نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کھانا کھانا کی سنتیں اور حکمتیں

youtube


کھانا کھانا کی سنتیں اور  حکمتیں   

۔ کھانے کی سنتیں، آداب اور حکمتیں:

(1)کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ پہنچوں تک دھو لیجئے۔ حکمت:عام طور پر کام کاج کرنے سے ہاتھ آلودہ ہو جاتے ہیں، بغیر ہاتھ دھوئے کھانے سے بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔ ”کھانے کا وضومحتاجی دورکرتاہے،گھرمیں بھلائی بڑھاتا ہے، شیطان کو دورکرتاہے اور رزق میں کشادگی ہوتی ہے۔

(فیضانِ سنت،ج1،ص186،185ملخصا)

ً) (2)کھانا خوب چباکر کھائیے۔ (3)زیادہ گرم کھانا نہ کھائیے۔ حکمت:اس سے منہ جل جانے کا خطرہ ہے نیز  حدیث پاک میں ہے: گرم کھانے میں برکت نہیں۔

(بستان العارفین، 4ص57(

 (4)کھانا زمین پر بیٹھ کر کھائیے۔ حکمت:زمین پر بیٹھ کر کھانے سے کھانا بہترطورپر ہضم ہوتا ہے، کمر اور ٹانگوں کے عضلات مىں لچک پىدا ہوتى  اور دردوں سے نجات ملتى ہے، دورانِ خون بھى بہتر ہوجاتا ہے جس کے نتىجے مىں دل کى صحت بہتر جبکہ بىمارىوں، خصوصاً ہارٹ اٹىک کا خدشہ بہت کم ہوجاتا ہے۔ (5)کھانے سے پہلے جوتے اتار لیجئے۔ (6) جب بھی کھانا کھائیں تو الٹا پاؤں بچھا دیجئے اور سیدھا کھڑا رکھئےیا (7) سرین پر بیٹھ جائیے اور دونوں گھٹنے کھڑے رکھئے یا (8) دو زانوبیٹھ جائیے۔

 (9)ٹیک لگاکر کھانا کھانے سے بچئے کہ حضور صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم ٹیک لگا کر کھانا مت کھاؤ۔

)مجمع الزوائد،ج 5،ص22، حدیث : 7918) )

 حکمت: ٹیک لگاکربیٹھنے سےمعدہ پھیل جاتا ہے اس طرح غیرضروری خوراک معدے میں چلی جائے گی اور ہاضمہ خراب ہوگا،ٹیک لگا کرکھانے سے آنتوں اور جگر کونقصان پہنچتا ہے۔

  )فیضانِ سنت،ج1،ص253 (10)

یہ مضمون تو پڑھیں بہترین کلک کریں:

https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/09/blog-post_86.html

کھانے سے پہلےبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھ لیجئے ۔

 (11) اگر کھانے کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہ پڑھنا بھول جائیں تو یاد آنے پر بِسْمِ اللّٰہِ اَ وَّلَہ وَاٰخِرَہٗ پڑھ لیجئے۔

 (12)کھانا سیدھے ہاتھ سے کھائیےکہ اُلٹے ہاتھ سے کھانا پینا شیطان کا طریقہ ہے۔

( مسلم، ص860،حدیث: 5265)

حکمت: سیدھے ہاتھ سے غیر مرئی (نظر نہ آنے والیشعاعیں نکلتی ہیں اور الٹے ہاتھ سے بھی ، لیکن سیدھے ہاتھ کی شعاعیں فائدہ منداور الٹے ہاتھ والی نقصان دہ ہوتی ہیں۔)سنت مصطفےٰ اور جدید سائنس، ص28 (13) تین انگلیوں سے کھائیے۔

 (14)خُوب پیٹ بھر کر کھانا نہ کھائیے کہ اس کے جسمانی اورروحانی نقصانات ہیں۔  پیارے آقا صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

”آدَمی اپنے پیٹ سے زیادہ بُرابرتن نہیں بھرتا، انسان کیلئے چندلقمےہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں  اگرایسانہ کرسکے تو تِہائی کھانے کیلئے، تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس کیلئے ہو۔

(ابنِ ماجہ،ج4،ص48، حدیث:3349(

 (15)کھانے سے فارغ ہوکر انگلیاں چاٹ لیجئےکہ  حضور صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی کھانے کے بعد انگلیاں چاٹ لیا کرتے تھے

)مجمع الزوائد،ج5،ص23،حدیث :7923، ملتقطاً(

حکمت:یہ عمل آنکھوں، دِماغ اور مِعدہ کیلئے بے حدمفیدہے اوریہ دِل، مِعدہ اور دِماغی اَمراض کا زبردست عِلاج ہے

)فیضانِ سنّت،ج1،ص247(

 (16)کھانا کھانے کے فوراً بعدپیشاب کرنے کی عادت ڈالئے۔ حکمت: اس سے گردہ و مَثانہ کے اَمراض سے حفاظت ہوتی ہے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا