نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

باغی بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟



باغی بچوں کی تربیت کیسے کریں ؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمدانش

بچے اللہ کی نعمت ہیں ان کی اچھی تربیت اور بہترین کفالت والدین کی ذمہ داری ہے ۔بچہ جیسے جیسے بڑاہورہاہوتاہے اس کی شخصی تعمیر اور طبعی ضرورتوں کا خیال رکھنا بہت اہم ہے ۔یہی وہ دورانیہ ہے جس میں بہت محتاط اور حکمت کے ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت اور شخصی تعمیر  کااہتمام کرناہوتاہے ۔آپ نے دیکھا ہوگاکہ کچھ بچے بہت باغی ہوتے ہیں ۔بغاوت ان کی ذات و اوصاف کا حصہ بن جاتی ہے ۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایسے بچوں کی تربیت کیسے کی جائے ؟توآئیے ہم آپکو بتاتے ہیں کہ باغی بچے کی تربیت کیسے کریں ؟

واضح توقعات قائم کریں:

بچوں کی صلاحیت کے مطابق ان سے توقعات رکھیں ۔ایسا نہ ہوکہ ایک کمزور ذہن کے بچے سے آپ  تعلیمی میدان میں گولڈ میڈل کی توقع رکھیں تو وہ اس خواہش و توقع پر پورانہ اترنے پر خود کو مجرم ٹھہرائے اور یاکہیں نظام سے باغی نہ ہوجائے ۔اپنے بچے کو مثبت اور منفی دونوں کاموں کے نتائج کو واضح طور پر بتائیں۔


بچوں کو کہنے کا حق دیں:

ایسے ماحول کو فروغ دیں جہاں آپ کا بچہ اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرنے میں راحت محسوس کرے۔

ایک فعال سامع بنیں اور ان کے جذبات کی توثیق کریں، چاہے آپ ان کے نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں۔

بچوں میں پڑھنے کا شوق پیداکرنے کے طریقے مضمون پڑھنے کے لیے کلک کریں

مسئلہ حل کرنے کی مہارتیں سکھائیں:

بچوں کو مسئلہ حل کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کو فروغ دینے میں مدد کریں۔

ماڈل مثبت رویہ:

بچے اکثر اپنے والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں۔ اپنے بچوں کے سامنے ایسے کام سرانجام دین جن کی آپ ان سے توقع رکھتے ہیں کیوں کہ بچے والدین سے سیکھتے ہیں ۔

مضبوط رشتہ استوار کریں:

اپنے بچے کے ساتھ مثبت اور معاون تعلقات استوار کرنے پر کام کریں۔ انھیں اپنائیت دیں ۔تاکہ کوئی بھی غلط خیال آئے تو وہ بلاججھک بیان کریں توآپ اس کا حل انھیں دے سکیں ۔اپنے کنکشن کو مضبوط بنانے کے لیے ایک ساتھ معیاری وقت گزاریں۔

بچوں کو فیصلوں کا حق دیں :

آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ کسی منفی سرگرمی میں شامل نہ ہوتو اپنے بچے کو  فیصلہ کرنے کا حق دیں ۔اس کی عمر کے مطابق اس سے کاموں و معاملات کے متعلق رائے لیں اور اُسے کاموں میں فیصلہ لینے کا حق دیں ۔تاکہ وہ خود کوایک پراعتماد فرد جان کرمثبت راستے پرگامزن رہ سکے ۔ انہیں فیصلے کرنے اور نتائج سے سیکھنے کے مواقع فراہم کریں۔


مثبت طاقت:

تعریف، حوصلہ افزائی، یا چھوٹے انعامات کے ذریعے اپنے بچے  کی ہمت میں اضافہ کریں تاکہ وہ کسی اور کی ہمدری وصول کرنے کی خواہش میں کسی غلط راہ پر نہ چل پڑے ۔

میڈیا اور ہم مرتبہ کے اثرات کی نگرانی کریں:

آپ کا بچہ میڈیاسے بھی سیکھ رہاہے اس بات پر بھی نظر رکھیں کہ وہ کیا دیکھتاہے اور کس چیز میں دلچسپی لیتاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے دوستوں کے بارے میں بھی جانکاری کریں کہ وہ کسی طبیعت اور مزاج کے بچے ہیں ۔کیوں کہ میڈیااور صحبت دونوں ہی آپ کے بچے پر گہرے اثرات چھوڑ سکتے ہیں ۔

غیر نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں:

اپنے بچے کو تعمیری اور مثبت سرگرمیوں میں شامل کریں ۔سیمنار ،مقابلوں و میلوں اور لائیبریریوں کا وزٹ کروائیں ۔کھیل کے میدان بچے کو اپنی صلاحیت منوانے کے مواقع فراہم کریں ۔


Self-control سکھائیں:

بچوں کو ان کے جذبات کو سمجھنے اور ان کا نظم کرنے میں مدد کریں۔ انہیں تناؤ اور مایوسی سے نمٹنے کے صحت مند طریقے سکھائیں۔خلل ڈالنے والے رویے کے بجائے بات چیت کے ذریعے جذبات کے اظہار کی حوصلہ افزائی کریں۔

پیشہ ورانہ رہنمائی حاصل کریں:

اگر آپ کوبچے کے مزاج کے حوالے سے مستقل پریشانی کا سامناہے تو ہماری رائے یہی ہے کہ بچے کو کسی اچھے معالج کو چیک کروائیں نیز بچے کی کونسلنگ کے لیے کنسلٹنسی اختیارکریں ۔

قارئین:میں خود والد ہوں ۔چنانچہ میں نے اپنے تجربے ،مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر یہ معلومات پیش کی ہے ۔بچوں کی شخصی تعمیر میں چھوٹی چھوٹی غلطیاں انھیں باغی و مجرم بنادیتی ہیں چنانچہ بہت سنجیدگی کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور خواہشات پوری کیجئے ۔اپنے بچوں کاخیال رکھئے کہ یہ اس دنیا میں بھی آپ کے لیے عزت و وقار اور امید بن سکیں اور آخرت میں بھی آپ کے لیے بخشش کا ساماں بن سکیں ۔اللہ پاک ہم سب کے بچوں کو نیک و صالح بنائے آمین

نوٹ:ہماری کوشش ہوتی ہے کہ آپ تک مفید اور مستند معلومات پہنچاسکیں ۔ہماری کوشش آپ کی زندگی میں بہتری کاباعث بنے تو ہماری مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

بچوں کو گفتگو کا ہنر سیکھائیں

بچو ں  کو گفتگو کا ہنر سیکھائیں تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش ہم جس دور میں جی رہے ہیں ۔یہ communication  کا دور ہے ۔جو جتنا اچھا بولنے کا ہنر رکھتاہے   وه اتنے ہی اچھے انداز میں ترقی کے زینے طے کرتاچلا جائے گا۔کیا ہی اچھا ہوکہ ہم اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی بولنے ،مکالمے ،تقریر کرنے کا طریقہ سیکھادیں تاکہ پروفیشنل لائف میں اُسے کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔آئیے ہم آپکو بتاتے ہیں کہ وہ کیا کیا طریقے اپنائے جائیں جن کی مدد سے ہم اپنے بچوں کو بہتر communication س یکھا سکتے ہیں ۔ہمارے بچے کو اچھا مکالمہ کرنے کا گُر بھی آجائے اور یوں وہ سوسائٹی میں پراعتماد و پُروقار زندگی بسرکرسکے ۔آئیے ان Tips كو جان لیتے ہیں ۔ پڑھنے اور تحقیق کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Reading and Research : انسان  جو بولتاہے یہ اس کا مطالعہ ہوتاہے یاپھر اس کا مشاہد ہوتاہے ۔چنانچہ آپ اپنے بچوں کو پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔دور حاضر کے حالات حاضر ہ کے  واقعات، تاریخ، سائنس اور ادب سمیت مختلف موضوعات کو دریافت کرنے کے لیے بچے کی حوصلہ افزائی کریں۔انہیں معلومات کے قابل اعتماد ذرائع تلاش کرنے اور تحقیق کرنے کا طریقہ

بچے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں ؟

بچے شرمیلے کیوں ہوتے ہیں ؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) گھر کے آنگن میں کچھ بچے تو کھیل رہے ہوتے ہیں لیکن انہی میں کچھ بچے  خاموش مجسمہ حیرت بنے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ان کے چہرے پر ایک عجب ساشرمیلا پن ہوتاہے ۔جس کی وجہ سے لاکھ من کرنے کے باوجود یہ شرماتے رہتے ہیں ۔دیکھنے میں تو  بچے کا یہ عمل معمولی ساہے ۔لیکن آپ کو شاید اندازہ نہیں کہ بچے کا یہ شرمیلاپن اس کے مستقبل پر کس قدر اثرانداز ہوسکتاہے ۔ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھ لیجئے ۔کہ ایک بچہ جو بچپن میں شرمیلاتھا۔وہ پڑھنے میں کمال تھا۔نمبر بھی اچھے لیتاتھا۔لیکن وہ اپنے شرمیلے پَن  کی وجہ سے معاشرے میں گھُل مل نہ سکا۔وہ بہترین معلومات رکھتاتھا لیکن کسی کو بیان کرنے سے شرماتاتھا۔اس کی آوزپُرسوز تھی لیکن اپنے شرمیلے پَن کی وجہ سے زندگی بھر اس نے کسی مجمع ،محفل یا پروگرام میں نعت نہ پڑھی وغیرہ ۔ اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے یعنی آپ یوں سمجھ لیں کہ شرمیلہ پَن فطرت میں ہوتاہے  فی نفسہ کوئی بُری بات نہیں ۔لیکن اس کے ضمن میں بہت سی چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ ثابت ہورہی ہوتی ہیں ان