بچوں کی تربیت کیسے کی جائے ؟
ماہرین کہتے ہیں کہ بچہ شخصیت سازی کا عمل پیدائش سے پہلے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں
ہوتا ہے۔ ماں کیا سوچتی ہے، کیا کھاتی ہے اور کیا کرتی ہے۔ یہ سب باتیں براہ راست بچے کی شخصیت کو بناتی اور بگاڑتی ہیں اسی لیے کہا جات اہے کہ جو خاتون امید سے ہوں ان کو فکر و ٹینشن اور منفی خیالات و افکار سے بچ کر خوش رہنا
چاہیے جب کہ دینی افکار کے حامل افراد اس دوران خاتون کو تلاوت قرآن عبادات اور دعاؤں کی تاکید کرتے
ہیں
یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بچے کی شخصیت سازی کا عمل نو سال تک مکمل ہو جاتا ہے۔ اس عمر تک اسے جو بنتا ہے،
جو عادات و اطوار بنانے ہیں وہ اپنا چکا ہوتا
ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اصلا جو کچھ سیکھنا ہوتا ہے وہ سماج، معاشرے اور
خاندان کے افراد اور ان کے رویوں اور روایات سے سیکھ چکا ہوتا ہے۔ گویا شخصیت سازی
اور ذہنی و فکری تربیت کے اعتبار سے یہ مرحلہ انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔
اس عمر میں سیکھا گیا علم ہو یا ادب وہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی
تائید حضور پاک اس قول سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ نے بچوں کو نوعمری میں ہی دین و
ادب سکھانے تلقین فرماتی اور اسے والدین کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے بہترین تحفہ
قرار دیا۔
اگرچہ بچوں کی تربیت اور تعلیم ہر دور میں ایک حساس اور اہم مشکلات کی حامل رہی ہے۔ مگر موجودہ دور میں اس میں کچھ خاص قسم کے مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ اب سے کوئی بیس پچیس سال پہلے کی طرف لوٹیں تو انسانی زندگی موجودہ وقت کے مقابلے بڑی سپاٹ، نظر آئے گی۔ کمپیوٹر آچکا تھا مگر کم ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ موبائل فون، دستیاب نہیں تھا۔ لینڈ لائن فون صرف شہروں میں یا بڑے دولت مندوں کے بیان ہوتے تھے۔ ایک تصویر کھنچوانے کے لیے کتنی محنت کرنی پڑتی تھی اور آج ہر بچہ اور بڑا موبائل فون لیے پوری دنیا سے رابطے میں ہے۔ آپ کے ہاتھ میں چھوٹا سا ڈبہ نما آلہ، کمپیوٹر بھی ہے اور کیمرہ بھی، ٹی وی بھی ہے اور فون بھی اور اس کے علاوہ نہ معلوم کیا کیا ہے اور اس کی حیثیت اس وقت یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کے ذہن و دماغ کو اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔ اس کی پکڑ رشتوں ناطوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے آج کی نسل پر، بس یہی مسئلہ سب سے اہم ہے اس دور کا جو بچوں کی تعلیم و تربیت کے راستے میں بہت بڑا پتھر ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی صورت میں آج کے والدین کے سامنے ایک بڑا تعلیمی و تربیتی چیلنج کھڑا ہے، جس سے نبرد آزما ہونا آج کے والدین کے لیے بڑا دشوار عمل ہے۔
اس
دور میں جب بچے بولنا سیکھنے سے پہلے موبائل فون سے کھیلنا سیکھ لیتے ہیں، ایک
عجیب نفسیات کے ساتھ وہ پروان چڑھتے ہیں۔ اس نفسیات میں، ضد، چڑچڑاپن
کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہوتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں۔ ابتدائی
دور کے مسائل میں ارتکاز کی کمی کے علاوہ صحت کے بھی کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن
آنکھوں کی کمزوری سر فہرست ہے اور اگر رویوں اور رجحانات کی بات کریں تو تو اس کے
نتیجے میں تشدد کا رجحان اور رویہ، مجرمانہ ذہنیت اور نشہ کی عادت اور خود کشی کا
سبب بننے والا ڈپریشن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
ہمارا مقصد اآپکو خوفزدہ کرنا نہیں ۔لیکن خالصتامذہبی مدنی چینل ہمیشہ آپ کی خیر خواہی کے لیے مستعد ہے ۔ہمار اعزم ہے آپ پیاروں تک درست ،مفید معلومات پہنچائی جائے اور زندگی میں جہاں جہاں پریشانی ہوتی ہیں یا ہم
پریشانیوں کو پالنے کا باعث بنتے ہیں
ان تمام factor کو بتائیں ۔
خیر والدین کو متوجہ رہنا ہے کہ ان کے بچے
اگر موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، تو اس پر کتنا وقت صرف کر رہے
ہیں۔ وہ ایک ضرورت کی تکمیل کرنے والے آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں یا اس کے
عادی کچھ اس طرح ہو رہے ہیں۔ تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا قیمتی وقت برباد ہو رہا
ہے اور اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ ان کی دینی، فکری اور جسمانی صلاحیتوں کو نقصان
پہنچے۔ لہٰذا اس کیفیت سے پہلے ہی خود بھی آگاہ رہیں اور بچوں کو بھی آگاہ
کردیں۔لیکن اس معاملے میں کمال مہارت اور متانت کے ساتھ بچوں کی تربیت بہت ضروری
ہے ۔زور زبردستی فی زمانہ تو شاید کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ۔انسان آزاد مزاج
،آزاد منش ہوچکاہے۔لہذا وقت ،زمانے اور حالات کو پیش نظر کھتے ہوئے احسن انداز میں
بچوں سے پیش آئیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں