نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

انبیائے کرام علیہم السلام کے پیشے

waridmentory


انبیائے کرام علیہم السلام کے پیشے

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

آج دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔فاصلے سمٹ چکے ہیں ٹیکنالوجی نے  نت نئے پرت کھولے ہیں ۔ایسے جدید ترین دور میں پروفیشن اور پروفیشنل  کی ابحاث   ہمیں اپنے ارد گرد سنائی دیتی ہے ۔بچہ پڑھارہاہوں کیا پروفیشن اپنائے ۔کدھر کو جائے کیا پیشہ اپنائے ۔کدھر سے کمائے ۔کیسے کمائے وغیرہ جیسے سوالات ہورہے ہوتے ہیں ۔لیکن یقین کریں اسلام کتنا پیارادین ہے ۔جس دور میں پروفیشنل ٹرینر بھاری بھاری فیسسز لے کر آپ کو آپکے پروفیشن کا بتاتے ہیں ایسے میں اسلام کی واضح اور کامل و اکمل تعلیمات بنا کسی عوض کے ہرقدم پر مشفق سائبان کی طرح آپ کے ساتھ ساتھ ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم دین سے استفادہ کرنے میں کاہل و سست ہوتے چلے جارہے ہیں لیکن کمال ،فضیلت اور خیر دین کے تحت چلنے اور دین کے طریقہ رزق و روزگار میں ہے ۔آئیے آپ ہم اس تحریر میں اللہ پاکے سب سے پیاری ہستیوں یعنی انبیائے کریم علیہم السلام کے پیشے بتاتے ہیں ۔آپ دیکھئے گا کہ اللہ پاک کے ان پیاروں نے کیسے کیسے پیشے اپنائے ۔

اللہ پاک کے پیارے بلکہ بہت ہی پیارے پاکباز عزت مآب انبیاء کرام کے پیشے:

      رزقِ حلال اور طلبِ معاش   کیلئے اللہ پاک کے انبیائے کرام نے بھی مختلف قسم کے  پیشوں کو اپنایا ہے۔ کسی پیغمبر نے نہ سوال کیا،نہ ناجائز پیشے کئے،ہرنبی نے کوئی نہ کوئی حلال پیشہ ضرورکیا۔ذیل میں چند انبیائے کرام   کے پیشوں کا ذکر کیا جاتا ہے:

چنا نچہ   حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے اَولاً کپڑا بُننے کا کام  کیا اور بعد میں آپ کھیتی باڑی میں مشغول ہوگئے ۔ ہر قسم کے بیج جنت سے ساتھ لائے تھے ان کی کاشت فرماتے تھے۔ان کے سوا سارے پیشے کئے ۔

حضرت سیدنا نوح علیہ السلام کا ذریعہ معا ش لکڑی کا کام تھا (بڑھئی پیشہ)۔

حضرت سیدنا ادریس علیہ السلام درزی گری فرماتے تھے۔

حضرت سیدنا ہود اور حضرت سیدنا صالح علیہما السلام تجارت کرتے تھے۔

حضرت سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشغلہ کھیتی باڑی تھا ۔

حضرت سیدنا حضرت شعیب علیہ السلام جانور پالتے اور ان کے دو دھ سے معا ش حاصل کرتے تھے ۔

حضرت سیدنا لوط علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے ۔

حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے چند سال بکریاں چرائیں ۔

 حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام زِرہ بناتے تھے۔

حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام اتنے بڑے با د شاہ ہو کر درختو ں کے پتو ں سے پنکھے اورزنبیلیں بنا کر گزر فرماتے تھے ۔

حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سیر وسیاحت میں رہے ، نہ کہیں مکان بنایا ، نہ نکاح کیا اور فرماتے تھے کہ جس نے مجھے ناشتہ دیاہے وہ ہی شام کا کھانا بھی دے گا۔

حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ سلم نے بکریاں بھی چرائی ہیں اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے مال کی تجارت بھی فرمائی ، غرض ہر قسم کی حلال کمائیاں سنت انبیاء ہے اس کو عار جاننا نادانی ہے۔

( تفسیر نعیمی، تفسیر عزیزی)

قارئین ہمیں امید ہے کہ ہماری یہ تحریر آپ کو مایوسیوں سے نکال امید کا ذریعہ بنے گی ۔آپ پریشان نہ ہواکریں اسلام کا دامن تھام لیں کوئی ایسی بات نہیں جواسلام کی تعلیمات کا حصہ نہ ہوں آپ اہل علم سے اپنے کیرئیرکے لیے رہنمائی لیں وہ آپ کی بہترین رہنمائی فرمائیں گے ۔اللہ کریم ہمیں انبیائے کریم علیہم السلام  کے طریقوں پر چل کر رزق حلال کی کوشش کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین

 

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا