نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کی شادی کا فیصلہ


بچوں کی شادی  کا فیصلہ


تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(ایم اے عربی و اسلامیات ،/ایم اے ماس کمیونیکیشن)

اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کی ذمہ داری ہے ۔جس میں یہ مقدس ہستیاں اپنی تمام  effort serveكرتی ہیں ۔جیسے جیسے اولاد جوان ہورہی ہوتی ہے اب والدین کو ان کی شادیوں کی فکر لاحق ہوجاتی ہے ۔

لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ فقط شادی کروادینا ہی کمال ہے یا  شادی کروانے سے پہلے اہم اور ضروری باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔کہیں ایسا نہ ہوکہ شادی  جیسا بڑاایونٹ تو سجا لیا سرمائیہ بھی صرف ہوا۔لیکن بعد میں معلوم ہواکہ وہ بیٹے یا بیٹی کا رشتہ کسی طور پر بھی معقول نہیں تھا ۔

قارئین:بعد کے رونے سے پہلے والدین  کو چاہیے کہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں ۔یہاں ہم کچھ باتیں آپ سے shareكرنے جارہے ہیں جو بچوں کے رشتے اور شادی کے حوالے سے والدین کے لیے کافی مددگار ثابت ہوں گیں ۔آئیے جانتے ہیں ۔کھلی بات چیت: Open Communication:ْ

 ایک ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں والدین اور ان کے بچے کے درمیان کھلی بات چیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔منگنی ،شادی وغیرہ کے معاملے میں بچوں کے  خیالات، خواہشات اور خدشات کو سنیں۔ باخبر فیصلہ کرنے میں ان کے نقطہ نظر کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

انفرادی انتخاب کا احترام کریں: Respect Individual Choices:

اپنے بچوں کو اقرار و انکار اور انتخاب کا حق دیں ۔تاکہ وہ آپ کے سامنے اپنی ترجیحات، اقدار اور خواہشات کا اظہارکرسکیں ۔ ان کی خودمختاری کا احترام کریں اور انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں فعال طور پر حصہ لینے کی اجازت دیں۔ اس سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ فیصلہ ان کی خوشی اور بھلائی کے مطابق ہے۔نیز پھر آئندہ یہ اپنی ذمہ لیتے ہوئے اس رشتے کو بھرپورانداز میں نبھانے کی کوشش بھی کریں گے ۔

مطابقت پر غور کریں: Consider Compatibility:

 اپنے بیٹے و بیٹی کا رشتہ طے کرتے ہوئے اس بات کا ضرور اندازہ کرلیجئے کہ آپکے بیٹے یا بیٹی اور سامنے والے بچے بچی میں کس حد تک خیالات و طبیعت میں کس حد تک مطابقت ہے ۔یہ  مطابقت شادی کی کامیابی اور خوشی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔



خاندانی پس منظر کا اندازہ کریں: Evaluate Family Dynamics:

آپ والدین ہیں آپکی ذمہ داری بھی اہم ہے ۔چنانچہ اپنے بچوں کے ہمسفر کا انتخاب کرنے چلے ہیں تو ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ آپ اس خاندان کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کریں تاکہ آپ کو ان کی طبیعت ،مزاج ،ترجیحات کا اندازہ ہوسکے ۔یہ معلومات آپ کو رشتوں کو سمجھنے اور بچوں کی ازدواجی زندگی بحال رکھنے میں بہترین  مددگار ثابت ہوگی ۔

مشورہ طلب کریں: Seek Advice:

ہم اس دنیا میں تنہا نہیں جی سکتے چنانچہ کہیں ہمارے خونی رشتے ہوتے ہیں اور کہیں ہمارے سماجی رشتے ہوتے ہیں چنانچہ آپ بچوں کی زندگیوں کا فیصلہ کرنے چلے ہیں تو لازمی لازمی خاندان کے بھروسہ مند افراد، دوستوں، یا بزرگوں سے مشورہ لیں جنہیں اسی طرح کے فیصلے کرنے کا تجربہ ہے۔ ان کی بصیرت اور نقطہ نظر ممکنہ شادی کے ساتھی کی مناسبت  کا اندازہ لگانے میں قابل قدر رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ان کا تجربہ ،ہمدری اور دعائیں آپ کے اہم اور ذمہ داری والے فیصلے کو چارچاند لگاسکتے ہیں ۔

عملی پہلوؤں پر غور کریں: Consider Practical Aspects:

آپ جس لڑے یا لڑکی کا اپنے لڑکے یا لڑکی کے لیے انتخاب کرنے جارہے ہیں تو ان کے مالی حالات ،کیرئیر پلاننگ ،کلچر اور ان کی سوسائٹی کے بارے میں طرز و رویہ ضرور جان لیجئے ۔یہ کہنے میں تو چھوٹی بات ہے لیکن یہ آگے چل کر ان کی زندگی پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔یہ عوامل شادی کی فزیبلٹی اور پائیداری کو متاثر کر سکتے ہیں۔

فیصلہ سازی کے لیے وقت نکالیں: Take Time for Decision-Making:

 اپنےبچوں  کی شادی کے بارے میں ہرگز جلد بازی نہ کریں نہ ہیں وقتی مفاد و غرض دیکھ کر یہ فیصلہ ہرگز نہیں کریں ۔یہ زندگیوں کے بندھن ہیں کوئی چار دن کی رفاقت کی بات نہیں ۔ معلومات اکٹھا کرنے کے لیے وقت نکالیں، مختلف پہلوؤں پر غور کریں، اور اپنے بچے اور اس میں شامل خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ اختیارات پر تبادلہ خیال کریں۔

ثقافتی اور مذہبی عقائد کا احترام کریں: Respect Cultural and Religious Beliefs:

آپ جس خاندان سے اپنے بچوں کو جُوڑنے جارہے ہیں اس کےکلچر اور ان کے عقائد کی جانچ پڑتال ضرور کرلیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ رشتہ بھی ہوجائے شادی بھی ہوجائے اور بعد میں معلوم ہوکہ خاندان تو اسلام مخالف عقائد رکھتاہے اس کا کلچر مذہبی اقدار سے بہت ہٹ کر ہے پھر بچوں کو رشتے ختم کرکے جدائی کروانے سے لاکھ بہتر ہے کہ یہ کام آپ پہلے سوچ بچارکرکے کریں ۔


مدد اور رہنمائی: Support and Guidance:

بچوں کا تجربہ والدین سے کم ہوتاہے چنانچہ شادی کے بندھن کے انتخاب میں والدین  کشادہ دلی کے ساتھ ان کی رہنمائی بھی کریں اور ان کی مددبھی کریں ۔تاکہ بچے کوئی غلط نہ کربیٹھیں ۔یا پھر خود کو تنہابھی نہ سمجھیں ۔

اگر ضرورت ہو تو پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں: Seek Professional Help if Needed:

اگر خاندان کے اندر پیچیدہ مسائل یا اختلافات ہیں جنہیں حل کرنا مشکل ہے، تو خاندانی مشیر یا ثالث سے مدد لینے پر غور کریں۔ پیشہ ورانہ رہنمائی تعمیری بات چیت اور اچھی طرح سے باخبر فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔

قارئین :

نکاح سنت ہے اس عظیم کام کے لیے  والدین  پوری دیانت کے ساتھ اسلامی اصولوں کے مطابق  اپنی اولادوں کے لیے بندھن تلاش کریں ۔اس میں بھلائی بھی ہے اور خیر و برکت بھی ۔نیز رشتہ طے ہونے کے بعد  شادی کے لیے قیل و قال سے کام نہ لیں کڑی شرائط قائم کرکرکے  محبت بھرے رشتوں  میں نفرت کا زہر ہر گز گھولنے کی کوشش نہ کریں ۔بلکہ شادی کو آسان سے آسان تربنائیں ۔

فرمان ِ مصطفی ﷺ :   بڑی برکت والا وہ نکاح ہے جس میں بوجھ کم ہو۔ (مسند احمد، ج9،ص365، حدیث:24583)

حضورﷺ کا ایک اور فرمان پڑھ لیجئے آپ  مزیدسمجھ جائیں گے کہ رشتوں میں کیا معیار اور کیا طرز و طریقہ رکھاجائے ۔

فرمان مصطفی ﷺ:  کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: دُنیا سے بےرَغْبَت ہو جاؤ، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے محبوب بن جاؤ گے اورلوگوں کے پاس جو کچھ (مال واَسبابِِ دُنیاہے اُس سے بے نیاز ہو جاؤ تولوگ بھی تمہیں محبوب بنالیں گے۔(الترغیب و الترھیب،ج4،ص45، حدیث:4918)



قارئین:یہ فرمان مصطفی ﷺ بھی پڑھ لیجئے اور اپنے سینے سے لگالیجئے :

فرمان مصطفی ﷺ:

رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں :جب ایسا شخص نکاح کا پیغام بھیجے، جس کے خُلق و دین سے تم راضی ہو تو اُس سےنکاح کردو، اگر نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم ہوگا۔(

(ترمذی،ج2،ص344، حدیث:1086)

قارئین:

دین داری اور خوش خُلقی پر ظاہری اور مادِّی چیزوں کو فَوقیَّت دینے والوں کو یاد  رکھنا چاہئے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: جس نے کسی عورت سے اُس کی عزّت کی وجہ سے نکاح کيا تو اللہ اس کی ذِلّت کو بڑھائے گا،جس نے عورت کے مال و دولت (کے لالچ)کی وجہ سے نکاح کيا، اللہ اُس کی غربت میں اضافہ کرےگا،جس نے عورت کے حَسَب نَسَب(یعنی خاندانی بڑائی)کی بنا پر نکاح کيا، اللہ اس کی کمينگی کو بڑھائے گااور جس نے صرف اور صرف اس لئے نکاح کيا کہ اپنی نظر کی حفاظت کرے،اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھے،يا صِلَۂ رحمی کرے تو اللہتعالٰی اس کے لئے عورت میں برکت دے گااور عورت کے لئے مرد میں برکت دے گا۔

(معجم اوسط،ج2،ص18،حدیث:2342)

اس اہم ترین موضوع پر  آپ کے لیے مددگار معلومات پیش کی گئی ہے ۔امید ہے کہ آپ ان گزارشات کو ملحوظ رکھیں گیں ۔ہماری کوشش آپ کے لیے مفید ثابت ہوتو ہماری مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

نوٹ:آپ طبی مشوروں،پیرینٹنگ ،کیرئیر کونسلنگ اور آن لان کورسسز کے لیے ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

رابطہ نمبر :03462914283

وٹس ایپ:03042001099 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا