نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کرئیٹین کا استعمال اور اس کے فوائد کیا ہیں ؟حلال فوڈ سیریز




کرئیٹین  کا استعمال اور اس کے فوائد کیا ہیں ؟حلال فوڈ سیریز

ہم نے کریٹین کا تعارف جانا اب ذرا یہ بھی جان لیتے ہیں کہ کیا اس کا کوئی فائدہ بھی ہے ۔تو بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی جانب۔

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ دنیا بھر میں کریٔٹین زیادہ شدیدHigh-intensity)) اور مختصر مدت کی سرگرمیوں(Short duration activities، مثلاً: وزن اٹھانے (Weight lifting)میں، کارکردگی (Performance)کو بہتر بنانے کے لیے کچھ فائدہ فراہم کرتے ہیں۔ یہ پٹھوں کی تھکاوٹ(Muscle Fatigue)کو بھی کم کرتے ہیں ۔



یہ لیکٹک ایسڈ (Lactic acid)جو پٹھوں کی تھکاوٹ کا سبب بنتاہے ، کو کم کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ کریٔٹین کھلاڑیوں (Athletes) اور باڈی بلڈرز(Body Builders) کے ہاں بہت مقبول ہے۔ بہت سی کھیلوں کی ایسوسی ایشنز (Athletic Associations)کی طرف سے پابندی عائد نہیں ہے، البتہ بعض نے اس کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیاہے کیونکہ کارکردگی بڑھانے والی سپلمنٹس کااستعمال ممکنہ طور پر دیگر خطرناک سپلمنٹس(Risky supplements) اورمنشیات(Drugs) کے استعمال کی صورت کا باعث بن سکتا ہے۔



پٹھوں میں اضافہ(Muscle Mass): کچھ تحقیقات نے دبلے پتلے پٹھوں میں بڑے پیمانہ میں اضافہ دکھایاہے۔ پٹھوں میں کریٔٹین پانی کو اپنی طرف متوجہ کرتاہے۔ یہ نتیجہ کریٔٹین کی مختلف خوراک استعمال کیے جانے کے بعد حاصل ہوا ہے۔



تاہم کریٔٹین کی ایک محفوظ اور مؤثر خوراک کا واضح ہو نا مزید تحقیقات پر موقوف ہے۔
مختلف بیماریوں میں کمی:وہ لوگ جن کے پٹھوں کے خلیوں (
Cells)میں کریٔٹین کی کمی کی وجہ سے غیر معمولی صورت حال ہو۔ کریٔٹین کا استعمال پٹھوں کی طاقت کو بہتری کی طرف لے جاتاہے ۔ مثلاً پارکنسز (Parkinson`s) میں مبتلا اشخاص جنہیں پٹھوں کی طاقت میں کمی اور بڑھتی ہوئی تھکاوٹ کی شکایت ہوتی ہے۔


قارئین :آپ جڑے رہیں islamicrevolutionpk.blogspot.comسے اور سیکھتے چلے جائیں ۔مفید اور موثر معلومات ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دعا میں یادرکھئے گا۔۔۔۔

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر 

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا