نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خوشبو لگانے میں حکتمیں

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

خوشبو لگانے میں حکتمیں 

پاکیزگی، ستھرائی، شائستگی اور نفاست کی مسلّمہ اقدار اس وقت پوری طرح روشن ہو جاتی ہیں، جب ہم اُنہیں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سیرتِ مبارکہ میں پاتے ہیں۔ حیاتِ مبارکہ کا کوئی گوشہ اُٹھا کر دیکھیں، پاکیزگی اور شائستگی سے عبارت ہے۔


چنانچہ  احادیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ خوشبو لگانا سنت ہے ۔


فرمان ِ مصطفی ﷺ:

چار چیزیں نبیوں کی سُنّت میں داخل ہیں:نکاح،مسواک،حیااورخوشبو لگانا۔

(مشکاۃالمصابیح، کتاب الطہارۃ، باب السواک،۱/۸۸، حدیث:۳۸۲) 

 


آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خوشبوکا تحفہ رد نہیں فرماتے۔

(سنتیں اور آداب ص۸۵)

٭ نماز جمعہ کے ليے خوشبو لگانا مستحب ہے(بہار شریعت ۱/۷۷۴،حصہ ۴ملخصاً) 

٭نَماز میں ربّ سے مُناجات ہے تو اس کے لئے زینت کرناعطر لگانا مُستَحب ہے۔

(نیکی کی دعوت، ص۲۰۷)

بہترین معلوماتی مضمون پڑھیں :

https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/08/blog-post_11.html


٭آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیشہ عمدہ خوشبو استعمال کرتے اور اسی کی دو سرے لوگو ں کو بھی تلقین فرماتے ۔

(سنتیں اور آداب ص۸۳


٭ناخوشگوار بو یعنی بد بو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناپسند فرماتے ۔

(سنتیں اور آداب ص۸۳)

 ٭مَردوں کو اپنے لباس پر ایسی خوشبو استعمال کرنی چاہيے جس کی خوشبو پھیلے مگر رنگ کے دھبے وغیرہ نظر نہ آئیں۔

 (سنتیں اور آداب ص۸۵)

سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی عادت کریمہ تھی کہ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم’’مشک‘‘سرِ اقد س کے مقدس بالوں اور داڑھی مبارک میں لگاتے۔

)سنتیں اور آداب ص۸۳


(

سبحان اللہ !!!

جس چیز کو ہمارے پیارے آقاﷺ اختیار فرمائیں اس میں تو حکمتیں ہی حکمتیں ہیں ۔

’’معطر ہوائیں اور عطربیز فضائیں روحِ انسانی کے لیے غذا کا کام کرتی ہیں اورخوشبو روح کو تسکین بخشتی ہیں ۔ خوشبو سے روح میں توانائی پیدا ہوتی ہے، جس سے دماغ کو کیف اور اعضائے باطنی کو راحت نصیب ہوتی ہے۔ خوشبو روح کے لیے حد درجہ خوش گوار اور خوب تَر چیز ہے۔ خوشبو اور پاک روحوں میں گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اطیب الطیبین (سب سے زیادہ خوشبودار اور پاکیزہ) رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دنیا کی چیزوں میں سے ایک چیز خوشبو بہت زیادہ محبوب تھی۔

لفظ’’ عطار‘‘ یا ’’عطر‘‘ فارسی زبان کے لفظ ’’اتر‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’خوشبو‘‘ ہے۔ عطر دراصل تیل ہوتا ہے جسے مختلف نباتاتی ذرائع جیسے پھول، پودوں اَور درختوں کی لکڑی یا چھال سے حاصل کیا جاتا ہے۔

اگر ہم خوشبو کی تاریخ جاننے کی کوشش کریں تو خوشبو کا سفر بہت پرانا ہے۔ خوشبو بنانے کے فن کا آغاز، قدیم میسوپوٹیمیا، مصر، وادیٔ سندھ کی تہذیب یا شاید قدیم چین سے ہوا۔ بعد میں اسے رومیوں اور عربوں نے مزید نکھار بخشا۔ قدیم تہذیبوں بابل و نینوا اور یونان کی داستانوں میں بھی خوشبو کا ذکر موجود ہے۔
خوشبو کو سنت سمجھ کر لگائیں لیکن اگر ہم دنیا وی اعتبار سے دیکھیں تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ  آپ کے مزاج پر اثر انداز ہو کر اسے خوشگوار بنا دیتی ہے نیز اس سے آپ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ ہر خوشبو کا اپنا ہی ایک مزاج ہوتا ہے، اس لیے جس بھی تقریب میں جائیں، اس کے مطابق لگائی گئی خوشبو دوسروں پر آپ کا ایک مثبت تاثر چھوڑے گی۔
۱۔ مزاج خوشگوار کرتی ہے
۲۔ پُر اعتماد شخصیت
۳۔ پرکشش بناتی ہے
۴۔ اچھی صحت میں معاون
۵۔ پُرسکون نیند

۔ آپ کی ذات سے میل کھاتی ایک خوشبو نہ صرف آپ کو مسحورکن احساس دلائے گی بلکہ آپ کو دوسروں کی 

نظر میں ممتاز بھی کر دے گی۔

بہترین معلوماتی مضمون پڑھیں :

https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/08/blog-post_11.html

الحمد للہ !!ہم مسلمان ہیں اور ہم اپنے پیارے آقاﷺ کے ہر عمل کو اپنی زندگی میں نافذکرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور اس کا کامل ارادہ بھی ۔توپھر آپ بھی سنت کی نیت سے خوشبولگائیں اور خوب خوب اس کی برکتیں پائیں۔۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا