خوشبو لگانے میں حکتمیں
پاکیزگی، ستھرائی، شائستگی اور نفاست کی مسلّمہ اقدار اس وقت پوری طرح روشن ہو جاتی ہیں، جب ہم اُنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں پاتے ہیں۔ حیاتِ مبارکہ کا کوئی گوشہ اُٹھا کر دیکھیں، پاکیزگی اور شائستگی سے عبارت ہے۔
چنانچہ احادیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ خوشبو لگانا سنت ہے ۔
فرمان ِ مصطفی ﷺ:
چار چیزیں نبیوں کی سُنّت میں داخل
ہیں:نکاح،مسواک،حیااورخوشبو لگانا۔
(مشکاۃالمصابیح، کتاب الطہارۃ، باب السواک،۱/۸۸، حدیث:۳۸۲)
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خوشبوکا تحفہ رد نہیں فرماتے۔
(سنتیں اور آداب ص۸۵)
٭ نماز جمعہ کے ليے
خوشبو لگانا مستحب ہے(بہار شریعت ۱/۷۷۴،حصہ ۴ملخصاً)
٭نَماز میں ربّ سے مُناجات
ہے تو اس کے لئے زینت کرناعطر لگانا مُستَحب ہے۔
(نیکی کی دعوت، ص۲۰۷)
https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/08/blog-post_11.html
٭آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیشہ عمدہ خوشبو استعمال کرتے اور اسی کی دو سرے
لوگو ں کو بھی تلقین فرماتے ۔
(سنتیں اور آداب ص۸۳)
٭ناخوشگوار بو یعنی بد بو
آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ناپسند فرماتے ۔
(سنتیں اور آداب ص۸۳)
٭مَردوں
کو اپنے لباس پر ایسی خوشبو استعمال کرنی چاہيے جس کی خوشبو پھیلے مگر رنگ کے دھبے
وغیرہ نظر نہ آئیں۔
(سنتیں
اور آداب ص۸۵)
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادت
کریمہ تھی کہ آپ صَلَّی
اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم’’مشک‘‘سرِ اقد س کے مقدس بالوں
اور داڑھی مبارک میں لگاتے۔
)سنتیں اور آداب ص۸۳
(
سبحان اللہ !!!
جس چیز کو ہمارے پیارے آقاﷺ اختیار فرمائیں اس میں تو
حکمتیں ہی حکمتیں ہیں ۔
’’معطر ہوائیں اور عطربیز فضائیں روحِ انسانی کے
لیے غذا کا کام کرتی ہیں اورخوشبو روح کو تسکین بخشتی ہیں ۔ خوشبو سے روح میں
توانائی پیدا ہوتی ہے، جس سے دماغ کو کیف اور اعضائے باطنی کو راحت نصیب ہوتی ہے۔
خوشبو روح کے لیے حد درجہ خوش گوار اور خوب تَر چیز ہے۔ خوشبو اور پاک روحوں میں
گہرا تعلق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اطیب الطیبین (سب سے زیادہ خوشبودار اور پاکیزہ) رسولِ اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی چیزوں
میں سے ایک چیز خوشبو بہت زیادہ محبوب تھی۔
لفظ’’ عطار‘‘ یا ’’عطر‘‘
فارسی زبان کے لفظ ’’اتر‘‘ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ’’خوشبو‘‘ ہے۔ عطر دراصل تیل
ہوتا ہے جسے مختلف نباتاتی ذرائع جیسے پھول، پودوں اَور درختوں کی لکڑی یا چھال سے
حاصل کیا جاتا ہے۔
اگر
ہم خوشبو کی تاریخ جاننے کی کوشش کریں تو خوشبو کا سفر بہت پرانا ہے۔ خوشبو بنانے کے فن کا آغاز، قدیم
میسوپوٹیمیا، مصر، وادیٔ سندھ کی تہذیب یا شاید قدیم چین سے ہوا۔ بعد میں اسے
رومیوں اور عربوں نے مزید نکھار بخشا۔ قدیم تہذیبوں بابل و نینوا اور یونان کی
داستانوں میں بھی خوشبو کا ذکر موجود ہے۔
خوشبو کو سنت سمجھ کر
لگائیں لیکن اگر ہم دنیا وی اعتبار سے دیکھیں تو اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ کے مزاج پر اثر انداز ہو کر اسے خوشگوار بنا
دیتی ہے نیز اس سے آپ کا حوصلہ بلند ہوتا ہے۔ ہر خوشبو کا اپنا ہی ایک مزاج ہوتا
ہے، اس لیے جس بھی تقریب میں جائیں، اس کے مطابق لگائی گئی خوشبو دوسروں پر آپ کا
ایک مثبت تاثر چھوڑے گی۔
۱۔ مزاج خوشگوار کرتی ہے
۲۔ پُر اعتماد شخصیت
۳۔ پرکشش بناتی ہے
۴۔ اچھی صحت میں معاون
۵۔ پُرسکون نیند
۔ آپ کی ذات سے میل کھاتی ایک خوشبو نہ صرف آپ کو مسحورکن احساس دلائے گی بلکہ آپ کو دوسروں کی
نظر میں ممتاز بھی کر دے گی۔
https://islamicrevolutionpk.blogspot.com/2023/08/blog-post_11.html
الحمد للہ !!ہم مسلمان ہیں اور ہم اپنے پیارے آقاﷺ کے ہر عمل کو اپنی زندگی میں نافذکرنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں اور اس کا کامل ارادہ بھی ۔توپھر آپ بھی سنت کی نیت سے خوشبولگائیں اور خوب خوب اس کی برکتیں پائیں۔۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں