نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کی تربیت کیسے کی جائے ؟چہارم



بچوں کی تربیت کیسے کی جائے ؟



 ماہرین کہتے ہیں کہ بچہ شخصیت سازی کا عمل پیدائش سے پہلے ہی سے شروع ہو جاتا ہے۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں

 ہوتا ہے۔ ماں کیا سوچتی ہے، کیا کھاتی ہے اور کیا کرتی ہے۔ یہ سب باتیں براہ راست بچے کی شخصیت کو بناتی اور بگاڑتی ہیں اسی لیے کہا جات اہے کہ جو خاتون  امید سے ہوں ان کو فکر و ٹینشن اور منفی خیالات و افکار سے بچ کر    خوش رہنا 

چاہیے جب کہ دینی افکار کے حامل افراد اس دوران خاتون کو تلاوت قرآن عبادات اور دعاؤں کی تاکید کرتے 

ہیں



یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ بچے کی شخصیت سازی کا عمل نو سال تک مکمل ہو جاتا ہے۔ اس عمر تک اسے جو بنتا ہے،

 جو عادات و اطوار بنانے ہیں وہ اپنا چکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اصلا جو کچھ سیکھنا ہوتا ہے وہ سماج، معاشرے اور خاندان کے افراد اور ان کے رویوں اور روایات سے سیکھ چکا ہوتا ہے۔ گویا شخصیت سازی اور ذہنی و فکری تربیت کے اعتبار سے یہ مرحلہ انتہائی اہم اور فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس عمر میں سیکھا گیا علم ہو یا ادب وہ زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کی تائید حضور پاک اس قول سے بھی ہوتی ہے، جس میں آپ نے بچوں کو نوعمری میں ہی دین و ادب سکھانے تلقین فرماتی اور اسے والدین کی طرف سے اولاد کے لیے سب سے بہترین تحفہ قرار دیا۔


اگرچہ بچوں کی تربیت اور تعلیم ہر دور میں ایک حساس اور اہم مشکلات کی حامل رہی ہے۔ مگر موجودہ دور میں اس میں کچھ خاص قسم کے مسائل کا اضافہ ہوا ہے۔ آپ اب سے کوئی بیس پچیس سال پہلے کی طرف لوٹیں تو انسانی زندگی موجودہ وقت کے مقابلے بڑی سپاٹ، نظر آئے گی۔ کمپیوٹر آچکا تھا مگر کم ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ موبائل فون، دستیاب نہیں تھا۔ لینڈ لائن فون صرف شہروں میں یا بڑے دولت مندوں کے بیان ہوتے تھے۔ ایک تصویر کھنچوانے کے لیے کتنی محنت کرنی پڑتی تھی اور آج ہر بچہ اور بڑا موبائل فون لیے پوری دنیا سے رابطے میں ہے۔ آپ کے ہاتھ میں چھوٹا سا ڈبہ نما آلہ، کمپیوٹر بھی ہے اور کیمرہ بھی، ٹی وی بھی ہے اور فون بھی اور اس کے علاوہ نہ معلوم کیا کیا ہے اور اس کی حیثیت اس وقت یہ ہے کہ اس نے ہر انسان کے ذہن و دماغ کو اپنے قبضہ میں لے رکھا ہے۔ اس کی پکڑ رشتوں ناطوں سے بھی زیادہ مضبوط ہے آج کی نسل پر، بس یہی مسئلہ سب سے اہم ہے اس دور کا جو بچوں کی تعلیم و تربیت کے راستے میں بہت بڑا پتھر ہے۔ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی صورت میں آج کے والدین کے سامنے ایک بڑا تعلیمی و تربیتی چیلنج کھڑا ہے، جس سے نبرد آزما ہونا آج کے والدین کے لیے بڑا دشوار عمل ہے۔


اس دور میں جب بچے بولنا سیکھنے سے پہلے موبائل فون سے کھیلنا سیکھ لیتے ہیں، ایک عجیب نفسیات کے ساتھ وہ پروان چڑھتے ہیں۔ اس نفسیات میں، ضد، چڑچڑاپن کے علاوہ بھی بے شمار مسائل ہوتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں۔ ابتدائی دور کے مسائل میں ارتکاز کی کمی کے علاوہ صحت کے بھی کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جن آنکھوں کی کمزوری سر فہرست ہے اور اگر رویوں اور رجحانات کی بات کریں تو تو اس کے نتیجے میں تشدد کا رجحان اور رویہ، مجرمانہ ذہنیت اور نشہ کی عادت اور خود کشی کا سبب بننے والا ڈپریشن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ہمارا مقصد اآپکو خوفزدہ کرنا نہیں ۔لیکن خالصتامذہبی مدنی چینل ہمیشہ آپ کی خیر خواہی کے لیے مستعد ہے ۔ہمار اعزم ہے آپ پیاروں تک درست ،مفید معلومات پہنچائی جائے اور زندگی میں جہاں جہاں پریشانی ہوتی ہیں یا ہم 

پریشانیوں کو پالنے کا باعث بنتے ہیں ان تمام factor کو بتائیں ۔



خیر والدین کو متوجہ رہنا ہے کہ ان کے بچے اگر موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں، تو اس پر کتنا وقت صرف کر رہے ہیں۔ وہ ایک ضرورت کی تکمیل کرنے والے آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں یا اس کے عادی کچھ اس طرح ہو رہے ہیں۔ تو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا قیمتی وقت برباد ہو رہا ہے اور اس بات کا قوی اندیشہ ہے کہ ان کی دینی، فکری اور جسمانی صلاحیتوں کو نقصان پہنچے۔ لہٰذا اس کیفیت سے پہلے ہی خود بھی آگاہ رہیں اور بچوں کو بھی آگاہ کردیں۔لیکن اس معاملے میں کمال مہارت اور متانت کے ساتھ بچوں کی تربیت بہت ضروری ہے ۔زور زبردستی فی زمانہ تو شاید کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں ۔انسان آزاد مزاج ،آزاد منش ہوچکاہے۔لہذا وقت ،زمانے اور حالات کو پیش نظر کھتے ہوئے احسن انداز میں بچوں سے پیش آئیں۔



مذید بہتر اور مفید معلومات کے لیے اآپ ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کرسکتے ہیں ۔Dr Zahoor Danish

https://www.youtube.com/watch?v=pxS94KiMDvE

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا