نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غذاوں میں فلیور کا استعمال اور اس کی تفصیل


 

غذاوں میں فلیور کا استعمال اور اس کی تفصیل

ہم حلال فوڈ کے حوالے سے مفید معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی فلیور کی صورت میں پیش ہے ۔بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی جانب۔



ذائقے کو کھانے کے ذائقے کو بہتر بنانے اور پروسیسنگ کی وجہ سے ذائقہ کی کمی کو بحال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ذائقہ سازی کی مثالیں چینی، نمک، سرکہ، مونوسوڈیم گلوٹامیٹ (MSG)، اسپارٹیم اور مصنوعی جوہر جیسے پینٹائل ایتھانویٹ ہیں۔



قارئین:آئیے ذرا ٹیبل کی صورت میں اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

·          

Flavouring

Example

Function

مونوسوڈیم گلوٹامیٹ (MSG)
 
یہ گلوٹامک ایسڈ کا سوڈیم نمک ہے۔

 

·         .

منجمد کھانا، مصالحہ جات، ڈبہ بند اور خشک سوپ، سلاد ڈریسنگ اور گوشت یا مچھلی پر مبنی مصنوعات
کھانے کی کئی اقسام میں ذائقہ نکالنا

.

یہ ایک غیر چینی میٹھا ہے۔
• یہ چینی سے تقریباً 200 گنا زیادہ میٹھا ہے۔
• اس میں چینی سے کم کیلوریز ہوتی ہیں۔
• جب خشک یا منجمد ہو تو یہ مستحکم ہوتا ہے لیکن 30 ° C سے زیادہ درجہ حرارت پر مائعات میں ذخیرہ کرنے پر یہ ٹوٹ جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی مٹھاس کھو دیتا ہے۔

·         .

ڈائیٹ ڈرنکس، کم کیلوری والے منجمد میٹھے اور کچھ سافٹ ڈرنکس
کھانا میٹھا کرنا۔
مصنوعی جوہر پینٹائل
اس میں مرکبات شامل ہیں جو ایسٹرز کی ہم جنس سیریز سے تعلق رکھتے ہیں۔
اصلی پھلوں کے استعمال کے مقابلے ان مصنوعی ذائقوں کا استعمال سستا ہے۔
پینٹائل ایتھانویٹ (کیلے کا ذائقہ)، ایتھائل بیوٹانویٹ (انناس کا ذائقہ)، میتھائل بیوٹانویٹ (سیب کا ذائقہ) اور اوکٹائل ایتھانویٹ (سنتری کا ذائقہ)
مصنوعی ذائقے تیار کرنا جو قدرتی ذائقوں سے ملتے جلتے ہوں۔

.

 


قارئین ہم نے ذائقہ کے حوالے سے بنیادی اور اہم معلومات آپ تک پہنچانے کی  کوکوشش کی ۔یہ مضامین کافی توجہ طلب اور باریک بین ہیں چنانچہ ہمیں تحریر کرتے ہوئے بھی کافی محنت درکار تھی ۔ہماری نیت فقط یہ ہے کہ علمی مفید معلومات آپ تک پہنچے اور اللہ پاک ہم سے راضی ہوجائے ۔۔۔ہماری تحریر آپکو فائدہ پہنچائے تو ہمارے حق میں عا کردیجئے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر (حال مقیم کراچی )


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا