نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پاوں کی حفاظت اور اس کی حکمتیں



پاوں کی حفاظت اور اس کی حکمتیں 

جوتے پہننا سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنّت ہے۔ جوتے پہننے سے کنکر، کانٹے وغیرہ چبھنے سے پاؤں کی حفاظت رہتی ہے دیگر فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔

صحت سے متعلق مضمون گردن میں درد کیوں ہوتاہے ؟

فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:

جوتے بکثرت استعمال کروکہ آدمی جب تک جوتے پہنے ہوتا ہے گویا وہ سوار ہوتا ہے(یعنی چلنے کی مشقت سے بچ جاتا ہے جس طرح  سواردھول پتھر اور کانٹے سے بچ جاتا ہے

(مسلم، ص894، حدیث:5494مراٰۃ المناجیح،ج6،ص141

 

٭فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

 جب تم میں سے کوئی جوتے پہنے تو دائیں (یعنی سیدھی) جانب سے ابتدا کرے اور جب اُتارے تو بائیں (یعنی اُلٹی)جانب سے ابتدا کرے تاکہ دایاں (یعنی سیدھا) پاؤں پہننے میں اوّل اور اُتارنے میں آخِری رہے۔

 (بخاری،ج4،ص65،حدیث: 5855) 

سبحان اللہ !!بہتر اور محتاط زندگی گزارنے کے لیے  پیارے آقاﷺ کی سیرت ہمارے لیے بہترین اور عمدہ رول ماڈل ہے ۔جوتاپہننے کے متعلق بھی  اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی۔

سیرت رسول ﷺ سے معلوم ہوتاہے کہ :

٭جوتے پہننے سے پہلے جھاڑ لیجئے تاکہ کیڑا یا کنکر وغیرہ ہو تو نکل جائے۔

 ٭کسی بھی رنگ (Color) کا جوتا پہننا اگرچہ جائز ہے لیکن پیلے (Yellow) رنگ کے جوتے پہننا بہتر ہے کہ مولا مشکل کشا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ وجہَہُ الکریم فرماتے ہیں:

جو پیلے جوتے پہنے گا اس کی فِکروں میں کمی ہوگی۔

(تفسیرنسفی، پ1، البقرۃ، تحت الآیۃ:69، ص58)

 ٭استعمالی  (In Use)جوتا اُٹھانے کے لئے اُلٹے ہاتھ کا انگوٹھا اور برابر والی انگلی استعمال کریں ۔

٭مَرد مردانہ اور عورت زَنانہ جوتا استِعمال کرے۔

٭جب بیٹھیں تو جوتے اتار لیجئے کہ اِس سے قدم آرام پاتے ہیں۔

آئیے :جوتے  کا استعمال اور اس سے متعلق کچھ مفید مشورے

 بھی آپکو پیش کرتے ہیں

چوٹ سے تحفظ۔(Protection from injury)

 جوتے آپ کے پیروں کو تیز چیزوں، گرم سطحوں اور دیگر خطرات سے بچاتے ہیں جن کا آپ کو زمین پر سامنا ہو سکتا ہے۔ وہ چوٹوں کو روکنے میں بھی مدد کرتے ہیں جیسے پھٹی ہوئی انگلیوں، ٹخنوں میں موچ، اور ٹوٹی ہڈیاں۔

 

آرک سپورٹ۔(Arch support) 
اچھی آرچ سپورٹ والے جوتے پیروں، ٹخنوں، گھٹنوں اور کمر میں درد اور تکلیف کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں
۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو چپٹے پاؤں یا پاؤں کے دیگر مسائل ہیں۔
 
جھٹکے سے محفوظ.( Shock absorption)
 جوتے چلنے اور دوڑنے کے جھٹکے کو جذب کرنے میں مدد کرتے ہیں،
 جو آپ کے جوڑوں کو نقصان سے بچا سکتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے اہم ہے جو زیادہ اثر والی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔
 
انفیکشن کی روک تھام.( Prevention of infections)
 جوتے جلد اور زمین کے درمیان رکاوٹ فراہم کرکے پیروں کے انفیکشن کو روکنے میں مدد کرسکتے ہیں۔
 یہ خاص طور پر ان علاقوں میں اہم ہے جہاں بہت زیادہ گندگی، دھول یا جانوروں کا فضلہ ہے۔
 
بہتر جوتے ۔(Improved posture)
 ایسے جوتے پہننا جو اچھی طرح سے فٹ ہوں اور اچھی مدد فراہم کریں ۔ اس کی وجہ یہ ہے
 کہ آپ کے پاؤں اور ٹخنے ٹھیک طرح سے سیدھ میں ہیں، جو آپ کی ریڑھ کی ہڈی کو سیدھی لائن میں رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
ایکسٹرو:
سنت رسول میں خیر و برکت ہے ۔سنت رسول اپنائیں زندگی میں خیر ہی خیر پائیں ۔
 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا