نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کو رشتوں داروں سے محبت سیکھائیں


بچوں کو رشتوں داروں سے محبت سیکھائیں

Teach children to love their relatives

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(ایم اے  عربی /اسلامیات ،ایم اے ماس کمیونیکیشن)

مصروف ترین دور میں کسی کے پاس دوسرے کے لیے وقت نہیں ایک نفسانفسی کا عالَم ہے ۔غرض اور مفاد کی دنیا میں انسان اس قدر  گُم ہوگیاہے کہ رشتے ناطے ہمدردیاں سب زوال پزیر ہوتی چلی جارہی ہیں والدین کے رویہ کی وجہ سے بچوں میں بھی رشتوں کے لیے محبت و عقیدت کا جذبہ بھی ماند پڑتاچلارہاہے جو کہ قابل تشویش امر ہے ایسے معاشرہ خود غرضی اور مفاد پرست ہوتاچلاجائے گا اور انجام کچھ اچھا نہیں ۔آئیے ہم آپ کو کچھ ٹپس دیتے ہیں جن کی مدد سے ہم اپنی اولادوں کو رشتوں سے مانوس کرسکتے ہیں ۔

ايك زبردست مضمون https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2024/06/blog-post_21.html

یادیں اور  کہانیاں

  • بچوں کو فیملی البم دکھائیں اور ہر فرد کے بارے میں بتائیں کہ وہ کون ہیں اور ان کا رشتہ کیا ہے۔
  • خاندان کے افراد کی کہانیوں کے ذریعے بچوں کو مختلف رشتے سمجھائیں۔اپنے رشتوں کے کرداروں کے بارے میں تسلی سے بٹھاکربتائیں ۔

رشتوں کے ناموں کا تعارف

  • نام اور تعلق:
  • بچوںکو مختلف رشتوں کے نام بتائیں جیسے کہ دادا، دادی، چاچا، ماموں وغیرہ، اور ساتھ میں ان کا تعلق بھی سمجھائیں۔
  • روزمرہ کی بات چیت
  • : روزمرہ کی بات چیت میں رشتوں کے نام استعمال کریں تاکہ بچے عادی ہو جائیں۔

شجرہ بتائیں

. فیملی تقریبات میں شرکت

  • گھر و فیملی کے پروگرامز
  • بچوں کو فیملی تقریبات میں لے جائیں اور انہیں ہر فرد سے متعارف کرائیں۔
  • تعارف کرائیں
  • : جب کوئی فیملی ممبر ملنے آئے، تو بچوں کو ان سے ملائیں اور ان کا رشتہ بتائیں۔

فیملی گیمز

  • گیمز:
  • ایسے گیمز کھیلیں جو رشتوں کی پہچان کرواتے ہوں جیسے کہ پزلز یا کارڈ گیمز۔

. اسکول کی سرگرمیاں

  • تعلیمی سرگرمیاں:
  • بچوں کے اسکول میں ایسی سرگرمیاں کروائیں جن میں رشتوں کی پہچان شامل ہو۔

کنٹریبیوشن

  • کردار ادا کرنا:
  • بچوں کو مختلف فیملی ممبرز کے کردار ادا کرنے دیں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ ہر رشتہ کیا ہوتا ہے۔یہ تمام طریقے بچوں کو نہ صرف رشتوں کی پہچان کروانے میں مدد کریں گے بلکہ انہیں خاندان کے افراد کے بارے میں مثبت احساس بھی دیں گے۔

قارئین:بچوں کو قریبی رشتوں سے جوڑنے کے لیے چند  مزید مفید طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان طریقوں سے بچے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کر سکیں گے اور خاندان کی اہمیت کو سمجھ سکیں گے۔

. باقاعدہ ملاقاتیں اور دورے

  • فیملی دورے
  • بچوں کو اپنے دادا، دادی، نانا، نانی، چاچا، ماما وغیرہ کے گھروں پر لے جائیں۔ باقاعدہ ملاقاتیں کریں۔
  • خاندانی تقریبات:
  • ہر موقع پر خاندان کی تقریبات میں شامل ہوں، جیسے کہ عید، سالگرہ، شادی بیاہ وغیرہ۔

مشترکہ سرگرمیاں

  • کھیل اور سرگرمیاں
  • : بچوں کے ساتھ مل کر کھیلیں اور رشتہ داروں کو بھی شامل کریں۔ جیسے کہ کرکٹ، بورڈ گیمز، یا پزلز۔
  • خاندانی پکنک:
  • خاندان کے ساتھ مل کر پکنک یا تفریحی سرگرمیاں پلان کریں۔

رشتہ داروں سے بات چیت

  • روزانہ کی بات چیت
  • : بچوں کو روزانہ اپنے رشتہ داروں سے بات کرنے کی ترغیب دیں، چاہے وہ فون پر ہو یا ویڈیو کال کے ذریعے۔
  • تحریری رابطہ:
  • بچوں کو خط یا ای میل لکھنے کی ترغیب دیں، تاکہ وہ اپنے جذبات اور خیالات کو بہتر طور پر بیان کر سکیں۔

یادیں

  • فیملی کہانیاں
  • : بچوں کو فیملی کے بارے میں کہانیاں سنائیں، مثلاً ان کے دادا دادی کے بچپن کی کہانیاں۔
  • یادیں بانٹنا:
  • پرانی تصویریں دکھائیں اور یادیں بانٹیں تاکہ بچے اپنے خاندان کے ماضی کو سمجھ سکیں۔

باہمی تعاون

  • خاندانی کام:
  • بچوں کو خاندانی کاموں میں شامل کریں، جیسے کہ کھانا پکانے، صفائی کرنے یا باغبانی کرنے میں۔ اس سے بچے مشترکہ تعاون سیکھیں گے۔
  • پروجیکٹس
  • : بچوں کو رشتہ داروں کے ساتھ مل کر پروجیکٹس کرنے دیں، جیسے کہ کوئی آرٹ پروجیکٹ یا گھر کی مرمت,گهر میں پودے لگانے کی مہم یا کوئی اور ایسی ایکٹیویٹی کرنے کے مواقع فراہم کریں ۔

رشتہ داروں کی مدد

  • معاون بنیں :
  • : بچوں کو سکھائیں کہ وہ اپنے بزرگوں کی مدد کریں، مثلاً دادا دادی کو دوا دینے یا ان کے ساتھ وقت گزارنے میں۔
  • خدمت کے مواقع
  • : ایسے مواقع پیدا کریں جہاں بچے اپنے رشتہ داروں کی مدد کر سکیں، جیسے کہ بیمار رشتہ دار کی تیمارداری۔

جذباتی  تعلق

  • محبت اور احترام:
  • بچوں کو سکھائیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں سے محبت اور احترام کا برتاؤ کریں۔
  • رشتہ داروں کی تعریف:
  • بچوں کے سامنے رشتہ داروں کی تعریف کریں اور ان کے اچھے کاموں کی قدر کریں۔

. مذہبی اور ثقافتی روایات

  • رسم و رواج:
  • بچوں کو خاندان کی مذہبی اور ثقافتی روایات سے متعارف کروائیں، جیسے کہ رمضان، عید، دیوالی وغیرہ۔
  • دعائیں اور عبادات:
  • بچوں کو دعاؤں اور عبادات میں شامل کریں، جیسے کہ نماز، دعا یا کسی مذہبی تقریب میں۔

ان تمام طریقوں سے بچوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے میں مدد ملے گی اور وہ خاندان کی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔یوں ہم اپنی نسلوں   کو خاندانی نظام کی لڑی میں پروکررکھ سکتے ہیں ۔اللہ کریم ہمیں رشتوں کا خیال رکھنے محبت بانٹنے ،نفرتیں ختم کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔اپنی اولادوں کو محبت کا پیکر بنائیں ۔نفرتوں سے دور رکھیں ۔۔۔۔۔۔

نوٹ:آپ ہم سے اپنے بچوں کی کونسلنگ ،کیرئیر پلاننگ اور آن لائن شارٹ کوسسز کے لیے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

رابطہ نمبر:03462914283

وٹس ایپ:03112268353

وٹس ایپ:03042001099 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا