نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کوفتنوں سے بچانے کے موثر طریقے



بچوں  کوفتنوں سے بچانے کے موثر طریقے

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(ایم اے ماس کمیونیکشن)

 

حضور نبی کریم ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ امت میں فتنے پیدا ہوں گے فتنہ دراصل آزمائش کوکہتے ہیں آج ہم دیکھتے ہیں عملی اور علمی فتنے پھیلے ہوئے  بہت تیزی سے لوگ ان فتنوں کے اثر کو قبول کررہے ہیں ۔ان فتوں کاجہاں بڑے شکار ہورہے ہیں وہاں سوشل میڈیا  کے ذریعے بچے بھی بے عملی اور بدعقیدگی کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں ۔جوکہ ایک قابل تشویش امر ہے ۔جس پر والدین کو بہت سنجیدگی سے غور کرناہوگا۔آئیے ہم آپ کوروز مرہ زندگی میں کچھ ایسے طریقے بتاتے ہیں جن کی مدد سے آپ خود بھی اور اپنی نسلوں کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرسکتے ہیں ۔

قارئین:

یہاں کچھ عملی تجاویز ہیں جو بچوں کو منفی اثرات اور فتنوں سے بچانے میں مدد کر سکتی ہیں لیکن اس میں والدین کی سنجیدگی  بہت اہم کردار کرے گی ۔

سوچنے کی عادت ڈالیں:

آپ کے بچے آپ کا اثاثہ ہیں ۔انھیں  ضائع مت کیجئے ۔اس عمر ہی سے انھیں درست اور غلط کے متعلق سوچنے کا ذہن دیجئے ۔تاکہ وہ چیزوں میں فرق کرنے کی کوشش کرسکیں۔

ترغیب دیں:

بچوں کا جب جب موقع ملے ۔اچھے اخلاق اپنانے اور بُرے اخلاق سے بچنے کی ترغیب دیتے رہیں ۔غلط سوچوں سے بچنے ،غلط لوگوں کے صحبت سے بچنے کی ترغیب دیتے رہیں۔

سبق آموز کہانیاں:

اپنے بچوں کو دور حاضر کے فتنوں  سے بچانے کے لیے سبق آموز کہانیاں سنائیں ۔انھیں بُرے عقائد ،بُری سوچ اور بُرے کام کرنے والوں کاانجام بتاکرفتوں سے دُور رکھنے کی کوشش کیجئے ۔

بچوں کو مضبوط خاندانی نظام دیں :

بچوں کو ایک مضبوط خاندانی نظام فراہم کریں ۔تاکہ وہ باہر کہیں ہمدردی ،غلط فہمی یا کسی اور بنیادپر کسی اور سے متاثر ہوکر اپنے  بُرے عقیدے یا  بُری صحبت کا شکارہوجائیں ۔بلکہ انھیں اپنے ہی خاندان پر اعتماد بھی میسرآئے ،ہمت بھی ملے اور وہ ذہن میں پیداہونے والے ہرسوال کا جواب بلاجھجک پوچھ کر تشفی حاصل کرسکیں ۔ 

صحیح اور غلط کا شعور:

بچوں کو اچھے اور نقصان دہ انتخاب کے درمیان فرق کو سمجھنے میں مدد کریں، چاہے ان کے رویے میں ہوں یا میڈیا کے استعمال میں۔غیر صحت مند تعلقات، ساتھیوں کے دباؤ، اور آن لائن نقصان دہ مواد کی نمائش کے خطرات پر تبادلہ خیال کریں۔

بچوں کی مانیٹرنگ:

ٹیکنالوجی کو ذمہ داری سے استعمال کرنے میں بچوں کی رہنمائی کریں۔آلات پر پیرنٹل کنٹرولز استعمال کریں اور ان کی آن لائن سرگرمیوں کی نگرانی کریں تاکہ انہیں نامناسب مواد سے محفوظ رکھا جا سکے۔انہیں ڈیجیٹل ایجوکیشن کے بارے میں سکھائیں ۔نامناسب ویب سائٹس، اور آن لائن شکاریوں کے خطرات سے بھی آگاہ کریں ۔

ایک معاون سماجی حلقہ بنائیں:

ایسے بچوں کے ساتھ دوستی کی حوصلہ افزائی کریں جن کی اچھی تربیت اور گھر کا ماحول بہتر ہو۔انھیں دینی اجتماعات اور تقاریب اور علما اور دینی شخصیات سے ملوائیں ان کے ساتھ ان کے سماجی رابطے ممکن بنائیں ۔تاکہ یہ ایسی صحبت کا اثر قبول کرکے آنے والے فتوں کی مذمت اور قباحت جان کر ان سے بچ سکیں ۔

سراپہ ترغیب بنیں :

بچے اپنے والدین کو دیکھ کر سیکھتے ہیں، اس لیے ان کے لیے رول ماڈل بنیں۔ ایمانداری، مہربانی اور ذمہ داری کے لحاظ سے آپ جو  تربیت کرتے ہیں اس پر عمل کریں گے ۔چیلنجوں کا سامنا کرتے وقت سکون اور صبر کا مظاہرہ کریں، اور انہیں دکھائیں کہ اخلاقی فیصلے کیسے کریں۔

پوچھنے کا حق دیں:

ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں بچے آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں، سوالات پوچھ سکیں اور فیصلے کے خوف کے بغیر اپنے جذبات پر گفتگو کر سکیں۔ان کے خدشات کو ہمدردی کے ساتھ حل کریں اور اقدار کی بنیاد پر رہنمائی فراہم کریں، خوف یا سزا کی نہیں۔

انہیں خود پر قابو سکھائیں:

اہداف مقرر کرکے اور ذمہ دارانہ انتخاب کرکے بچوں کو خود نظم و ضبط پیدا کرنے کی ترغیب دیں۔جب وہ اچھے فیصلے کرتے ہیں تو ان کی تعریف کریں، اور ضبط نفس اور احتساب کی اہمیت سکھاتے ہوئے نرمی سے اپنی غلطیوں کو درست کرنے کے طریقے بھی سیکھائیں ۔

متوازن سرگرمیاں متعارف کروائیں:

بچوں کو مشاغل، کھیلوں اور تخلیقی سرگرمیوں میں شامل کریں جو ان کی دلچسپیوں کے مطابق ہوں، صحت مند نشوونما کو فروغ دیں اور انہیں مذہب مخالف ،بُرے کردار اپنانے جیسی سوچ سے دور رکھیں۔اسکرینز اور سوشل میڈیا پر انحصار کم کرنے کے لیے بیرونی سرگرمیوں اور خاندانی دوروں کے مواقع فراہم کریں۔

تنقیدی سوچ کی حوصلہ افزائی کریں:

بچوں کو اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں تنقیدی انداز میں سوچنا سکھائیں۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ سوالات پوچھیں، خیالات کو چیلنج کریں، اور صحیح اور غلط کے بارے میں ان کی اپنی سمجھ پیدا کریں۔ان کی یہ سمجھنے میں مدد کریں کہ ساتھیوں کا دباؤ اور جو کچھ ٹرینڈ چل رہاہوتاہے ضروری نہیں کہ وہ سب درست بھی ہو۔

نہیں کہنے کی طاقت سکھائیں:

بچوں کو اعتماد سے آراستہ کریں کہ وہ ایسے حالات کو نہ کہنے کے لیے جو انھیں بے چین کرتے ہیں یا ان کی اقدار سے سمجھوتہ کرتے ہیں۔کردار ادا کرنے کے منظرنامے جہاں انہیں دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور انہیں مضبوط ردعمل پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

دعا کریں اور روحانی رہنمائی کریں:

اپنے بچوں کو عبادت کی عادت ڈالیں ۔ان کے دل میں روحانیت کی اہمیت پیداکریں ۔انھیں یہ ذہن دیں کہ ان کے ہرمسئلے کا حل اللہ پاک  کی عبادت اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت میں ہے ۔نیز بچوں سے گھر میں دعائیں کروائیں ،نعتیں پڑھوائیں ،دینی تقاریر کروائیں ،کوئیز مقابلے کروائیں ۔اللہ پاک سے مدد مانگنے کی روزانہ کی بنیاد پر عادت ڈالیں ۔انھیں ذکر و اذکار کا عادی بنائیں ۔

جذبات پر قابوپاناسيكهائيں:

بچوں کو سکھائیں کہ ان کے جذبات، خاص طور پر مایوسی، غصے یا اداسی کو صحت مند طریقوں سے کیسے کنٹرول کیا جاسکتاہے ۔ذہن سازی کی تکنیکیں متعارف کروائیں، جیسے گہری سانس لینے،واک کرنے ، مراقبہ، تاکہ ان کو تناؤ اور آزمائش پر قابو پانے میں مدد ملے۔

دین پر مضبوطی سے جمے رہنے کی تلقین:

بچوں کو کم عمر ہی سے دینی شعار سیکھائیں۔ان کے دل میں دین کی محبت پیداکریں اور انھیں آہستہ آہستہ یہ بات محسوس کروائیں کے دین ہمارا خیر خواہ ہے ۔بچوں کا پابند بنانے کے لیے مناسب طریقے اپنائیں ۔بچوں کو تلقین کریں کہ وہ کسی بھی فتنہ یا آزمائش کے وقت دین پر ثابت قدم رہیں اور اللہ سے مدد مانگیں۔

قارئین:

اپنے بچوں کو جہاں اچھا مکان اور سہولت سے بھرپور زندگی  کے مواقع فراہم کرتے ہیں وہاں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اور فتنوں اور چینلجنز کے  مقابلے کے لیے بھی ضروری ذہن سازی اور تربیت کریں ۔جیسے جیسے وقت گزرتاچلاجارہاہے۔غیر اخلاقی اور مذہب مخالف سوچ بڑھتی چلی جارہی ہے ۔خود بھی محتاط رہیے اور اپنی نسلوں کو بھی شعور دیجئے ۔اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصرہو۔

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فلسطین کی باتیں (فلسطین کے معنی)

 ف ل س ط ي ن  کی باتیں ( ف ل س ط ي ن  کے معنی) تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) میں ایک عرصے سے تحریر و تحقیق سے وابستہ ہوں ۔کئی موضوعات پر لکھابھی اور بولابھی ۔لیکن آج اپریل 2025 کو جب میں فلسطین کے بارے میں لکھنے لگاتو میری روح کانپ رہی تھی ۔ضمیر ندامت و پشیمان ،ہاتھ کپکپارہے تھے ۔ذہن پر ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری ہے ۔لیکن سوچا کہ میں اپنے حصے کا جو کام کرسکتاہوں کہیں اس میں مجھ سے کوئی غفلت نہ ہو ۔چنانچہ سوچاآپ پیاروں سے کیوں نہ فلسطین کی باتیں کرلی جائیں ۔ قارئین :میں نے سوچا کیوں نہ لفظ فلسطین کی لفظی و لغوی بحث کو آپ کی معلومات کے لیے پیش کیاجائے ۔ فلسطین! ایک ایسا نام جو صرف جغرافیائی حدود یا قوموں کی پہچان نہیں، بلکہ ایک مقدس سرزمین، انبیاء کی جائے قیام، مسلمانوں کا قبلۂ اول، اور دنیا بھر کے مظلوموں کی علامت بن چکا ہے۔ اس تحریر میں ہم "فلسطین" کے معنی اور مفہوم کو لغوی، تاریخی، اور اسلامی زاویوں سے اجاگر کریں گے۔ لغوی تجزیہ: لفظ "فلسطین" " فلسطین" کا لفظ غالباً قدیم سامی زبانوں جیسے عبرانی یا آرامی سے آیا ہے۔ اکثر ...

بیٹیوں کی باتیں

بیٹیوں کی باتیں تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) یہ بات ہے آج سے ٹھیک 15سال پہلے کی جب ہم اسٹار گیٹ کراچی میں رہتے تھے ۔اللہ کریم نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔جب علی میڈیکل اسپتال کی ڈاکٹرنے مجھے بتایاکہ اللہ پاک نے آپکو بیٹی عطافرمائی ہے ۔میری خوشی کی انتہانہیں تھی ۔آپ یقین کریں اس بیٹی کی ولادت کے صدقے رب نے مجھے بہت نواز مجھے خیر ہی خیر ملی ۔آج وہ بیٹی نورالایمان  کے نام سے حافظہ نورالایمان  بن چکی ہیں ایک اچھی رائٹر کے طورپر مضامین بھی لکھتی ہیں ۔بیانات بھی کرتی ہیں اور اپنے بابا کو آئے دن دینی مسائل  کے بارے میں بھی بتاتی ہیں،گھر میں فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں و توفیق من اللہ سے تہجد کا اہتمام بھی کرواتی ہیں ، میراخیال بھی بہت رکھتی ہیں ۔جبکہ نورالعین سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو بے انتہاپیارکرتی ہیں کتناہی تھکان ہو وہ سینے سے لپٹ جاتی ہیں تو سب غم غلط ہوجاتے ہیں ۔میں اپنی بیٹیوں کی داستان و کہانی آپ پیاروں کو اس لیے سنارہاوہوں کہ تاکہ آپ کو ٹھیک سے معلوم ہوسکے کہ ایک باپ بیٹیوں کو کیسا محسوس کرتاہے اور بیٹیوں کو والدین سے کتنا حسین تعلق...

"ڈی این اے میں چھپا روحانی کوڈ؟"

" DNA میں چھپا روحانی کوڈ؟ " تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)  ہم روٹین کی روایتی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں ۔لیکن ہم اس کائنات کے رازوں پر غور کی زحمت نہیں کرتے ۔میں بھی  عمومی زندگی گزارنے والا شخص ہی ہوں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے مطالعہ ،مشاہد ہ بڑھتارہامجھے کھوج لگانے ،سوچنے اور سمجھنے کا ذوق ملا۔اس کافائدہ یہ ہوا کہ مجھ پر علم نئی جہات کھُلی ۔بات کہیں طویل نہ ہوجائے ۔میں کافی وقت سے سوچ رہاتھا کہ اس دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ۔ڈین این اے کے ذریعے انسان کی نسلوں تک کےراز معلوم کیے جارہے ہیں ۔میں سوچ رہاتھاکہ کیا ڈین این اے ہماری عبادت یاپھر عبادت میں غفلت کوئی اثر ڈالتی ہے یانہیں ۔بہت غوروفکر اور اسٹڈی کے بعد کچھ نتائج ملے ۔ایک طالب علم کی حیثیت سے آپ سے شئیر بھی کرتاہوں ۔ممکن ہے کہ میری یہ کوشش آپ کے لیے بھی ایک لرننگ پراسس ثابت ہو۔ قارئین: ایک سوال ذہن میں آتاہے کہ کیاکیا نماز پڑھنے، روزہ رکھنے یا ذکر کرنے سے صرف ثواب ملتا ہے؟یا … آپ کی عبادتیں آپ کے DNA پر بھی اثر ڈالتی ہیں؟ یہ ہے تواچھوتاسوال آئیے ذرا اس کو حل کرتے ہیں ۔۔۔ قارئی...