نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہنسنا منع ہے

daily jang


ہنسنا منع ہے

(Dr Zahoor Ahmed Danish, Karachi)

آج ہم آپ تک پہنچائیں گے ایک ایسی معلومات کہ آپ بھی کہیں گے کہ ہاں !!!!!!!ایسا تو ہے اور آئندہ ایسا نہ کریں ۔ناظرین :بات کچھ اس طرح ہے کہ جیسے جیسے وقت گزررہاہے ہم اخلاق و آداب کے اعتبار سے زوال پزیر ہوتے چلے جارہے ہیں ۔۔کسی کا مذاق اُڑانا،اسکی ہجو کرنا جیسے قابل گرفت اعمال سے بچنا تو کجاانھیں براجاننے کا conceptبھی تیزی سے ختم ہوتاچلاجارہاہے ۔بات بہ بات دوسری کی چڑ،دوسرے کی کسی بات پر اس کانام رکھ کر اس بار بار tease کرنا۔۔۔۔۔
قارئین :آپ ہی بتائیں !!!!!!ایسا کرنا چاہے !!!!!!!!!!!یقیناََ ہر مہذب شخص کی زبان سے بے اختیار یہی جاری ہوگا۔ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز ایسا نہ کریں ۔۔۔۔۔۔

کلک کریں پڑھیں بہترین مضمون :

ہاتھوں میں پسینہ کیوں آتاہے 
قابل توجہ بات !!!!ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک اہم طریقہ کسی کا مذاق اڑانا ہے۔مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔
اس تضحیک آمیزرویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چنانچہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ،بدگمانی، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنادیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ، اپنی نیکیاں گنوابیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہوجاتا ہے۔
قارئین :ہم آپ کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ وعیدات جاننے کے ساتھ ساتھ ہیں اس روئیے کی سائنٹفک انداز میں محرکات بھی جان لینے چاہیے، اس کے اسباب جانے جائیں اور اس سے بچنے کے لئے عملی مشقیں مکمل کی جائیں تاکہ دنیا و آخرت میں اللہ کی رضا کو حاصل کیا جاسکے۔

یہ پڑھیں:
ماہرین نے مزاح کرنے کے تین بڑے اسباب بیان کئے ہیں ۔ پہلا سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بد صورت ، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤ کی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔
ہے نا !!ایسامعاملہ !!!!!!!!آئیے !!دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جانتے ہیں کہ دوسروں کا تمسخر اور ہجو کرنے والوں کے لیے کیاپیغام ہے ۔
کسی کے عیوب ونقائص کو اس طرح ظاہر کرنا کہ لوگ اس پر ہنسیں تمسخر(مذاق اڑانا )کہلاتا ہے ۔ اس کے لئے کبھی تو کسی کے قول یا فعل کی نقل اتاری جاتی ہے اور کبھی اس کی طرف مخصوص انداز میں اشارے کئے جاتے ہیں۔ یہ اس لئے ممنوع ہے کہ اس میں دوسروں کی تحقیر اور اہانت ہے اور یہ حرام ہے۔ ، رب تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰۤاَیُّہَا الَّذِی
ۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍ عَسٰ ۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآءٌ مِّنۡ نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنْہُنَّ()
ترجمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو!نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اورنہ عورتیں عورتوں سے دور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہترہوں۔ (پ
۲۶،الحجرات:۱۱ )
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ کونین صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا : لوگوں سے استہزاء کرنے والوں کیلئے روزقیامت جنت کا ایک دروازہ کھول کر کہا جائے گا ۔یہاں آجاؤ !! جب وہ پریشانی کے عالم میں دروازے کی طرف دوڑ کر آئیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا یہ عمل بار بار کیا جائے گا یہاں تک کہ پھر ان میں سے ایک کے لئے دروازہ کھولاجائے گا اور اسے بلایا جائے گا لیکن وہ ناامید ہونے کی وجہ سے نہیں۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں !!!!!!!کسی کی عزت سے کھیلنا اور اس کا مذاق اُڑانا کسی طور پر بھی قابل تعریف نہیں ۔
اب یہ بھی جان لیجئے کہ شریعت ہم سے کیا تقاضاکرتی ہے ۔
اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے۔ کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں اتنا اتنا مال مجھے مل جائے۔(احیاء علوم الدین،کتاب آفات اللسان،الآفۃ الحادیۃعشرالسخریۃوالاستھزاء، ج
۳،ص۱۶۲)
ایک اور مقام پر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گاکہ آؤ یہاں آؤ چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا
وظیفہ جاننے کے لیے کلک کریں 
،اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہو تا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکارپڑے گی تو وہ نہیں جائے گا۔ (اس طرح وہ جنت میں داخل ہو نے سے محروم رہے گا)۔(احیاء علوم الدین،کتاب آفات اللسان،الآفۃ الحادیۃعشرالسخریۃوالاستھزاء، ج
۳،ص۱۶۲)
آہ !!اے میرے مالک کرم !!!!!!!!!!کیا بنے گاان کا !!!!!!!وہ جو لمحہ بھر بھی کسی کا مذاق اُڑانے میں سوچتے نہیں ۔۔
احیأ العلوم میں نقل ہے کہ ’’ جو اپنے کسی دینی بھائی کو اس کے کسی ایسے گناہ پر عار دلائے گا جس سے وہ توبہ کرچکا ہو تو عار دلانے والا اس وقت تک نہیں مریگا جب تک کہ وہ خود اس گناہ کو نہ کر لے۔‘‘(احیاء علوم الدین،کتاب آفات اللسان،الآفۃ الحادیۃعشرالسخریۃوالاستھزاء،ج
۳، ص۱۶۳)
بہر حال کسی کو ذلیل کرنے کے لیے اور اس کی تحقیر کرنے کے لیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ،اس کا مذاق اڑانا،اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے القاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلا آج کل کے بزعم خود اپنے آپ کو عرفی شرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومیت کی بنا پر ان کا تمسخر اور استہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قسم قسم کے دل آزار القاب سے یاد کرتے رہتے ہیں۔ کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں۔ کبھی عار دلاتے ہیں یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں۔
قارئین :
ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تمسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے۔ مگر وہ اپنی غربت اور مفلسی کی وجہ سے مالداروں کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آ جانا چاہیے ۔۔
تو پھر کیا سوچا آپ نے !!!!!!!!!!!!!آئندہ کسی کا مذاق ،کسی کی دل آزاری کریں گے ؟
نہیں ؟!!!!!ہم بھی آپ سے یہی مدنی التجاکرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خدارا اس بری عادت سے بچیں !!!!!!!!
اپنی دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لیے !!!!!ایسا نہ کریں !!!!!!!!!بالکل بھی ایسا نہ کریں !!!!!!!!خدارا!!ایسا نہ کریں ۔۔

نوٹ:قارئین :سلامت تاقیامت رہیں ۔ہماراعزم انسانیت کی خدمت ۔آپ طبی مشورے ،کیرئیر کونسلنگ ،روحانی پریشانی ،معاشی پریشانی کے حوالے سے ہم سےرابطہ کرسکتے ہیں ۔آپ ہمارے لیے ہر لمحہ ہر وقت محترم ہیں ۔کاروباری مشوروں ،کیرئیر کونسلنگ اور طبی مشوروں کے حوالے سے اب آپ
0311-2268353پر وٹش ایپ کرسکتے ہیں ۔۔مذید تفصیلات بیان کے لیے آپ 
insandost1122@gmail.com پر بھی ای میل کرسکتے ہیں ۔۔۔آئیں مل کر انسانیت کی خدمت کا پیشہ اپناتے ہیں ۔۔۔۔۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا