نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کی تربیت کیسے کریں؟حصہ سوم

بچوں کی تربیت کیسے کریں؟حصہ سوم


کسی بھی معاشرے میں عموماً فرد کی تربیت کے تین بنیادی ذرائع ہوتے ہیں جو بچپن سے ادھیڑ عمری تک گاہے بگاہے فرد کی تربیت شعوری یا غیر شعوری طور پر کرتے ہیں صحت مند معاشرہ جب ہی تشکیل پاتا ہے جب تینوں ذرائع اپنی ذمہ داری کامل طریقے سے ادا کریں مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں تینوں ذرائع ہی اپنی اہم ذمہ داری سے غافل نظر آتے ہیں تینوں ذرائع مندرجہ ذیل ہیں

1 گھر کے بڑے (خصوصاً ماں باپ ننھیال اور ددھیال کے بزرگ )
2 معاشرے کے با اثر افراد بشمول اسکول، کالج، یونیورسٹی اور مدارس کے اساتذہ کرام
3 ریاست



معاشرے کے یہ کردار جن دیانت سے اپنا فریضہ اداکریں گے تو امید ہے کہ تعلیم و تربیت کرنا آسان اور معاشرے کو درست سمت کی جانب گامزن کرنا ممکن ہوجائے گا۔


اولاد اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے  ۔پہلے اس اہم نعمت کی قدر کا ادراک تو کرلیں تاکہ پھر ہمارے اندر یہ جذبہ بیدارہو کہ اتنی اہم چیز کو حالات کے رحم و کرم پر کسی طور پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔چنانچہ ذراکلام الہی کی زبانی اولاد کی قیمت و قدر جان لیتے ہیں۔اس کے بعد میں تربیت پر بات کرتاہوں ۔

قارئین:

       نیک اولاد اللہ تبارک کا عظیم انعام ہے۔اولادِ صالح کے لئے اللہ کے پیارے نبی حضرت سیدنازکریا علی نبیّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دُعامانگی۔چنانچہ قراٰن پاک میں ہے :

 

 رَبِّ ہَبْ لِیۡ مِنۡ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ۚ اِنَّکَ سَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۸

 ترجمہ کنز الايمان:اے رب ميرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد بيشک تو ہی ہے دعا سننے والا۔(پ ۳،اٰل عمران:۳۸)

 خلیل اللہ حضرت سیدنا ابراہیم علی نبیّنا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی آنے والی نسلوں کو نیک بنانے کی یوں دعا مانگی :

 رَبِّ اجْعَلْنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَآءِ ﴿۴۰

ترجمہ کنز الايمان:اے ميرے رب مجھے نماز قائم کرنے والا رکھ اور کچھ ميری اولاد کو اے ہمارے رب اورمیری دعا سن لے۔(پ ۱۳،ابرہيم :۴۰)

     یہی وہ نیک اولاد ہے جو دنیا میں اپنے والدین کے لئے راحتِ جان اور آنکھوں کی ٹھنڈک کاسامان بنتی ہے ۔بچپن میں ان کے دل کا سرور ، جوانی میں آنکھوں کا نور اوروالدین کے بوڑھے ہوجانے پر ان کی خدمت کرکے ان کا سہارا بنتی ہے ۔ پھر جب یہ والدین دنیا سے گزرجاتے ہیں تویہ سعادت منداولاد اپنے والدین کے لئے بخشش کا سامان بنتی ہے جیساکہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا :''جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تين کاموں کے کہ ان کا سلسلہ جاری رہتا ہے:

    (۱)صدقہ جاريہ۔۔۔۔۔۔

    (۲)وہ علم جس سے فائدہ اٹھايا جائے۔۔۔۔۔۔

    (۳)نيک اولاد جو اس کے حق ميں دعائے خير کرے۔''

اولاد کتنا بڑااثاثہ ہے ۔جس کے لیے ہمارے پاس وقت ہی نہیں ۔جس کو توجہ کے لیے ہمارے پاس لمحے دینا بھی بار گزرتاہے ۔اور وہ ہمارے لیے دنیا و اآخرت میں کتنا بڑاذریعہ نجات و فلاح و کامرانی بن سکتی ہے ۔ہم نے کبھی سوچاہی نہیں ۔آگے بڑھتے ہیں ۔

    ایک اور مقام پر حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا:''جنت ميں آدمی کا درجہ بڑھا ديا جاتا ہے تووہ کہتا ہے : ''ميرے حق ميں يہ کس طرح ہوا؟''تو جواب ملتا ہے'' اس ليے کہ تمہارا بيٹا تمہارے ليے مغفرت طلب کرتا ہے ۔''

 (سنن ابن ماجہ ،کتاب الادب ،باب بر الوالدین ،الحدیث ۳۶۶۰،ج۴،ص۱۸۵)



قارئین :پہلے یہ بات تو ذہن نشین کرلیں کے جن کے لیے دل رات دولت ،کار ،بنگلہ کے لیے اآپ لگے ہوئے 

ہیں انکو اآپکی توجہ کی ضرورت ہے ۔


تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش 



https://www.youtube.com/watch?v=pxS94KiMDvE

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا