نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خلیفہ کے عظیم بیٹے کی دلچسپ کہانی

roshnai

 


خلیفہ کے عظیم بیٹے کی دلچسپ کہانی 

آپ نے کہانیاں تو بہت پڑھی اور سنی ہوں گی لیکن مجھے اس واقعہ نے بہت متاثر کیا۔میرے ایمان کو طاقت اور میرااپنا کریم سے تعلق مزید مضبوط ہوگیا۔سوچا کیوں نہ آپکو بھی یہ کہانیاں بتائیں جائے ۔

قارئین:آئیے بڑھتے ہیں کہانی کی جانب

بات کچھ اسطرح ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کا ایک بیٹا تھا، جس کی عمر تقریباً سولہ سال تھی، وہ بہت کثرت سے زاہدوں اور بزرگوں کی مجلس میں رہا کرتا تھا اور اکثر قبرستان چلا جاتا، وہاں جاکر کہتا کہ تم لوگ ہم سے پہلے دنیا میں موجود تھے، دنیا کے مالک تھے، لیکن اس دنیا نے تمہیں اجازت نہ دی، حتیٰ کہ تم قبروں میں پہنچ گئے۔ کاش مجھے کسی طرح خبر ہوتی کہ تم پر کیا گزر رہی ہے اور تم سے کیا کیا سوال و جواب ہوئے ہیں اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتا:

ترجمہ: ’’مجھے جنازے ہر دن ڈراتے ہیں اور مرنے والوں پر رونے والیوں کی آوازیں مجھے غمگین رکھتی ہیں۔‘‘

ایک دن وہ اپنے باپ (بادشاہ) کی مجلس میں آیا، اس کے پاس وزرا وامرا سب جمع تھے اور لڑکے کے بدن پر ایک کپڑا معمولی اور سر پر ایک لنگی بندھی ہوئی تھی۔ اراکین سلطنت آپس میں کہنے لگے کہ اس پاگل لڑکے کی حرکتوں نے امیر المؤمنین کو دوسرے بادشاہوں کی نگاہ میں ذلیل کر دیا ہے، اگر امیر المؤمنین اس کو تنبیہ کر دے تو شاید یہ اپنی اس حالت سے باز آجائے۔

امیر المؤمنین نے یہ بات سن کر اس سے کہا کہ بیٹا تو نے مجھے لوگوں کی نگاہ میں ذلیل کر رکھا ہے۔ یہ بات سن کر باپ کو تو کوئی جواب نہیں دیا، لیکن ایک پرندہ وہاں بیٹھا تھا، اس کو کہا کہ اس ذات کے واسطے کہ جس نے تجھے پیدا کیا تو میرے ہاتھ پر آکر بیٹھ جا۔ وہ پرندہ وہاں سے اڑ کر اس کے ہاتھ پر آکر بیٹھ گیا، پھر کہا کہ اب اپنی جگہ چلا جا۔ وہ ہاتھ پر سے اڑ کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔

اس کے بعد اس نے عرض کیا کہ ابا جان اصل میں آپ دنیا سے جو محبت کر رہے ہیں۔ اس نے مجھے رسوا کر رکھا ہے۔ اب میں نے یہ ارادہ کر لیا ہے کہ آپ سے جدائی اختیار کر لوں۔ یہ کہہ کر وہاں سے چل دیا اور ایک قرآن شریف صرف اپنے ساتھ لیا۔ چلتے ہوئے ماں نے ایک بہت قیمتی انگوٹھی بھی اس کو دے دی (کہ احتیاج کے وقت اس کو فروخت کر کے کام میں لائے)

وہ یہاں سے چل کر بصرہ پہنچ گیا اور مزدوروں کے ساتھ مل کر کام کرنے لگا۔ ہفتہ میں صرف ایک دن ہفتے کو مزدوری کرتا اور آٹھ دن تک اس مزدوری کے پیسے خرچ کرتا اور آٹھویں دن پھر ہفتہ کو مزدوری کر لیتا اور ایک درہم اور ایک دانق (یعنی درہم کا چھٹا حصہ) مزدوری لیتا۔ اس سے کم یا زیادہ نہ لیتا۔ ایک دانق روزانہ خرچ کرتا۔

ابو عامر بصریؒ کہتے ہیں کہ میری ایک دیوار گر گئی تھی۔ اس کو بنوانے کے لیے میں کسی معمار کی تلاش میں نکلا (کسی نے بتایا ہو گا کہ یہ شخص بھی تعمیر کا کام کرتا ہے) میں نے دیکھا کہ نہایت خوب صورت لڑکا بیٹھا ہے۔ ایک زنبیل پاس رکھی ہے اور قرآن شریف دیکھ کر پڑھ رہا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ لڑکے مزدوری کرو گے؟

کہنے لگا کیوں نہیں کریں گے، مزدوری کے لیے تو پیدا ہی ہوئے ہیں۔ آپ بتائیں کیا خدمت مجھ سے لینی ہے؟

میں نے کہا گارے مٹی (تعمیر) کا کام لینا ہے۔ اس نے کہا کہ ایک درہم اور ایک دانق مزدوری ہو گی اور نماز کے اوقات میں کام نہیں کروں گا، مجھے نماز کے لیے جانا ہو گا۔ میں نے اس کی دونوں شرطیں منظور کر لیں اور اس کو لاکر کام پر لگا دیا۔ مغرب کے وقت جب میں نے دیکھا تو اس نے دس آدمیوں کے بقدر کام کیا۔ میں نے اس کو مزدوری میں دو درہم دیئے۔ اس نے شرط سے زائد لینے سے انکار کر دیا اور ایک درہم اور ایک دانق لے کر چلا گیا۔ مجھے اس کی دیانت و امانت اور 

خود داری پر تعجب ہونے لگا۔

............................................................................................

نوٹ:

موٹاپے کے حوالے سے :

https://www.blogger.com/blog/post/edit/633175920604818639/6660539296690035061?hl=en

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا