نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پرامن و پر اطمینان زندگی کا وظیفہ


google


 پرامن و پر اطمینان زندگی کا وظیفہ 


مجھے سمجھ نہیں آتی ۔کسی پل سکون نہیں ۔ایک عجب دل و دماغ میں لڑائی چل رہی ہے ۔کچھ بھی تو سمجھ نہیں آرہا۔بس زندگی گزررہی ہے ۔زندگی اپنی رونقوں سے محروم ہوگئی ہے ۔یہ وہ آوازیں  جو ہمیں اپنے اردگرد سے سنائی دیتی ہیں ۔آخر اس بے اطمینانی و بے سکونی کا کوئی علاج بھی ہے ۔۔توجان لیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں !!علاج ہے ۔وہی علاج ہم آپکو بتانے والے ہیں 

تمہید:

پرسکون زندگی کی تلاش کسے نہیں چاہیے ہر شخص اس کا متلاشی ہے دولت، سکون، آرام اور آسائش کیلئے تو اکٹھی کی جاتی ہے لیکن ناظرین: یاد رکھیں فرق صرف اتنا ہے کہ ایک آسائش ہے دوسرا آرام ہے یہ دو مختلف چیزیں ہیں اگر ایک انسان کے پاس دنیا کا سارا سامان راحت ہے لیکن گھر میں چین نہیں تو یہ گھر جنت نہیں بلکہ جہنم بنا ہوا ہے اسی طرح اگر آسائش کا سامان نہیں کوٹھی، کار مکان نہیں لیکن آرام ہے سکون ہے، کوئی فکر نہیں بظاہر آسائش سے محروم ہے لیکن حقیقت میں جنت ہے۔

دعائیں پڑھیں :

https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/09/blog-post_89.html

آئیے :ہم اپنی زندگی کی ان بے چینیوں کا روحانی حل جانتے ہیں ۔

ہر نما زکے بعد سورہٴ قریش تین مرتبہ اول و آخر درود شریف تین دفعہ پڑھ کر دعاء کر لیا کریں اور یہی عمل رات کو سونے سے قبل کر لیا کریں۔

آپ خود اپنی زندگی میں بہترین تبدیلی محسوس کریں گے آپ کے اندر کے انسان کو ایک عجب سکھ وچین نصیب ہوگا۔آپ وقت ضائع کیے بغیر آج ہی یہ وظیفہ کرلیجئے ۔

دلوں کا حقیقی چین تو اللہ پاک کی یاد اس کے ذکرمیں ہے ۔اب جب پریشان ہوں یا آپ کے کسی عزیز کو اس طرح کی کیفیت سے گزرناپڑے تویہ وظیفہ کرلیجئے ۔وظیفہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ :

ہر نماز کے بعد  اول آخر درود پڑھ کر گیارہ بار اس آیت کا ورد کریں ان شاء اللہ ،اللہ تعالی سکون عطا فرمائے گا: 


اس آیت کو ازرائے وظیفہ پڑھنے سے قبل کسی قاری صاحب کو پڑھ کر سنا دیں تاکہ کوئی مخارج کی غلطی نہ اور آپ اس وظیفہ کی تمام برکتیں بھی پاسکیں ۔۔۔

دل کے سکون اور اطمینان کے لیے کئی وظیفے ہیں، لیکن ان میں سے ایک بہت آسان اور موثر وظیفہ یہ ہے کہ آپ ہر روز صبح اور شام 100 مرتبہ "لا إله إلا الله محمد رسول الله" کا ذکر کریں۔ یہ ذکر دل کو پاک کرتا ہے اور اس میں سکون اور اطمینان کا احساس پیدا کرتا ہے۔

ایک اور وظیفہ یہ ہے کہ آپ ہر روز صبح اور شام 100 مرتبہ "أستغفر الله العظيم وأتوب إليه" کا ذکر کریں۔ یہ ذکر اللہ کی رحمت اور مغفرت حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے، اور اس سے بھی دل میں سکون اور اطمینان پیدا ہوتا ہے۔

آپ سورہ المزمل کی تلاوت بھی کر سکتے ہیں۔ یہ سورہ دل کو مطمئن کرنے اور اس میں ایمان اور اطمینان پیدا کرنے میں مدد کرتی ہے۔

ان وظیفوں کے ساتھ ساتھ، آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ آپ اللہ سے اپنے دل کو سکون اور اطمینان عطا کرنے کی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکون اور اطمینان کا احساس دینے کے لیے کئی وسائل فراہم کیے ہیں، اور ہمیں ان وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

یہاں کچھ دیگر وظیفے ہیں جو دل کے سکون اور اطمینان کے لیے مفید ہو سکتے ہیں:

·         ہر روز صبح و شام 100 مرتبہ "سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر" کا ذکر کریں۔

·         ہر روز صبح و شام 100 مرتبہ "لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم" کا ذکر کریں۔

·         ہر روز صبح و شام 100 مرتبہ "يا الله، يا رحمن، يا رحيم، يا غفور، يا حليم، يا سميع، يا بصير، يا عليم، يا قادر، يا قوي، يا متين" کا ذکر کریں۔

آپ ان وظیفوں کو اپنے وقت اور حالات کے مطابق کر سکتے ہیں۔

اللہ پاک نے چاہا تو آپ کے اندر کا انسان پرسکون ہوجائے گا۔آپکا کام میں دل اور آگے بڑھنے کا جذبہ بھی بیدارہوگا۔آپ بے چینیوں کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکل کا امیدکے لہلہاتے سبززاروں میں ہنستی مسکراتی زندگی گزاریں گے ۔ہم کرتے ہیں یہ سب کوشش آپ پیاروں کے لیے ۔ہماری یہ کوشش آپکو پسند آئے تو کامنٹ ضرور کیجئے ۔

 ۔۔اللہ حافظ



 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا