اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے جبکہ یہ آواز ماحول میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ آہستہ یہ آواز مستقل ہوجاتی ہے“-“ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت ہوتی ہے جبکہ بعض افراد کو اونچا سنائی دینا لگتا ہے-

اونچا سنائی دینے کے عمل کو سب سے پہلے گھر والے نوٹ کرتے ہیں“-“ اس کو یوں سمجھ لیں کہ اگر ایک شخص ٹریفک پولیس کا اہلکار یا کسی فیکٹری میں ملازم ہے

اور مشینوں پر کام کرتا ہے تو وہ جب گھر میں داخل ہوگا اور گھر والے ٹی وی دیکھ رہے ہوں گے تو ملازم یا اہلکار ریموٹ اٹھا کر ٹی وی کی آواز کو مزید اونچا کردے گا-

 کیونکہ اسے اتنی آواز سننے میں دشواری کا سامنا ہوگا جتنی آواز میں باقی گھر والے ٹی وی دیکھ رہے تھے“-
قارئین:

“ فیکٹری کے شور کو کم کروانے کے لیے ماحولیاتی اداروں کو چاہیے کہ وقتاً فوقتاً فیکٹریوں کا دورہ کرتے رہیں اور انہیں شور کو کم کرنے کے لیے پابند کریں کہ وہ شور کو 86 decibel سے کم کریں

 تاکہ سماعت کو نقصان نہ پہنچیں“-

“ ٹریفک کے شور سے بھی حفاظت ممکن ہے- اس کے لیے غیر ضروری ہارن نہ بجائیں

 اور ساتھ ہی پریشر ہارن٬ شور مچانے والے رکشے کے انجن اور بغیر سائلنسر کی موٹر سائیکلوں پر کنٹرول کیا جائے- اس کے جیسے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اوور ہیڈ برج اور انڈر گراؤنڈ پاس بنائے جارہے ہیں

اس سے بھی شور میں کمی واقع ہوتی ہے کیونکہ اس طرح ٹریفک دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے“-
“ اس کے علاوہ جس طرح دنیا کی ترقی یافتہ ممالک یا شنگھائی میں سڑکوں پر شور کی پیمائش کرنے والے

 میٹر نصب کیے گئے ہیں جس پر شور کے مقررہ سے حد بڑھتے ہی وہاں کی ٹریفک پولیس حرکت میں آتی ہے اور ٹریفک کو تقسیم کر کے متبادل راستوں پر ڈال دیتی ہے ایسے ہی سسٹم یہاں بھی نصب کیے جائے-

کیونکہ ٹریفک کو تقسیم کرنے سے شور میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے“-

“ اسی طرح اگر فیکٹری میں شور کم کرنا ممکن نہ ہو تو ورکرز کوHEARING PROTECTION DEVICES مہیا کی جائیں جنہیں پہن کر ورکروں کی سماعت محفوظ رہ سکے اور یہی ڈیوائسز ائیرپورٹ کے رن وے پر موجود اہلکاروں کو بھی مہیا کی جائیں

 اور کوشش کی جائے کہ ائیرپورٹ رہائشی علاقوں سے دور بنائے جائیں“

ہم نے کوشش کی کہ شور کو سائنس کی زبان میں آپ تک پہنچاسکوں ۔

مگر اس میں لفظوں اور معلومات کی پریزنٹیشن آسان سے آسان تربناسکوں ۔

خیر یہ تو آپ کی رائے ہی سے اندازہ ہوگا کہ آپکو ہماری کوشش کیسی لگی ۔

ڈاکٹرظہوراحمددانش آپ کے لیے ایسے مفید پروجیکٹس کرتارہے گا۔

آئیے ذرا اس شورشرابے دیگر ڈس ایڈوانٹجز بھی جانتے ہیں :

سماعت کو نقصان: Hearing Damage:

 شور کی اونچی سطح پر طویل عرصے تک نمائش کی وجہ سے سماعت میں کمی یا خرابی ہوسکتی ہے۔ یہ فوری اور طویل مدتی دونوں صحت کو متاثر کر سکتا ہے، افراد کے معیار زندگی کو کم کر سکتا ہے۔

 تناؤ اور اضطراب: Stress and Anxiety

 شور کی آلودگی دائمی تناؤ اور اضطراب کا ایک ذریعہ ہوسکتی ہے۔

 اونچی آواز اور خلل ڈالنے والی آوازوں کا مستقل نمائش جسم میں تناؤ کے ہارمون کی سطح کو بڑھا سکتا ہے

 ، جس سے صحت کے مختلف مسائل جیسے ہائی بلڈ پریشر اور قلبی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں.

 ما حولیاتی آلودگی شور  بھی بڑے مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے ۔یہ بھی قابل غو ر ایشوہے۔ 

نیند میں خلل: Sleep Disturbances

 شور کی آلودگی نیند کے انداز میں خلل ڈال سکتی ہے اور بے خوابی کا باعث بن سکتی ہے۔

 اس کا مجموعی صحت اور علمی فعل پر اثر پڑ سکتا ہے، فیصلہ سازی میں خلل پڑ سکتا ہے

، اور حادثات کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔

 کم پیداواری صلاحیت: Reduced Productivity:

 کام یا مطالعہ کے ماحول میں، ضرورت سے زیادہ شور ارتکاز، پیداواری صلاحیت اور کارکردگی کو کم کر سکتا

 ہے۔ یہ کھلے منصوبے کے دفاتر اور تعلیمی اداروں میں خاص طور پر متعلقہ ہے۔

آواز کی آلودگی کے اسباب اور نتائج علم خود بھی حاصل کریں اور دوسروں کوبھی ضرور آگاہ کریں

 مواصلات میں مداخلت: Interference with Communication

 ضرورت سے زیادہ شور مؤثر طریقے سے بات چیت کرنا مشکل بناتا ہے۔

یہ ذاتی تعلقات اور کام سے متعلق تعاملات کو متاثر کر سکتا ہے،

جس سے غلط فہمیاں اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔

جنگلی حیات پر اثر: Impact on Wildlife

 شور کی آلودگی جنگلی حیات کو ان کے قدرتی رہائش گاہوں اور مواصلات میں خلل ڈال کر نقصان پہنچا سکتی ہے۔

سیکھنے پر منفی اثر: اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں شور کی آلودگی سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن سکتی ہے

۔ طلبا معلومات کو فوکس کرنے اور برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر سکتے ہیں

، جس کی وجہ سے تعلیمی کارکردگی کم ہوتی ہے۔

 
صحت کے مسائل:
 Health Issues

 صوتی آلودگی کے دائمی نمائش کا تعلق صحت کے مختلف مسائل سے ہے،

جن میں قلبی امراض، نیند کی خرابی، اور ذہنی صحت کے مسائل

جیسے ڈپریشن اور اضطراب کا خطرہ بڑھتا ہے۔ 

معیار زندگی: Quality of Life

 شور کی آلودگی متاثرہ علاقوں میں زندگی کے مجموعی معیار کو کم کر سکتی ہے

۔ یہ لوگوں کو باہر وقت گزارنے، تفریحی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے،

 یا محض اپنے گھروں میں آرام کرنے سے روک سکتا ہے۔

 

ماحولیاتی نقصان: Environmental Damage

 شور کی آلودگی ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے،

جیسے کہ ماحولیاتی نظام میں خلل ڈالنا اور جانوروں کے رویے کو متاثر کرنا۔

یہ مٹی کے کٹاؤ اور قدرتی مناظر کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

 قانونی اور ریگولیٹری چیلنجز: Legal and Regulatory Challenges:

 شور کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے اکثر ضوابط کے نفاذ اور نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے

، جو حکومتوں اور میونسپلٹیوں کے لیے مشکل اور مہنگے ہو سکتے ہیں۔ 

تخفیف کے اخراجات: Costs of Mitigation:

 صوتی آلودگی کو کم کرنے کا عمل، جیسے کہ شور کی رکاوٹیں بنانا یا

 ساؤنڈ پروفنگ کے اقدامات کو لاگو کرنا، مہنگا ہو سکتا ہے،

اور یہ اخراجات اکثر ٹیکس دہندگان یا افراد کو منتقل کیے جاتے ہیں۔

قارئین:

زندگی کے اس بے ہنگام شور میں میں آپ کے لیے شور کے بارے میں اتنی ریسرچ پیش کرسکتاتھا

لیکن مجھے امید ہے کہ یہ معلومات آپ کوکفایت کرجائے گی ۔

شور نہ کریں اور نہ شور ہونے دیں۔کول موڈاور کول ماحول میں زندگی گزاریں

 ۔ہم نے پوری محنت اور اسٹڈی کے بعد اپنا مضمون آپ قارئین کے ذوق مطالعہ کے لیے پیش کیا۔

اپنی رائے ضرور دیجئے گا۔

ویڈیوز کی صورت میں ہمارارسیرچ ورک وزٹ کرنے کے لیے یوٹیوب

 پر آپ Dr Zahoor Danishچینل وزٹ کیجئے ۔

..............................................................................................

https://www.blogger.com/blog/post/edit/633175920604818639/5132705260014629536?hl=en

آپ کیرئیر کونسلنگ ،طبی مشورہ یاپھر اسٹیڈی کے حوالے سے کوئی مشورہ کرنا چاہتے ہیں ۔

ہم آپ کے لیے حاضر ہیں ۔

نوٹ:

آپ ہمیں اس نمبر:03462914283اور اس وٹس ایپ نمبر:03112268353پر رابطہ کرسکتے ہیں ۔۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا