نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

جنوری, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

How to become a professional ?ہم پروفیشنل کیسے بنیں ؟

  ہ م پروفیشنل کیسے بنیں ؟ حصہ اول How to become a professional  اس کائنات پرغور کریں تو ہمیں انسان ایک شاہکار دکھائی دیتاہے ۔اللہ رب العزت نے تخلیق انسان کے وقت فرشتوں کے سامنے انسان کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا:وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً .(البقره، 2: 30) ’ اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں‘‘۔ یہاں انسان کے لئے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ انسان کے صحیح مقام و مرتبہ کو جاننے  کے لئے اس لفظ کے مفہوم کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ ’’جانشین‘‘ یا ’’نائب‘‘ سے کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر انسان کی امتیازی حیثیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ تمام ذی روح اور غیر ذی روح مخلوقات میں سے انسان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو تعلق ہے وہ کائنات کی کسی اور چیز کے ساتھ نہیں۔ چنانچہ قرآن مجید کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی تخلیق کا شاہکار قرار دیتے ہوئے فرمایا: وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ. وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ. وَه

میرے نبی ﷺ ماہر معاشیات ،سماجیات و نفسیات

  میرے نبی ﷺ ماہر معاشیات ،سماجیات و نفسیات اک مومن کے لیے اک کی امیدوں کا محور اس کے خوابوں کی تعبیر ،اس کے دکھوں کا مداوا،اس کے عصیاں شعاریوں کی تلافی ،اس کے علم و دانش کے راستے الغرض زندگی کی تمام تر بہاریں شریعت و شارع سے منسوب ہیں ۔جس نے شریعت کا پاس کیا ۔شارع علیہ السلام سے محبت کی۔کیوں کہ نبی سے محبت رب سے محبت ہے ۔ خیر میں اپنے موضوع کی جانب چلتا ہوں کہ میرے نبی علیہ السلام ایک ماہرنفسیاب ،اک ماہرِ سماجیات بھی تھے ۔جو فرمادیا ،ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی وہ حکمت بھرے کلمات اپنی تمام تر توانیوں کے ساتھ بنی نوع انسانیت کے لیے آج بھی اسی طرح نفع بخش ہیں جس طرح اس وقت تھے ۔آءیے ان حکیمانہ ،مدبرانہ ،مفکرانہ ،ادیبانہ اور رشدوہدایت کے عطر سے عطربار پیغامات سے پژمردہ قلوب کو منور کرتے ہیں ، عَن اَبِی ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ا لَایُلْدَغُ الْمُؤْمِنُ مِنْ حُجْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَیْنِ رَوَاہُ مُسْلِم وَالْبُخَارِی]مسلم حدیث رقم:٧٤٩٨ ، بخاری حدیث رقم:٦١٣٣ ، ابوداؤد حدیث رقم:٤٨٦٢ ، ابن ماجۃ حدیث رقم:٣٩٨٢ ، مسند احمد حدیث رقم:٨٩٥٠[۔ ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ر

وقت کا جادوThe magic of Time

وقت کا جادو The magic of  Time بہت ہی قیمتی ،بہت اہم چیز۔جس کے گرد زندگی گھومتی پھرتی ہے ۔جس سے جڑے ہیں زندگی کی سانسوں کا تسلسل۔جس نے اس قیمتی شے سے لاپرواہی برتی آسمان دنیا نے ایسوں کو پریشان اور نادم دیکھا۔جی قارئین :ہم بات کررہے ہیں وقت کی ۔ یہ وہ تیر ہے جو ترکش سے نکلاتو پھر پلٹنے کو نہیں ۔کسی شاعر نے کیا خوب کہدیا وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر عادت اس کی بھی آدمی سی ہے کسی دانا نے وقت کے متعلق کتنی خوبصورت بات کی ۔ جو شخص اپنے وقت میں سے ایک گھنٹا ضائع کرنے کی جرات کر لیتا ہے، اس نے زندگی کی قدر و قیمت پہچانی نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دانشور نے کی عمدہ بات کہی ۔تم دیر کر سکتے ہو، وقت دیر نہیں کرے گا۔ وقت کی اہمیت کو کتنے خوبصورت پیرائے میں کسی نے پیش کیا ۔عقل حیران رہ جاتی ہے ۔کہا کہ : زندگی دانا کے لیے خواب، نادان کے لیے کھیل، امیر کے لیے طربیہ اور غریب کے لیے المیہ ہے۔ قارئین :اب ذرا قدرت کے نظام کو دیکھ کر اوقات کار اور وقت کی اہمیت جان لیجئے ۔ سورج وقت مقررہ پر ہی ہمیشہ طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ موسم اپنے اپنے وقت پر آتے ہیں۔ درخت اور پودے مقررہ اوقات پر پھل لاتے

بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟حصہ پنجم

  بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟حصہ پنجم سمجھائیں کہ سمجھانا فائدہ دیتاہے   بچوں کی تربیت اور ان کے حقوق  کے حوالے سے  والدین کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ ان کی صحت  کا خیال رکھیں، انہیں ان چیزوں  سے دور رکھیں جو تکلیف و اذیت اور بیماری کا باعث ہوں بچوں کی تربیت میں شفقت و نرمی  اور پیار و محبت کا پہلو غالب رہنا چاہئے۔ حسب موقع بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق، ان کے ساتھ تفریح اور انہیں کھیل کود کے مواقع فراہم کرنا بچوں کاحق ہے۔ رسول اللہ  کی زندگی میں بچوں کے ساتھ طرز ِمعاشرت، ان کے ساتھ شفقت و محبت اور  ملاطفت  کے حوالے سے بھی بہترین نمونے سیرت میں محفوظ ہیں۔ خادم رسولؐ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے بال بچوں میں کسی شخص کو  رسول اللہ سے زیادہ شفیق نہیں  دیکھا(صحیح مسلم)۔ اگر کبھی نرمی سے کام نہ چلے تو  بچوں کی اصلاح کیلئے ہلکی سرزنش، ڈانٹ  ڈپٹ اور معمولی مار کی بھی گنجائش ہے لیکن یہ اسلوب بہرحال آخری صورت میں اختیار کرنا چاہئے۔ چوں کی اصلاح و تربیت کا زیادہ مفید طریقہ جو رسول اللہ   اور سلف صالحین کے اسوہ سے معلوم ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ حتی الامکان نرمی، شفقت اور پیار و محبت سے کام لیا جائے۔  تر

بچوں کی تربیت کیسے کی جائے ؟چہارم

بچوں کی تربیت کیسے کی جائے ؟   ماہرین کہتے ہیں کہ بچہ شخصیت سازی کا عمل پیدائش سے پہلے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں  ہوتا ہے۔ ماں کیا سوچتی ہے، کیا کھاتی ہے اور کیا کرتی ہے۔ یہ سب باتیں براہ راست بچے کی شخصیت کو بناتی اور بگاڑتی ہیں اسی لیے کہا جات اہے کہ جو خاتون   امید سے ہوں ان کو فکر و ٹینشن اور منفی خیالات و افکار سے بچ کر    خوش رہنا  چاہیے جب کہ دینی افکار کے حامل افراد اس دوران خاتون کو تلاوت قرآن عبادات اور دعاؤں کی تاکید کرتے  ہیں یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بچے کی شخصیت سازی کا عمل نو سال تک مکمل ہو جاتا ہے۔ اس عمر تک اسے جو بنتا ہے،  جو عادات و اطوار بنانے ہیں وہ اپنا چکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اصلا جو کچھ سیکھنا ہوتا ہے وہ سماج، معاشرے اور خاندان کے افراد اور ان کے رویوں اور روایات سے سیکھ چکا ہوتا ہے۔ گویا شخصیت سازی اور ذہنی و فکری تربیت کے اعتبار سے یہ مرحلہ انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس عمر میں سیکھا گیا علم ہو یا ادب وہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی تائید حضور پاک اس قول سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ نے بچوں کو نوعمری میں ہی دین و

بچوں کی تربیت کیسے کریں؟حصہ سوم

بچوں کی تربیت کیسے کریں؟حصہ سوم کسی بھی معاشرے میں عموماً فرد کی تربیت کے تین بنیادی ذرائع ہوتے ہیں جو بچپن سے ادھیڑ عمری تک گاہے بگاہے فرد کی تربیت شعوری یا غیر شعوری طور پر کرتے ہیں صحت مند معاشرہ جب ہی تشکیل پاتا ہے جب تینوں ذرائع اپنی ذمہ داری کامل طریقے سے ادا کریں مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں تینوں ذرائع ہی اپنی اہم ذمہ داری سے غافل نظر آتے ہیں تینوں ذرائع مندرجہ ذیل ہیں 1 گھر کے بڑے (خصوصاً ماں باپ ننھیال اور ددھیال کے بزرگ ) 2 معاشرے کے با اثر افراد بشمول اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس کے اساتذہ کرام 3 ریاست معاشرے کے یہ کردار جن دیانت سے اپنا فریضہ اداکریں گے تو امید ہے کہ تعلیم و تربیت کرنا آسان اور معاشرے کو درست سمت کی جانب گامزن کرنا ممکن ہوجائے گا۔ اولاد اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے  ۔پہلے اس اہم نعمت کی قدر کا ادراک تو کرلیں تاکہ پھر ہمارے اندر یہ جذبہ بیدارہو کہ اتنی اہم چیز کو حالات کے رحم و کرم پر کسی طور پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔چنانچہ ذراکلام الہی کی زبانی اولاد کی قیمت و قدر جان لیتے ہیں۔اس کے بعد میں تربیت پر بات کرتاہوں ۔ قارئین:        نیک اولاد اللہ تب